سیاسی و سماجی

شہریت ترمیمی قانون؛ وزیر داخلہ سے چند سوالات

اس وقت ہمارا ملک ہندوستان احتجاج اور مظاہروں سے گونج رہا ہے فلک بوس نعرے، جمہوریت بچاؤ اور قانون بچاؤ جیسے نعروں سے ہمارے کان ایک طریقہ سے مانوس ہو گئے ہیں، شہریت ترمیمی بل بلکہ قانون آنے کے بعد ہندوستان کا ہر شہری ذہنی اعتبار سے پریشان ہے اس لئے کہ اس کا انجام بڑا ہی بھیانک ہے وزیر داخلہ کتنا ہی کہیں کہ اس سے بھارت کے مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، سوائے منافقت کے کچھ بھی نہیں ہے، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں ہمارے ہندو بھائیوں کو مذہب کی بنیاد پر ستایا جاتا ہے وہاں انھیں تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے اگر وہ لوگ وہاں سے آکر ہمارے ملک میں شہریت حاصل کرنا چاہیں گے تو اس شہریت ترمیمی قانون کے تحت ان کو بھارت کی شہریت حاصل ہوگی،  لیکن ہمارا ایک سوال ہے کہ ان تینوں ممالک سے جو بھی یہاں آئیں گے تو کیا ضروری ہے کہ وہ مذہبی اور مسلکی تشدد سے چھٹکارا پانے کے لئے ہی آئے ہیں ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ آئی ایس آئی یا کسی خفیہ ایجنسی کے جاسوس اور ایجنٹ ہوں۔
وزیر داخلہ سے ہمارا دوسرا سوال یہ ہے کہ صرف مذہب کی بنیاد پر اختلاف اور تشدد نہیں ہوتے ہیں بلکہ نظریاتی اور فکری اختلاف کی بنیاد پر بھی ظلم و تشدد ہوتے ہیں پڑوس کے ملک پاکستان میں دیکھ لیجئے مسلمانوں کے درمیان ہی باہمی نظریاتی اختلاف کی وجہ سے کتنی رسہ کشی ہے حالانکہ مذہب ایک ہے،  تیسرا سوال یہ ہے جیسا کہ دہلی کے وزیر اعلی اروند کجریوال نے انٹر ویو دیتے ہوئے یہ سوال کھڑا کیا تھا کہ مذکورہ تینوں ممالک میں تقریبا تین کروڑ سے زیادہ ہندو ہیں اگر ان کو یہاں کی شہریت دیدی جائے تو حکومت ان کو کہاں بسائے گی؟ ان کی تعلیم کا کیا نظم ہوگا؟ ان کو نوکریاں حکومت کہاں سے دے گی؟ جب کہ خود ہمارے ملک میں کروڑوں نوجوان بےروزگار ہیں، ایک بیان میں وزیر داخلہ نے کہا کہ پہلے سی اے اے آئے گا اس کے بعد این آر سی نافذ ہوگا اور آگے جانبدارانہ بھڑکاؤ بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد گھس پیٹھیوں کو چن چن کر نکالا جائے گا، ظاہر ہے پورا نشانہ مسلمانوں پر ہے لیکن اس سے غیر مسلموں کو خوش نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ این آر سی کیلئے ایسے ڈوکیومینٹس اور دستاویزات ہونے کی شرط لگائی گئی ہے کہ اس سے صرف مسلمان ہی اس کی زد میں نہیں آئیں گے بلکہ غیر مسلم بھی کثرت سے اسکا شکار ہوں گے جیسا کہ آسام میں ہوا، دوسری طرف وزیراعظم نریندر مودی یہ کہتے ہوئے نہیں تھک رہے ہیں کہ ہم نے این آر سی کی بات کب کی ہے؟ ہمارے درمیان این آر سی کا تذکرہ تک نہیں ہوا ہے، صاف ظاہر ہے دونوں سربراہوں کے بیان میں اتنا تضاد یہ صرف ملک گیر پیمانے پر احتجاجات اور مظاہروں کی کار فرمائی ہے، اللہ ان ہی کے درمیان اور جماعت میں تفرقہ اور انتشار پھیلا دے ۔ اللہم خالف بین کلمتہم
