مدرسہ عربیہ سلطان العلوم کے ایک باوفا، باصفا، بااثر، با خبر، بلند ہمت، نیک طینت، پاک سیرت، صاحب بصیرت اور علوم ومعرفت کے پیکر، استاذ حدیث وفقہ حضرت مولانا یاسین صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ رحمة واسعة کا یوں چلے جانا ہم شاگردوں پر بڑا ہی گراں بار ہے،
آپ نے نہ صرف شجرہ اسلام کی آبیاری کی بلکہ شہر گلستان میں ایک لہلہاتے ہوئے سرسبز وشاداب گلشن کو یوں چھوڑ گئے، جس کے برگ وشجر (أصلها ثابت وفرعها في السماء) کے مصداق روئے زمین پر موجود ہیں
آپ جامع کمالات، ماہرِ علم وفن تھے، آپ کا درس جامع ہوا کرتا تھا یوں کہا جائے تو بالکل بھی مبالغہ نہ ہوگا کہ گویا سمندر کو کوزے میں بھر دیا گیا ، علمی، ادبی، تحریری اور تقریری صلاحیت میں اپنی مثال خود آپ ہیں، آپ عظیم المرتبت، رفیع الشان، بلند پایہ اور برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک تھے،
آپ کے مزاج میں بہت سادگی تھی، آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عملی نمونہ اور اسلاف کے کردار کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے، مزاج میں خندہ پیشانی، مسکرانا، ہر ایک کے ساتھ عاجزی سے پیش آنا، کسی کی بات کو قطع نہ کرنا، یہ آپ کے اوصاف حمیدہ تھے، ہر ایک چاہے بڑا ہو یا چھوٹا ادب کرنا آپ کی فطرت تھی، طلبہ میں تربیت کا انداز بھی انوکھا تھا جب وہ بات کرتے تو ہر بات لعل وگہر کی طرح ہوتی، ہر بات اپنانے اور عمل کرنے کے لائق ہوتی، آپ ہمیشہ فضولیات و لغویات سے حد درجہ اجتناب کرتے تھے، جس محفل میں آپ بیٹھ جاتے اس میں آپ ہی آپ ہوتے
آج یہ ہنستا مسکراتا چمن اب خاموش ہوگیا سب کے چہرے پر ایک غم کی لہر اشکہائے فراق نظر آتے ہیں ، اس مغموم ومحزون دنیا کی آج آنکھ نم ہے،
ہم دعا گو ہیں اللہ تعالیٰ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو غریق رحمت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو نعم البدل عطافرماۓ، آمین