احوال وطن

شریک حیات کے انتخاب میں کسی فرد‘ خاندان یا حکومت کو مداخلت کا اختیار نہیں : الہ آباد ہائی کورٹ

الہ آباد: 24؍نومبر (عصر حاضر) الہ آباد ہائی کورٹ نے لوجہاد کے عنوان پر پروپیگنڈہ کرنے والوں کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کیا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں لوجہاد ایک جلی عنوان بنا ہوا ہے۔ بی جے پی حکمرانی والی ریاستیں لوجہاد پر قانون سازی کی تیاریاں کررہی ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے کشی نگر کے رہنے والے سلامت انصاری اور پرینکا کھروار کے معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ قانون ایک بالغ عورت یا مرد کو اپنے شریک حیات کے انتخاب کا اختیار دیتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ان کی پُر سکون زندگی میں کوئی شخص یا کنبہ دخل دینے کا حق نہیں رکھتا۔ عدالت نے یہاں تک کہا کہ حکومت بھی بالغ لوگوں کے تعلق سے اعتراض ظاہر نہیں کر سکتی۔ عدالت نے یہ فیصلہ کشی نگر تھانہ کے سلامت انصاری اور تین دیگران کی عرضی پر سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔ واضح رہے کہ سلامت اور پرینکا نے اپنے کنبوں کی مرضی کے خلاف نکاح کیا ہے۔ نکاح کے بعد پرینکا نے اپنا نام عالیہ رکھا ہے۔ جبکہ عالیہ کے اہل خانہ نے ایف آئی آر درج کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی بیٹی کو بہلا پھسلا کر لے جایا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں ملزم کے خلاف پوکسو ایکٹ (نابالغ کے ساتھ بدفعل سے متعلق قانون) لگایا گیا ہے۔ جسٹس پنکج نقوی اور جسٹس ویویک اگروال کی ڈویزن بنچ نے سماعت کے دوران کہا کہ پرینکا کھروار عرف عالیہ کی عمر کے حوالہ سے کوئی تنازع نہیں ہے اور اس کی عمر 21 سال ہے۔ عدالت نے کہا کہ چونکہ عالیہ بالغ ہے لہذا اس کے معاملہ میں پوکسو قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ عدالت نے عالیہ کو اس کے شوہر کے ساتھ رہنے کا اختیار دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ سلامت انصاری اور پرینکا گھروار کو عدالت مسلمان اور ہندو کے طور پر نہیں دیکھتی اور پرینکا کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کس سے ملنا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے عرضی گزاروں کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کو منسوخ کر دیا۔ تاہم عدالت نے امید ظاہر کی کہ بیٹی اپنے کنبے کے تئیں مناسب اخلاقیات اور احترام کا مظاہرہ کرے گی۔ یوگی کی قیادت والی اتر پردیش کی بی جے پی حکومت کی طرف سے مبینہ لو جہاد کے خلاف کی جا رہی قانون سازی کے درمیان الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت عالیہ نے کہ کسی بھی شخص کو اپنے من پسند شریک حیات کو انتخاب کرنے کا اختیار ہے۔ عدالت نے کہا کہ قانون دو بالغ افراد کو ایک ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہے چاہے وہ مخالف صنف کے ہی کیوں نہ ہوں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×