کسی بھی جمہوری ملک میں قانون اور دستور کے تصادم و خلاف کوئی بل آئے جس کی وجہ سے آئین و دفعات کی رو سے کسی کا حق دبایا جا رہا ہو تو اس بل کے خلاف اور اسے واپس لینے کے لئے احتجاج اور مظاہرے کرنا عوام کا حق ہے لیکن یہ شرط ہے کہ وہ پرامن ہوں قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر ان پرامن احتجاج اور مظاہروں کو تشدد کی راہ پر لے جانا اس کا انجام خطرناک ہوسکتا ہے جیسا کہ دیکھا گیا بہت سے پرامن احتجاج کی بھیڑ میں کچھ شرپسند عناصر کی وجہ سے ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں، گیس کے گولے داغے گئے، گرفتاریاں ہوئیں، گھروں میں گھس کر نہتی ماؤں اور بہنوں کو ڈرایا دھمکایا گیا اور کتنے زیورات لوٹ لئے گئے، فیس بک واٹساپ اور دیگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز ان سب مناظر کی شاہد و گواہ ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جے این یو کے طلبہ اور طالبات کے ساتھ ان کے ہاسٹل اور کیمپوں میں گھس کر خاکی وردی کی موجودگی میں جو کچھ ہوا یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش اور ناپاک منصوبے کے تحت گوڈسے اور ساورکر کے حامیوں نے حکومت کی آڑ اور پشت پناہی میں کیا‘ ساری دنیا اس کی مذمت کر رہی ہے، جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جے این یو کے طلبہ نے انہیں جگا ہی نہیں دیا بلکہ ان کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا اور ملک کے گوشے گوشے میں یونیورسٹیز، کالجس اور مختلف اداروں کے طلبہ نے علاقائی، لسانی اور مذہبی افکار و خیالات سے بالاتر ہوکر اس سیاہ قانون کی مخالفت کی، ہمارے اکابرین خاص طور سے جمعیت علماء ھند، مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر ملی و مذہبی تنظیموں کے سربراہ اعلی زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں، صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند کو دارالعلوم دیوبند کی مہر کے ساتھ اس سیاہ قانون کے خلاف میمورنڈم پیش کیا گیا جبکہ دیگر اداروں کی جانب سے اس قانون کے خلاف ٹویٹ کے ذریعہ مہم چلائی جارہی ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب ظاہری و مادی اسباب کے درجہ میں ہیں جب تک مشیت ایزدی شامل حال نہ ہو حالات میں کسی طرح کی تبدیلی اور انقلاب ناممکن ہے اس لئے ان سب کے ساتھ ساتھ رجوع الی اللہ اور انابت الی اللہ شرط ہے اور الحمد للہ ثم الحمد للہ پورے ملک میں حسن ظن کے مطابق آیت کریمہ اور قنوت نازلہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے جگہ جگہ دعاؤں اور روزوں کا بھی اہتمام ہورہا ہے، ہماری مائیں اور بہنیں بھی کسی طرح اس میں پیچھے نہیں ہیں۔
ایک مومن و موحد ہونے کے ناطے ہمارا ایمان اور یقین ہونا چاہئے کہ یہ سب حالات ہمارے ہی گناہوں اور کرتوتوں کی وجہ ہیں ۔ وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ۔ دوسری طرف یہ حدیث قدسی ہے ۔ انا عند ظن عبدی بی ۔ کہ میرا بندہ میرے ساتھ جیسا گمان کرتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں، لھذا ہمارا، اللہ پر اس بات کا گمان ہی نہیں بلکہ یقین کامل ہونا چاہئے کہ ملک کے حالات سدھریں گے، پلٹی کھائیں گے، برسراقتدار حکومت کی سازشیں اور منصوبے خاک میں ملیں گے اور ظالم و جابر حکومت کا تختہ الٹے گا،

ان شاءاللہ
وما ذالک علی اللہ بعزیز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×