سیاسی و سماجی

بریلوی مکتب فکر کے ادارے جامعہ عارفیہ میں حاضری

11 مارچ 2020 کا دن میرے لیے ایک حسین خواب سے کم نہ تھا۔ ایک عرصے سے میری یہ خواہش رہی ہے کہ دیگر مسالک کے اداروں کی زیارت ہو اور ان سے وابستہ افراد سے ملاقات کی جائے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام وقت یہ کوششیں ہمارے بڑوں کی طرف سے کی گئیں تھی، لیکن ظلم کے بادل چھٹنے اور فارغ البالی عود کرجانے کے بعد ان مسلکی دیواروں کو جو حکومت کے سیاہ قوانین کی وجہ سے کمزور پڑ گئیں تھی از سر نو مضبوط کرنے کی کچھ لوگوں کو ضرورت محسوس ہوئی۔ مناظروں کی مجلسیں لگنے لگیں، لٹریچر تیار ہونے لگا اور تکفیری وتبدیعی فتاوی اس کثرت سے مہیا کیے جانے لگے کہ گویا امت کی ترقی اسی میں مضمر ہو۔ گزشتہ چند سالوں سے امت کے ایک معتد بہ طبقے میں اس احساس نے شدت سے جگہ پائی ہے کہ مسلکی نظریات میں تطبیق کی کوششیں نہ بار آور ہوسکیں گی اور نہی بظاہر مسالک کے ترجمان اس کے لیے تیار معلوم ہوتے ہیں، لیکن تکفیر وتضلیل کی تلواروں کو نیام میں رکھا جانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ راقم نے اسی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماضی قریب میں دیگر مسالک کے نوجوان علماء سے سوشل میڈیا کے توسط سے روابط قائم کیے، متعدد بار فون پر گفتگو ہوئی اور اس دوران میں نے یہ پایا کہ نوجوان علماء وہ اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو عمر رسیدہ شاید نہ کرپائیں۔ بریلوی مکتب فکر کے ایک صالح نوجوان عالم دین مولانا ناظم اشرف مصباحی سے چند سالوں سے روابط تھے، انھوں نے کئی بار الہ آباد میں واقع ادارے جامعہ عارفیہ میں آنے کی دعوت دی۔ انھی کی دعوت پر الہ آباد کے سفر کے دوران یہ طے پایا کہ ان کے اس عظیم ادارے کی زیارت کی جائے۔ موصوف خود میری قیام گاہ پر مجھے لینے آئے اور پورے راستے علمی گفتگو سے محظوظ کرتے رہے۔ میرے ساتھ مولانا محمد امین اور مولانا محمود کریم احفاد مصلح الامت حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی بھی تھے۔ مدرسے پہنچے تو ادارے کے بانی وروح رواں اور بریلوی مکتب فکر کی نئی پود کے مربی حضرت ابوسعید شاہ احسان اللہ صفوی اور ادارے کے اساتذہ نے استقبال کیا۔ ادارے کے بعض اساتذہ اور ان کے منہج سے تھوڑی بہت واقفیت کی بنا پر یہ گرمجوشی اگرچہ متوقع تھی مگر میرے لیے یہ ایک حسین لمحہ ہی تھا۔ حکیم الامت کے اجل خلفاء میں شامل حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی رحمہ اللہ کے خانوادے کے دو افراد اور اس ناچیز کا یوں استقبال کیا جانا ایک مثبت تبدیلی کا مظہر تھا۔

حضرت ابو سعید شاہ احسان اللہ دامت برکاتہم کے ساتھ کچھ دیر بیٹھے اور اندازہ ہوا کہ ان کے صحبت یافتہ علماء یونہی اتنی وسیع فکر کے حامل نہیں ہیں۔ حضرت ابو سعید گوشہ نشینی کے عادی ہیں مگر شاندار علمی ذوق کے حامل ہیں۔ ان کی نگرانی میں علماء کی ایک جماعت مستقل تحقیقی کاموں مشغول ہے۔ دوران گفتگو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس وسعت فکری کے نتیجے میں اپنے ہی مسلک کے دیگر علماء کے نزدیک وہ مطعون بھی ہیں۔ ان کا اپنے مسلک کے علماء سے اصل اختلاف مسئلہ تکفیر پر ہے۔ جامعہ عارفیہ کے علماء حسام الحرمین کو وہ مقام نہیں دیتے جو اس مسلک کے دیگر علماء کے یہاں اس کتاب کو حاصل ہے۔ حضرت ابو سعید صاحب نے مصلح الامت حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی کا نام اسی احترام سے لیا جس احترام سے خود ان کے چاہنے والے لیتے رہے ہیں۔ دوران گفتگو مولانا ناظم اشرف مصباحی نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ امت میں اب اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ میرے نزدیک ملی مسائل میں اتحاد اسی وقت ممکن ہے جب اپنے مسالک پر کاربند رہتے ہوے دیگر مسالک کے ساتھ روابط بڑھیں، ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھی جائیں اور درسگاہوں سے باہر اختلافی موضوعات سے گریز کیا جائے۔

