ریاست و ملک

سی اے اے، این آر سی مخالف مظاہرے کے الزام میں رامپور سے فیصل عرف رحمن گرفتار

لکھنؤ: 7؍اپریل (عصرحاضر) شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی مخالف مظاہرے کے الزام میں دو سال بعد بھی پولیس کی جانب سے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 21 دسمبر 2019 کو ہوئے سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہرہ کے معاملے میں رامپور کے تھانہ کوتوالی پولیس نے چوکی کنڈہ کے ساکن فیصل عرف رحمٰن کو سنگین دفعات کے تحت درج مقدمہ میں گرفتار کرکے جیل بھیجا۔ وہیں گذشتہ ہفتہ اس معاملے میں مزید 10 ملزمین کو سرکاری املاک کے ہوئے نقصان کی وصولی کے نوٹس بھی جاری کئے گئے تھے۔ جس کے جواب 4 اپریل کو داخل کرنے کو کہا گیا تھا۔
اس معاملے میں ہو رہی گرفتاریوں اور نوٹس جاری کئے جانے پر معروف سماجی کارکن محمد ریحان خان ایڈووکیٹ اپنا سخت اعتراض جتایا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے مخصوص طبقہ کے نوجوانوں کو ٹارگٹ حراساں کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے اب تک تھانہ گنج اور تھانہ کوتوالی کی پولیس 150 سے زائد افراد کو سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہرے کے الزام میں سنگین دفعات کے تحت کارروائی کرکے جیل بھیج چکی ہے۔ حالانکہ ایک دو افراد کو چھوڑ کر تمام لوگ ضمانت پر رہا بھی ہو چکے ہیں وہیں پولیس کی جانب سے مزید نئے افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیجنے کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ Protest against the Citizenship Amendment Actان تمام ملزمین کے خلاف 22 دسمبر 2019 کو تھانہ کوتوالی اور تھانہ گنج میں دو الگ الگ مقدمات 655/19 اور 832/19 مختلف دفعات کے تحت درج ہیں۔ اسی کے تحت پولیس کی جانب سے ملزمین کے خلاف کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مزید ملزمین کی گرفتاریوں کی کوششیں جاری رہیں گی۔واضح رہے کہ21 دسبر 2019 کو رامپور کی عید گاہ میں ملی قیادت کی زیر نگرانی متحدہ طور پر شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاجی جلسہ منعقد ہونا تھا۔ لیکن عین وقت پر انتظامیہ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
عوام جب شہر کے مختلف علاقوں سے جمع ہوکر جلسہ گاہ کی جانب بڑھی تو پولیس کی بھاری فورس نے عید گاہ سے آدھا کلو میٹر دور ہاتھی خانہ کے چوراہے پر روک لیا تھا۔ لیکن جب عوام کا جم غفیر عید کی جانب بڑھنے کے لئے بضد ہوا تو پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغ کر روکنے کی کوشش کی۔ دونوں جانب سے تھوڑی ہی دیر میں سنگ باری بھی شروع ہو گئی تھی۔ اسی درمیان مظاہرین میں سے ایک نوجوان فیض کے گولی لگ گئی۔ جس سے اس کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ وہیں متعدد افراد زخمی بھی ہو گئے تھے۔اس کے بعد پولیس نے 116 نامذد جبکہ ہزاروں نامعلوم افراد کے خلاف مختلف سنگین دفعات کے تحت الگ الگ تھانوں میں دو مقدمات درج کرکے پہلے ہی دن اپنی کارروائی کو انجام دیتے ہوئے 34 افراد کو قصوروار قرار دیکر جیل بھیج دیا تھا۔ لمبی جدوجہد کے بعد کسی طرح 26 افراد کی ضمانتیں کراکر ان کو جیل سے رہا کرایا گیا تھا اور ساتھ ہی ضلع انتظامیہ اور پولیس کپتان سے اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ اس معاملے میں اب مزید گرفتاریاں نہیں ہونگی۔ لیکن پولیس کی جانب سے اس کے بعد بھی گرفتاریوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا یہاں تک کہ دو سال کے دوران پولیس اب تک 150 افراد کو گرفتار کرکے ان پر سنگین دفعات لگاکر اپنی قانونی کاروائی کر چکی ہے وہیں ملزمین کی جانب سے ان کے دفاعی وکلاء ضمانتوں پر رہا بھی کرا رہے ہیں۔ لیکن اس طرح گرفتاریوں اور ضمانتوں کا سلسلہ کب تک چلتا رہے گا نہ تو اس کا جواب ضلع کے افسران دے رہے ہیں اور نہ ہی وہ لوگ جن کے کہنے پر عوام سڑکوں پر آئی تھی۔یاد رہے کہ 21 دسمبر 2019 کے احتجاجی جلسہ کا اہتمام متحدہ طور پر جامع مسجد کمیٹی اور ملی رہنماؤں کی جانب سے رکھا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع کے ذمہ دار علماء کرام افسران سے ملاقات کرکے کئی مرتبہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ احتجاج کے نام پر اب مزید گرفتاریاں نہ کی جائیں۔ لیکن مسلسل ہو رہی ان گرفتاریوں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ پولیس ان علماء اور قائدین کے مطالبات کو نظر انداز کر رہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×