دیوبند،22؍مئی (سمیر چودھری) جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے ایک بارپھر مسلمانان ہند سے یہ اپیل کی ہے کہ ملک میں کورنا وائرس جیسی مہلک بیماری پھیلنے کے بعد پید اہوئی صورت حال میں جمعیۃ علماء ہند کو چندہ نہ دے کر مسلمان پریشان حال لوگوں کی مدداور مدارس کی ا مداد کریں، کیونکہ ملک انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد اورامن وانصاف کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا اور آج مزدوروں، بے بسوں، محتاجوں، لاک ڈاؤن کے شکار متاثرین کی مدد کرنے والے لوگ کپڑوں سے پہنچانے جارہے ہیں۔ مولانا مدنی نے ملک میں جاری پرآشوب حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ پرست اور متعصب میڈیا کے جھانسے میں نہ آکر ملک کے عوام ہندو، مسلمان یا سکھ، عیسائی نہیں بلکہ ایک ہندوستانی کے طور پر متحد ہوکر کورونا وائرس سے مقابلہ کرتے ہوئے خود کو ملک کی ترقی کے لیے وقف کردیں۔انھوں نے اس بات پرگہرے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ کورونا وائرس کی وجہ سے جاری ملک گیر لاک ڈاؤن میں پریشان حال لوگوں اور مزدوروں کی تکلیف کے دوران بھی ملک کا میڈیا اور کچھ سیاست داں دونوں ملک میں نفرت کا زہر گھول رہے ہیں جس کا متعدد جگہ اثر بھی نظر آیا۔ ملک کی ہزار سالہ گنگا جمنی تہذیب کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس کی وجہ سے ملک میں نفرت کا زہر کم پھیلا اورعام لوگوں کے درمیان وہ اثر نہیں ہوا جس کی فرقہ پرست طاقتیں اور کچھ میڈیا امید کررہی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ کورونا وائرس کے نام پر اکثر الیکٹرانک میڈیا اور کچھ سیاست دانوں نے ملک بھر میں زہر گھولنے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے اور ملک میں پریشان حال مزدوروں کے بحران نے ملک اور قوم کو متحد کردیا اور اس طرح فرقہ پرست ناکام ہوگئے اورکورونانے بتادیا ہم سب ایک ہیں اور کوروناوائرس نے انسان کی انسانیت زندہ کرنے کا کام بھی کیا ہے۔مولانا مدنی نے کہاکہ فرقہ پرست عناصر اور میڈیا کورونا اوردیگر نام سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاکر صرف مسلمانوں کا نقصان نہیں کر رہے ہیں بلکہ ملک اور قوم کا بھی نقصان کر رہے ہیں اور ایسا کرنے والے لوگ ملک کے غدار تو ہوسکتے ہیں لیکن ملک کے وفادار قطعی نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے ایک بڑے طبقہ کو پریشان یا نظر انداز کرکے یا اقتصادی،سیاسی، سماجی اور تعلیمی نقصان پہنچاکر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ اس لئے ایسے میڈیا اور سیاست دانوں پر لگام لگایا جانا نہایت ضروری ہے ورنہ بیرون ملک میں اس سے ملک کی بدنامی تو ہوگی ہی، ملک بھی کھوکھلا ہوجائے گا، لیکن افسوس کہ حکومت خاموش رہ کر جیسے اس کی حمایت کررہی ہے۔مولانا مدنی نے خاص طور پر جمعیۃ علماء ہند کے تمام ممبروں سے ایک خصوصی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ وہ رمضان کے مبارک مہینے میں جمعیۃ علماء ہند کو چندہ نہ دے کر بلا لحاظ مذہب وملت پریشان حال لوگوں اور مدارس اسلامیہ خاص طور پر چھوٹے چھوٹے مدارس کو چندہ دیں۔ مولانا نے ایک سروے کے بعد اس کے حوالے سے کہاکہ پورے ملک میں جمعیۃ علماء ہند کی اپیل پر جس طرح مسلم تنظیمیں اور خاص طور پر جمعیۃ علماء ہند کے ورکرز نے غریبوں، محتاجوں، بیواؤں اور پریشان حال مزدوروں کے لئے کام کیا ہے وہ ایک ریکارڈ ہے اور ان کی شناخت کپڑوں سے ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جمعیۃ علماء ہند مختلف ریاستوں کے پریشان حال مزدوروں کو وطن واپس بھیجنے کے لیے کرایہ کا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان پورے ملک میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کر رہی ہے۔ یہ سلسلہ لاک ڈاؤن سے شروع ہوکر اب تک الحمد للہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں مسلمان وہی کررہے ہیں جو انہیں کرنا چاہئے اس کا حکم اسلام نے بھی دیا ہے انسانیت کی خدمت ایک بہت بڑافریضہ ہے جو اس ملک کامسلمان روزے کے دنوں میں بھی بھوک اور پیاس کا احساس نہ کرتے ہوئے اداکررہا ہے یہ سب ملک کا میڈیا نہیں دکھا رہا ہے لیکن بعض الیکٹرانک چینل اسے دکھارہے سوشل میڈیا پر اس کی تصویریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اخیر میں مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارا ملک صدیوں سے کثرت میں وحدت کی مثال رہا ہے، مذہبی ہم آہنگی، رواداری اور ایک دوسرے کا احترام اس کی شناخت رہی ہے اور یہی شناخت ملک کے آئین کی روح ہے، مگر افسوس کہ ایک طرف جہاں آئین و قانون کی بالادستی کو پامال کیا جارہا ہے وہیں دوسری طرف کچھ فرقہ پرست اور متعصب میڈیا مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دے کر قومی یکجہتی، رواداری، مساوات اور ملک کے بھائی چارے کو نیست و نابود کردینے کی سازشیں رچ رہا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کی صدیوں پرانی تاریخ شاہد ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے ماننے والے شروع سے امن اور محبت کے ساتھ گاؤں در گاؤں رہتے آئے ہیں۔ اس لیے میں اکثر یہ بات کہتا ہوں کہ ملک کسی ایک خاص مذہب اور مخصوص نظریہ کی حکمرانی پر نہیں چل سکتا بلکہ مذہبی غیرجانب داری، امن اور سیکولرزم کی راہ پر چل کر ہی یہ ملک ترقی کرسکتا ہے۔ انھوں نے انتباہ دیا کہ اگر ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ختم ہوئی اور مذہبی ہم آہنگی کا تانابانا ٹوٹ گیا تو یہ بات ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی۔ مولانا مدنی نے مزید کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کے اغراض و مقاصد کی چوتھی دفعہ بین المذاہب کام کرنے پر زور دیتی ہے۔ جمعیۃ کا یہ مشن آج کے حالات میں اور بھی ضروری ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج ہمارا ملک ترقی کی جن بلندیوں پر ہے، یہاں تک اسے پہنچانے کے لیے ملک کے ہر شہری نے اپنا تعاون دیا ہے۔ اس لیے اگر مذہب کی بنیاد پر کسی خاص طبقہ کی قربانیوں اور ان کی خدمات کو پس پشت ڈال کر ملک کے قومی دھارے سے الگ تھلگ کردینے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے کسی قوم یا فرد واحد کا نقصان نہیں بلکہ ملک کا نقصان ہے۔