اسی سلسلے کی ایک کوشش مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا ابو طالب رحمانی صاحب نے بھی کلکتہ شہر میں کی تھی۔ وہ ایک وفد کے ساتھ بریلوی مکتب فکر کی مسجد میں گئے، ان کا استقبال ہوا اور اس کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی، مگر بریلی سے اسجد میاں صاحب نے یہ فرمایا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ملی مسائل پر بھی دیابنہ (دیوبندیوں) کے ساتھ کوئی نشست کی جائے۔ یوں اس بیان کے بعد کلکتہ کے مقامی بریلوی علماء نے اپنے ایک عظیم اقدام پر اعلانیہ توبہ کرلی۔

جامعہ عارفیہ کے علماء اسی وجہ سے مطعون رہے ہیں ان کے یہاں مبارک اقدامات کے بعد "توبہ” کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کے ایک موقر استاذ مولانا ذیشان مصباحی ان بانصیب علماء میں شامل ہیں جن پر ان کی اصلاحی کوششوں کے عوض بہت سے علمائے بریلی نے فتوے لگائے ہیں۔

حضرت ابو سعید دامت برکاتہم سے ملاقات اور ظہر وظہرانے سے فارغ ہوکر میزبان حضرات کی خواہش تھی کہ علیا درجات کے طلبہ کے سامنے کچھ گفتگو ہوجائے۔ راقم نے اپنی سعادت سمجھ کر اس دعوت کو بھی قبول کیا اور موقع کی مناسبت سے اس موضوع پر گفتگو کی کہ کیسے داخلی اور خارجی محاذوں پر مدارس کے فضلاء کو تیار ہونا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آج بھی داخلی محاذ سے مراد مسالک کے خلاف یورش ہی ہوتی ہے، مگر میرے نزدیک داخلی محاذ یہ ہے کہ مسالک کو کم از کم ملی مسائل پر قریب سے قریب تر لایا جائے اور نام نہاد مذہب پرستی کے خلاف صف آراء ہوا جائے۔ خارجی محاذ کے تحت الحاد و زندقہ کے خلاف کیسے اور کیا تیاری کرنی ہے موضوع گفتگو رہا۔ گفتگو کے بعد سوال وجواب کا مختصر سلسلہ ہوا اور پھر کچھ دیر حضرت ابو سعید دامت برکاتہم کی معیت میں بیٹھ کر ان کی دعائیں لیتے ہوے رخصت ہوئے۔

اس دور میں نوجوان فضلائے مدارس کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دشمن کے قوانین اور دہشت گردانہ نعرے وہجومی تشدد مسلک پوچھ کر یا ٹوپی کا طرز دیکھ کر نشانہ نہیں بناتے۔ ان کے نزدیک آپ مسلمان ہیں اور یہی آپ کی پہچان ہے۔ لیکن ہماری سطحی سوچ یہ ہے کہ ہم اس پہچان کو ناکافی سمجھے ہوے ہیں، مسلکی اور پھر ادارہ جاتی لاحقوں نے ہمیں تقسیم در تقسیم کردیا ہے اور ہم سالہا سال سے دشمن کا تر نوالہ بنتے جارہے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سیاسی برتری بھی اسی قوم کو ملتی ہے جو اپنی فکری برتری کو ثابت کردے۔ افسوس کہ ہم مسلمان بہترین علمی ذخیرے کا مالک ہونے کے باوجود فکری طور پر بھی انحطاط کا شکار ہیں اور اسی بنا پر سیاسی میدانوں میں عالمی سطح سے لیکر محلے کی سطح تک ایسے افراد کی راہنمائی میں اپنی قسمت کا سفر طے کررہے ہیں، جن کی یا تو کوئی فکر نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ انتشار کا شکار ہے۔ یہ دور تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے، اس موڑ پر چھوٹی سی غلطی بھی بڑی ہے اور ادنی خیر بھی بڑے نفع کا باعث ہے۔ اس لیے ملت کے غیور نوجوان اپنے اپنے حلقوں میں آٹھ کھڑے ہوں اور اس نازک موڑ پر مستقبل کے مؤرخ کے لیے فخر کا سامان فراہم کردیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×