Site icon Asre Hazir

ٹوئٹر پر ’نبی رحمت‘ اور ’سب کے محمد‘ کیوں ٹرینڈ کر رہا ہے؟

نئی دہلی: 21/اکٹوبر (بی بی سی اردو) انڈیا میں سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر صبح صبح #ProphetofCompassion یعنی ‘نبی رحمت’ اور #MuhammadForAll یعنی ‘سب کے محمد’ کے ٹرینڈز کسی کے لیے بھی باعث حیرت ہو سکتے ہیں۔سوشل میڈیا پر ٹرینڈز کا بھی اپنا ٹرینڈ ہوتا ہے۔ یہ دونوں ٹرینڈز اور اس کے متعلق ٹویٹس دیکھ کر پہلا خیال یہ آیا کہ آج کوئی اہم اسلامی تاریخ تو نہیں یا پھر کہیں کوئی بڑا واقع تو رونما نہیں ہوا۔اسی جستجو میں پتا چلا کہ یہ ٹرینڈ دراصل مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کے خلاف چلائے جانے والے کئی ہیش ٹیگز کے جواب میں ہیں۔اس گفتگو میں لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اس کے متعلق ابھی تک ٹوئٹس کی جا رہی ہیں جس میں پیغمبرِ اسلام کے اخلاق اور غیر مسلم مشاہیر کے اُن کے بارے میں قول بھی شیئر کیے جا رہے ہیں۔دراصل گذشتہ روز سے ہندی زبان میں ایک ہیش ٹیگ ‘مسلمانوں کا سمپرن بہشکار’ یعنی ‘مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ’ جاری تھا جبکہ پیغمبرِ اسلام کے حوالے سے کئی توہین آمیز ہیش ٹیگ بھی استعمال کیے گئے تھے۔ ان کے جواب میں پہلے #MuhammadForAll پھر ProphetOfCompassion ٹرینڈ کرنے لگا اور ان ہیش ٹیکز کے حوالے سے لاکھوں ٹویٹس سامنے آئیں۔ان ٹویٹس میں انڈیا کے معروف سماجی کارکن اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالب علم عمر خالد کی بھی متعدد ٹویٹس نظر آئیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ عام طور پر مذہبی چیزوں پر ردِعمل ظاہر نہیں کرتے ہیں لیکن انھوں نے: ’اس بار یہ دیکھا کہ منظم طور پر مسلمانوں کو نہ صرف پبلک پلیٹ فارم پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جا رہی ہے بلکہ انھیں اشتعال دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
’اس لیے ایک ترقی پسند شخص کے طور پر میں نے یہ مناسب سمجھا کہ اس میں دخل دیا جائے اور اشتعال انگیزی کو اپنی سطح پر روکنے کی کوشش کی جائے۔‘عمر کے بقول انھوں نے اپنے مسلسل دس ٹویٹس کے تھریڈ میں یہ بتانے کی کوشش ہے کہ وہ نفرت کا جواب کس طرح دے سکتے ہیں۔
عمر خالد نے لکھا: ’ہندوتوا بریگیڈ (ہمیں) تقسیم کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت میں اب وہ سر عام پیغمبر (اسلام) کی توہین کر رہے ہیں۔ ہم اس کا جواب کس طرح دیں؟ پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ نفرت کا بہترین جواب محبت اور دردمندی ہے۔‘
عمر خالد کے اس خیال کو ہزاروں لوگوں نے اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔ سنگھا مترا نامی صارف ان میں سے ایک ہیں۔
انھوں نے لکھا: ‘آج آپ نے مسلمانوں کی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کے امن کے پیغام کو پھیلانے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہمارے چاروں جانب محبت کا یہ جشن بہت اچھا ہے۔ امید کہ آپ لوگوں نے آج چند اچھی باتیں سیکھی ہوں گی۔ لیکن آپ کو بتا دوں کہ پیغمبر ساری انسانیت کے لیے آئے تھے نہ کہ صرف مسلمانوں کے لیے۔’
