بالاکوٹ کی پہاڑی پر تحریک شہدین کی ناکامی اور پھرسلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد برصغیر کی مسلم قومیت کا شیرازہ بکھر چکا تھا،مسلمانوں کا خون سرد پڑچکا تھا،بحرظلمات میں گھوڑے دوڑادینے والے افسوس کی پہاڑی پر پناہ گزیں تھے،قیصروکسری کو دھول چٹادینے والے علمبرداران توحید فرنگی استبداد کے شکنجے میں تھے،ہندوستان کے مندروں،یورپ کے کلیساؤں اور افریقہ کے صحراؤں میں خدا کے گیت گانے والے مجاہدین آج برطانوی سامراج سے لرزہ براندام تھے۔۔۔
غیر منقسم ہندوستان کے افق پر گمراہی کے بادل چھارہے تھے،وحدانیت کے پرچم کی جگہ تثلیث کا علم لہرا رہا تھا،امن و امان کی جگہ فتنہ و فساد تھا،خرمن امن پر بجلیاں گر رہی تھیں،حریت کے بہ جائے غلامی کا طوق گلوں میں پڑا تھا۔۔۔دین اسلام کا تشخص مٹایا جارہا تھا،تہذیب اسلام کی شمعیں بجھنے لگی تھیں،شکوہ اسلام کو خطرہ لاحق تھا،تواتر کے ساتھ چلی آنے والی روایت گوروں کے رحم و کرم پر تھی۔۔۔
کہ یکایک دیوبند کے صحرا سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی،نانوتہ کا ایک مرد درویش تاریک ترین میدان میں وحدانیت کی شمع لے کر نکلا،نانوتوی نے دیوبند کی وادی میں کھڑے ہوکر علم کے حصول کے لیے آواز دی ۔۔
مولانا نانوتوی رح نے 1857/کی ناکامی کے بعد اپنے چند درویش ساتھیوں کو لے کر اسلامی تشخص کے احیا کے لیے 15/محرم الحرام 1283ھ/ مطابق 31/مئی 1866/ کو جمعرات کے دن دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھ کر ایک تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا
یہ آواز بہت قلیل مدت میں برصغیر کے گوشوں میں پھیل گئی،اقصائے عالم سے طلبہ کے ہجوم یہاں آکر خیمے ڈالنے لگے۔ پہلا سا جلال و بہادری،شجاعت و ہمت، عزم و استقلال اور ابراہیمی ایمان تازہ کرنے کے لیے انار کے درخت سے ایک محمودی زمزمہ پھوٹا،
ادھر مسلمانوں کی حکومت کا زوال ہورہا تھا اور اس طرف دیوبند کی سرزمین سے ایک اور آفتاب طلوع ہورہا تھا۔۔۔ اقبال کے حکمت آمیز مصرعہ "ادھر ڈوبے ادھر نکلے،ادھر ڈوبے ادھر نکلے” کا اس سے بڑا نمونہ اور کیا ہوسکتا ہے۔۔۔
انگریز اپنی فتح کا جشن منا رہے تھے؛مگر ہمارے اکابر و اسلاف نے توحید کی ایک اور شمع جلادی تھی،لارڈ میکالے اپنے غرور و نخوت میں مدہوش ہوکر خدا کے لہجے میں چیلنج کر رہا تھا اور ادھر یہ درویش خدا مست رب کے سامنے سجدہ ریز ہوکر ربانیت کا شجر لگا چکے تھے،دیوبند کی تحریک وسیع المقاصد مفادات کے حصول کے لیے اکابرین کی سب سے ہمہ گیر جدو جہد تھی۔ہندوستان میں رد بدعات کی صدا یہیں سے بلند ہوئی،برصغیر کی تاریخ میں سب سے پہلے دارالحدیث نامی عمارت اسی ادارے میں قائم ہوئی،اور اسی شجر طوبی کی شاخیں بساط ارض اور فضائے آسمانی سے گذر کر وہاں تک پہونچ گئیں جو حضرت نانوتوی کا منتہائے نظر تھا۔۔۔۔
اسی خاک سے تحریک دیوبند کے سب سے طاقتور سب سے ہمہ گیر اور سب سے ممتاز شخصیت کا خمیر اٹھتا ہے،جسے اہل دنیا تحریک ریشمی رومال کے نڈر قائد "شیخ الہند” کے نام سے جانتے ہیں۔۔
آپ جامعیت علوم و فنون میں ممتاز تھے،متکلمانہ و فلسفیانہ حیثیت کے مالک تھے مجاہدانہ سوز دروں،جودت طبع اور اخلاق فاضلہ میں راسخ القدم تھے،بریں بنا آپ کو تحریک دیوبند کا سرخیل اور شجر قاسمیت کا سب سے نمایاں ترجمان سمجھا جاتا ہے۔شیخ الہند ایک عالم ربانی اور عارف یزدانی تھا،جس کے پاس نہ ابوالکلام کی زبان تھی اور نہ شبلی کا سیال قلم تھا،نہ انقلاب فرانس کی تاریخ پڑھی نہ رومی فلسفہ سے آپ کی واقفیت تھی مگر ان تمام کے باوجود وہ صبرواستقامت کا کوہ گراں تھا،اس کے سینے میں حریت کے شعلے بھڑک رہے تھے وہ تحریک دیوبند برپا کرنے والوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے،دارالعلوم کا اندرونی مشن یا اساسی ہدف کی تکمیل کے لیے انھوں نے تحریک ریشمی رومال قائم کی ۔۔۔پورا ہندوستان انگریزوں سے حقوق طلبی کے لیے کوشاں تھا مگر شیخ الہند اس فرنگی حکومت کا تختہ الٹ دینے کا نقشہ تیار کر رہے تھے۔۔۔
تحریک دارالعلوم کی ہمہ گیریت اور اساسی ہدف کی درست شناخت کے لیے شیخ الہند کے افکار کی گہری واقفیت انتہائی ضروری ہے،شیخ الہند کے افکار کی درست واقفیت کے بغیر دیوبندیت کی درست تفہیم ممکن نہیں۔۔وہ بانیین دارالعلوم امداد و قاسم عابد ورشید فضل الرحمن و یعقوب رحمہم اللہ کے سب سے بڑے رازداں ہیں۔۔
شیخ الہند کو مذکورہ اسلاف سے ایسی ہی وابستگی ہے جو سلف میں علامہ سخاوی کو ابن حجر سے۔ابن قیم کو ابن تیمیہ سے اور علی ہیثمی کو اپنے شیخ عراقی سے۔۔کوشش کریں کہ شیخ الہند کے افکار پر مشتمل لٹریچر آپ کے مطالعے میں آجائے۔۔
آج اس ادارے کو قائم ہوئے ١٥٣/ سال کا عرصہ گزر چکا ہےاللہ اس ادارے کو اسی تابناک کردار کے ساتھ ہمیشہ زندہ رکھے،اس آفتاب کو کبھی گہن نہ لگے،اکابر کے اس شجر پر کبھی خزاں مسلط نہ ہو۔۔۔
ADVERTISEMENT