لکھنؤ: 11؍جون (پریس ریلیز) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکے کارگزار جنرل سکریٹری جناب مولانا خالدسیف اللہ رحمانی نے اپنے بیان میں کہا کہ ۱۷؍مئی ۲۰۲۱ء کو رات کے اندھیرے میں مسجد غریب نواز معروف تحصیل والی مسجد واقع تحصیل رام سنیہی گھاٹ بارہ بنکی کو کسی بھی قانونی جواز کے بغیر پولیس کے ذریعے شہید کردیاگیاتھا۔ یہ سوسالہ قدیم مسجد اترپردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ میں درج ہے اوراس مسجد کے سلسلے میں کبھی بھی کسی قسم کا کوئی فرقہ وارانہ اختلاف بھی نہیں ہوا۔مارچ میں ایس۔ڈی۔ایم۔ بارہ بنکی نے مسجد کمیٹی سے مسجد کے آراضی سے متعلق کاغذات طلب کئے۔اس نوٹس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیاگیا۔ کورٹ نے ۱۸؍مارچ سے ۱۵؍دن کی جواب داخل کرنے کی مہلت دی، اس کے بعد یکم اپریل کو جواب بھی داخل کردیاگیا۔ اس کے باوجود بھی ضلع افسران نے یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے قانون کوبالائے طاق رکھ کر اللہ کے اس گھر کو شہید کرکے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو زبردست ٹھیس پہونچائی۔جس کی مذمت غیرمسلمین نے بھی کی۔ اس جانب دارانہ، غیرمنصفانہ اورغیرآئینی کارروائی سے پوری دنیا میںایک بہت ہی غلط پیغام گیا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے ۱۸؍مئی کو جاری اپنے پریس بیان کے ذریعے سے حکومت سے مطالبہ کیاتھا کہ مسجد کے ملبے کووہاں سے منتقل کرنے سے روکے،جوں کی توں حالت برقرار رکھے۔ مسجد کی زمین پر کوئی دوسری تعمیر کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ جن افسران نے اس غیرقانونی حرکت کاارتکاب کیاہے ان کو معطل کیاجائے۔ اورہائی کورٹ کے جج کے ذریعے اس واقعے کی تحقیق کرائی جائے اورحکومت کا فرض ہے کہ وہ اسی جگہ پرمسجد تعمیرکراکر مسلمانوں کے حوالے کرے لیکن ان میں سے کوئی بھی مطالبہ پورا نہیں کیاگیا لہٰذاباشندگان بارہ بنکی جناب حشمت علی اورنعیم احمد اورآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس سلسلے میںایک رِٹ پٹیشن الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ایڈوکیٹ سعودرئیس کے ذریعہ داخل کی۔ اس پٹیشن پر پرسنل لابورڈ کے لیگل کمیٹی کے چیئرمین یوسف مچھالہ بحث کریںگے اوراترپردیش سنی وقف بورڈ کی جانب سے بھی رٹ پٹیشن الٰہ آباد ہائی کورٹ میں ایڈوکیٹ سیدآفتاب احمدکے ذریعہ داخل کی جس پر سینئرایڈوکیٹ جئے دیپ ماتھر بحث کریںگے۔ان دونوں پٹیشنوں میںاس بات پر زوردیاگیاہے کہ مقامی افسران کے ذریعے سے کی گئی انہدام کی کارروائی مکمل طورپر غیرآئینی اور غیرقانونی ہے اوررُول آف لاء کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اورچوں کہ مسجد کی زمین وقف ہے اس وجہ سے مجسٹریٹ یاکسی بھی دوسرے افسر کو اس پرکاروائی کا کوئی بھی قانونی حق حاصل نہیں ہے بلکہ ملک کے پارلیمنٹ کے ذریعہ بنایاگیا وقف ایکٹ کے مطابق اس مسئلے کو وقف ٹریبونل کے ذریعے سے حل کیاجانا چاہئے تھا جس کو مقامی افسروں نے بالکل ہی نظرانداز کردیا۔