انڈیا میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے غیر مصدقہ آفیشل اکاؤنٹ سے لکھا گیا: ‘جب بعض لوگ نبی رحمت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم ان کا اسی انداز میں جواب نہیں دیتے۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہے کہ پیغمبر اسلام واقعی نبی رحمت تھے۔ ہمارے خیال میں محبت اور ہمدردی ہی نفرت اور مایوسی کا اصل علاج ہے۔’
اس ٹویٹ کو تین ہزار لوگوں نے لا‏ئک کیا ہے جبکہ ڈیڑھ ہزار صارفین نے ری ٹویٹ کیا ہے۔ اسی طرح عمر خالد کے ٹویٹس کو بھی ہزاروں مرتبہ ری ٹویٹ کیا گیا ہے اور ان پر مختلف قسم کے رد عمل سامنے آئے ہیں جن میں ہت آمیز چیزیں بھی ہیں۔
دوسری جانب اسی ہیش ٹیگ کے تحت ابھیجیت مجمدار نامی صحافی نے چند اعدادو شمار کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: ‘اسلام کے نام پر گذشتہ 30 دنوں کے دوران مارے جانے والے افراد کی فہرست۔’
عمر خالد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ‘یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ایک دوسری ہی سطح پر لے جانے کے مترادف ہے جہاں جذبات کو برانگیختہ کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ یہ ایک قسم کی ماب لنچنگ ہے۔ جہاں جسم کے بجائے روح اور جذبات کو مجروح کیا جا رہا ہے۔’
انھوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کی جانب سے کبھی بھی اس قسم کی نفرت انگیزی اور اشتعال انگیزی نہیں دیکھی گئی اور انھوں نے کسی بھی حال میں کبھی کسی مذہب کے رہنماؤں کے خلاف کوئی ہتک آمیز چیز نہیں کہیں ہے۔ خواہ وہ خصرت عیسی ک ہوں یا پھر رام یا کرشن ہوں۔’
شکیل انصاری نامی ایک صارف نے لکھا: ‘گائے کے نام پر کتنے قتل کیے تم نے، پھر بھی مسلمانوں نے بھگوان رام کو گالی نہیں دی۔
‘ایک غنڈے کے مرنے پر تم نے اللہ اور پیغمبر اسلام کو بے دریغ ہتک آمیز الفاظ کہے اور پھر بھی دیکھو بدلے میں کوئی مسلم شری رام کو گالی نہیں دے رہا ہے۔ یہ فرق ہے ہندو مسلم میں۔’
خیال رہے کہ جمعے کو ہندو سماج پارٹی کے سربراہ کملیش تیواری کو اترپردیش کے دارالحکومت میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ سنہ 2016 میں کملیش تیواری نے مبینہ طور پر پیغمبرِ اسلام کے خلاف توہین آمیز باتیں کی تھی جس سے مشتعل ہو کر دو افراد نے ان کے سر کی قیمت کا اعلان کیا تھا۔
پولیس اس قتل کو اسی پرانے قضیے کی نظر سے دیکھ رہی ہے اور اس سلسلے میں پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن وہ افراد بھی شامل ہیں جنھوں نے انعام کا اعلان کیا تھا جبکہ تین افراد کو گجرات کے شہر صورت سے پکڑا گیا ہے۔لیکن کملیش تیواری کے اہل خانہ مقامی بی جے پی لیڈر اور یہاں تک کہ ریاست کے وزیر اعلی کو ان کی موت کا ذمہ دار کہتے ہیں۔ایک مقامی چینل سے بات کے دوران جب اینکر نے ہندو مسلمان کی بات کی تو کملیش تیواری کی والدہ بھڑک اٹھیں اور انھوں نے اینکر کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا: ’ہندو مسلم والی بات آپ کہہ رہے ہیں ہم نہیں۔ آپ میں ہمت نہیں ہے کہ وزیر اعلی کا نام لیں۔ آپ ان کا نام لیں گے تو آپ کا چینل بند ہو جائے گا۔اس کے بعد انھوں نے مائک نکال دیا اور ٹی وی اینکر سے بات بند کر دی۔

ADVERTISEMENT
Exit mobile version