بھوپال: 15؍دسمبر (عصرحاضر) ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں یونین کاربائیڈ فیکٹری سے آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر رہنے والے ایک ہزار سے زیادہ مسلم خاندان کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ حال ہی میں انتظامیہ کی جانب سے ایک غیر قانونی کالونی میں بنائے گئے ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا تھا۔ الزام ہے کہ یہ خاندان پچھلے 30 برسوں سے ریلوے کی زمین پر رہ رہے تھے۔ بھوپال گیس سانحہ ریلیف فنڈز کا استعمال کرتے ہوئے ان کی بازآبادکاری کی جانی تھی لیکن ابھی تک نہیں کی گئی۔
رواں سال فروری میں انتظامیہ نے گھروں کو مسمار کرنے کا نوٹس جاری کیا تھا اور یہ عمل 12 دسمبر سے شروع ہوا تھا۔ گیس لیکج سے متاثرین کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن رچنا ڈھینگرا نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 400 خاندانوں کو وقف بورڈ کی زمین پر منتقل کر دیا گیا ہے، جب کہ تقریباً ایک ہزار سے زائد خاندانوں کے پاس ریلوے پٹریوں پر رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ وہ پچھلے 30 سالوں سے یہاں رہ رہے تھے۔ یہ علاقہ یونین کاربائیڈ فیکٹری سے 400 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جس علاقے میں وہ رہ رہے تھے وہ فیکٹری کے خطرناک فضلہ کی وجہ سے انتہائی آلودہ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریاستی حکومت کو 2010 میں مرکز سے 40 کروڑ روپے کے فنڈز ملے تھے۔ یہ فنڈ ان غریب خاندانوں کی بحالی کے مقصد کے لیے مختص کیا گیا تھا لیکن اس رقم کو استعمال میں نہیں لایا گیا۔ متاثرہ افراد میں سے دو نے ذرائع کو بتایا کہ انہوں نے ضلع انتظامیہ، مقامی رکن اسمبلی اور وزراء سے رابطہ کیا ہے۔ تاہم انہیں زیادہ تر خالی ہاتھ چھوڑ دیا گیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ غریب خاندان سیاست کا شکار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ تقریباً 400 خاندانوں کو بھوپال وقف بورڈ کی زمین پر منتقل کیا گیا تھا، لیکن انہیں آنے والے دنوں میں متبادل جگہ تلاش کرنی ہوگی۔ ذرائع نے بتایا کہ انو نگر اور سری رام نگر کالونیاں غیر قانونی ہیں اور ریلوے کی زمین پر بنی ہیں۔ ریلوے نے پٹریوں کی توسیع کا منصوبہ بنایا ہے اس لیے اس کی زمین پر قائم تعمیرات کو گرا دیا جائے گا۔