کتنی عجیب بات ہے جس مسجد میں سوشل ڈسٹینسنگ کے ساتھ دس لوگ نماز نہیں پڑھ سکتے وہاں 100 سو اور دو دو سو کوڈ مریض رہیں گے۔!
جس ملک میں ایک مسجد کے مقابلہ دس سے بیس مندر ہو، سینکڑوں اسٹیڈیم ہوں، ہزاروں شاکھائیں ہوں، لاکھوں اسکول کالجز ہوں وہاں صرف مسلمانوں کو ہی سیکولر ہونے کا ثبوت دینا ہے۔!
کیا اب تک کسی مندر یا شاکھا والوں نے یہ پیش کش کی ہے کہ اسے بھی کوڈ سینٹر بنا لو۔
ٹھیک ہے انسانی خدمت اسلامی تعلیمات میں سے ہے اور کرنا بھی چاہیے لیکن کیا ہمارے پاس یہی ایک آپشن رہ گیا تھا کہ خالص مساجد کو سونے اور علاج و معالجہ کے لیے کسی اور کی تحویل میں دے دیں؟
نیم مولوی اور "سیکولر عبدل” مسجد نبوی سے استدلال کر رہے ہیں کہ نبی پاک کے دور مسجد نبوی میں یہ سب ہوتا تھا ان بھاوک غیر دانشمندوں سے عرض ہے کہ اس وقت مسجد نبوی کی حیثیت اک اسلامک سینٹر کی تھی نہ کہ خالص مسجد کی،
ہم تو برسوں سے کہتے آ رہے ہیں کہ مساجد کے ساتھ اسلامک سینٹرز قائم کیے جائیں جہاں نہ صرف نماز پڑھی جائے بلکہ عصری علوم حاصل کر رہے مسلمان بچوں کو اسلامی تعلیمات دی جائے انہیں اسلامی تاریخ سے روشناس کرایا جائے، وہیں ہیلتھ(طب) کا شعبہ بھی رکھا جائے اور بلا تفریق مذہب و ملت فری یا نہایت کم فیس پر سب کا علاج و معالجہ کیا جائے، اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
خیر بات چل رہی تھی مساجد کو کوڈ سینٹر بنانے کی تو اگر ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا تو تھوڑی دیر کے لیے سوچا جا سکتا تھا لیکن یہاں تو ایسا کچھ نہیں ہے۔
ہمارے پاس بڑے بڑے اسٹیڈیم اور پلے گراونڈ کے ساتھ بڑے بڑے ہال وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں تو مساجد جو خالص خدائے واحد کی عبادت کے لیے مختص ہیں اسے سیکولرزم کی پوجا ارچنا کے لیے پیش کرنا یہ ہوش مندی نہیں بلکہ غیر دانشمندی اور چاپلوسی ہے۔
ستر سالوں سے مسلمان سیکولر ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں لیکن اب تک کیا ہاتھ آیا؟
وہی غیر ملکی گھس پیٹھیا، دہشت گرد اور نہ جانے فسادات کے نام پر کیا کیا القابات و انعامات ملے کہ ملت کبھی بھلا نہیں سکتی۔!
چاپلوسی کیجیے لیکن دائرے میں رہ کر کیجیے۔
سیکولر ہونے کا ثبوت دیجئے لیکن ستر سالوں کی کارکردگی بھی سامنے رکھیے۔