اسلامیات

سسکتی بلکتی انسانیت کے نام

دنیا میں بڑے بڑے انقلاب آتے رھتے ہیں کبھی سمندروں میں خلاف عادت پہاڑوں جیسی موجیں اٹھتی ہیں جو ساحلوں کو تہ وبالا کردیتی ہیں اور یہ سونامی آس پاس کی بلند وبالا کثیر منزلہ عمارتوں کو ایسے بَہَا لے جاتی ہے جیسے بارش کاپانی راستہ اور نالی کا کوڑا کرکٹ بَہَا لے جاتاھے، کبھی زمین ہلتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے عالیشان عمارتیں کھنڈروں میں تبدیل ہوجاتی ہیں، زمین میں ایسے غار اورگڑھے پڑجاتے ہیں جو انسان اپنی تمام تر طاقت بروئےکار لاکر بھی نہیں بناسکتا، کبھی آسمان سے اتنا پانی برستا ہے کہ کھیت باغات اور آبادیاں دریاؤں کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں، کبھی اس کے برخلاف ایسا سُوکھا پڑتا ہے کہ انسان اور دوسرے جانور گھاس، پانی، اور دانے دانے سے ترس جاتے ہیں، کالی آندھیاں، تیزوتند ہوائیں، دلوں کو دَہلادینے والی بادلوں کی گھور گرج اور آنکھوں کو چکاچوند کرنے والی آسمانی بجلیوں کی چمک اورکڑک جن سے انسان اتنا ڈر جاتا ہے کہ بس موت سامنے نظر آنے لگتی ہے کبھی وبائی بیماریوں سے گھر خالی ہوجاتے ہیں تو کبھی سربراہانِ مملکت آپس میں لڑبھڑ کر اپنی بنائی سنواری دنیا کو نا چاہتے ہوئے بھی اپنے ہاتھوں تباہ وبرباد کر دیتے ہیں اوربڑے بڑے دعوے کرنے والا یہ انسان، حسرت ویاس بےچینی اور کڑھن کے ساتھ یہ مناظر دیکھنے پر مجبور ہوتا ہے، سامان اور وسائل کی بہتات کے باوجود، اس عروج و ترقی کے دور میں بھی انسان اسی طرح عاجز و بےبس نظر آرہا ہے جس طرح آج سے سینکڑوں سال پہلے پتھر کے دور میں سنا گیا تھا
یہ انسان کبھی سردی کے سامنے بےبس تو کبھی گرمی کے سامنے، کبھی اپنی بیماری کے سامنے تو کبھی تنگدستی کے سامنے، کبھی دشمنوں کے سامنے تو کبھی اپنوں کے سامنے، جس کے چشم و ابرو کے اشارہ سے ملکی افواج حرکت میں آجاتی ہیں ایک دن وہی انسان سلاخوں کے پیچھے زندگی کی بھیک مانگتا ھوا نظر آتاھے، یہ سب تغیرات اور انقلابات کیا یہ بتاتے ہیں کہ نظامِ عالم کی باگ ڈور اس عاجز وبےبس انسان کے علاوہ کسی اور زبردست طاقت کے ہاتھوں میں ہے؟ کیوں نہیں بتاتے؟ بتاتے ہیں،
تاریخی کتابیں اپنے سینوں میں جو داستان چھپائے ہوئے ہیں اور اس دھرتی پر موجود کھنڈرات اور بلند وبالا ویران محلات جو راز اُگل رہے ہیں ان سے تو پتہ چلتا ہے کہ آسمانوں میں تو کیا زمین میں بھی حکومت زمین وآسمان کے پیدا کرنے والے ہی کی ہے، انسان کی نہیں_
انسان کو بڑے غرور و گھمنڈ کےساتھ یہ کہتے ہوئے سناگیا "انسانی صنعت بڑی ھے یاخدائی قدرت” ؟ یہ اپنی صنعت کو خدا کی قدرت کے سامنے بڑی ماننے لگا تھا آج ایک چھوٹے سے وائرس کے سامنے کیسا بےبس دکھائی دے رہا ہے؟ گُوہار لگا رہا ہے کہ دوا نہیں ھے، طبی آلات کی کمی ھے، سربراہان مملکت عوام سےبھیک مانگتے ہوئے نظر آرہے ہیں، پورےملک کے وسائل قبضہ میں ہونے کے باوجود اپنے عوام کی موت پر کس طرح بِلَک بِلَک کر روتے ھوئے دیکھا گیا، انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو زمین پر پیشانیاں رگڑ رگڑ کر غیبی طاقت سے رحم کی اپیل کرتے ہوئے سناگیا،
دراصل انسانی فطرت تو اپنے پالنہار کو مانتی ہے مگر نفس، شیطان اور عیش و عشرت کا سامان اس کو دھوکے میں ڈال دیتا ہے آلام ومصائب جب غفلت سے بیدار کرتے ہیں توفطرتِ انسانی اپنے رب کو پکارنے لگتی ھے۔
اللہ تعالے کے موجود اور معبود ھونے کی یہ بھی ایک دلیل ھے ۔
انسان کوچاھیے کہ ان سچائیوں، نشانیوں اور دلیلوں کو اَنْ دیکھی نہ کرے بلکہ ان کو تسلیم کرتے ھوئے ایک اللہ پر ایمان لےآئے اور اسکے آخری پیغمبر کومان لے اوراس کے لائے ہوئے دستور کے مطابق زندگی گذارے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×