سیاسی و سماجیمولانا سید احمد ومیض ندوی

ترکی کا سلطان ۔ رجب طیب اردغان؛ نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

ترکی کے سابق صدر رجب طیب اردوغان ایک بار پھر صدر منتخب ہوئے ، گذشتہ ۲۴ جون ۲۰۱۸ء کو انتخابی نتائج کے اعلان کے ساتھ عالم اسلام میں خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ ترکی کے مرد مجاہد طیب اردغان کی فتح کو عالم اسلام اور امت مسلمہ کے لئے فالِ نیک قرار دیاجارہا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق صدارتی انتخاب کی دوڑ میں عوامی اتحاد کے رجب طیب اردغان، جمہوریت عوام پارٹی کے محرم انجے، کرد سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے صلاح الدین دمیرش، فضیلت پارٹی کے تیمل کرمولا اولو اور وطن پارٹی کے دواؤد بیرنچک کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں طیب ارد غان نے 53.1 فیصد ووٹ لے کر اپنے حریفوں کو شکست دے دی۔ ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ایک ساتھ منعقد ہوئے ۔ صدارتی انتخابات کے ساتھ طیب ارد غان کی اے کے پارٹی کو پارلیمان میں بھی واضح برتری حاصل ہوئی ۔ ترک میڈیا کے مطابق تقریباً ۴۴ فیصد ووٹوں کے ساتھ اے کے پارٹی دوبارہ پھر سے حکومت تشکیل دینے کے موقف میں آگئی ہے۔ حالیہ انتخابات میں ترک ووٹرز کی تعداد ۵ کروڑ ۶۳ لاکھ ۲۲ ہزار ۶۳۲ تھی جبکہ ساڑھے ۳۰ لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں نے بھی ووٹ ڈالے۔ گذشتہ ۱۵ سال سے اقتدار پر براجمان رہے ارد غان ایک اور مدت کے لئے صدر منتخب ہوئے۔ ترکی کے انتخابی قوانین کے مطابق جیت کے لئے کسی امیدوار کو ۵۰ فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنا لازمی ہیں۔ اگر امیدواروں کو ۵۰ فیصد سے کم ووٹ حاصل ہوتے ہیں تو ترک انتخابی قوانین کی رو سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں میں دوبارہ مقابلہ ہوتا ہے۔ اردغان کو ابتدائی نتائج ہی میں ۵۰ فیصد سے زائد ووٹ حاصل ہوگئے جبکہ ان کے سب سے طاقتور حریف محرم انجے کو ۳۱ فیصد کے لگ بھگ ووٹ ملے۔
اردغان کا سیاسی سفر : اردغان ۲۶ فروری ۱۹۵۴ء کو ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں پیدا ہوئے ۔ مدرسہ قاسم پاشا میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۶۵ء مدرسہ قاسم پاشا سے فراغت کے بعد استنبول امام و خطیب ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ ۱۹۷۳ء میں میٹرک پاس کیا۔ ایوب ہائی اسکول سے ڈپلوما مکمل کرنے کے بعد مرمرہ یونیورسٹی کے کامرس و اکنامکس کے شعبہ میں داخلہ لیا اور ۱۹۸۱ء میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کرلی۔ طیب اردغان کو مختلف ملکی و بیرونی جامعات نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریوں سے بھی نوازا ہے۔ چنانچہ سینٹ جانز امریکن یونیورسٹی ،جامعہ مال تپہ استنبول یونیورسٹی اور جامعہ حلب سے انہیں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل ہوئی۔
رجب طیب اردغان نے روز اول سے جفاکشی اور سخت جدوجہد کو اپنا نصب العین بنایا۔ چنانچہ جوانی ہی سے وہ اپنی مضبوط سیاسی جدوجہد کے لئے مشہور تھے۔ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۸۲ء تک کے چودہ سالہ عرصے میں انہوں نے بہت کچھ نظم و ضبط اور سیاسی عمل کا سلیقہ سیکھا۔ اردغان نے ۱۹۸۳ء میں رفاہ پارٹی کے نام کے ساتھ میدان سیاست میں قدم رکھا۔ ۱۹۸۴ء میں استنبول کے ضلع بایوغلو کی ایک تحصیل کے صدر بن گئے۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے گئے کامیابی ان کے قدم چومتی گئی۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وہ استنبول شہر کے صدر بن گئے۔پھر ۱۹۸۵ء میں رفاہ پارٹی کی مرکزی قرار داد کمیٹی رکن منتخب ہوئے۔ اس دوران اردغان نے ترک عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ جوانوں اور خواتین کو سیاست کی طرف راغب کرنے کی کامیاب کوشش کی جس کا اثر یہ ہوا کہ رفاہ پارٹی کو واضح برتری حاصل ہونے لگی۔ چنانچہ ۱۹۸۹ء میں رفاہ پارٹی نے ضلع بایوغلو کے مقامی انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ پھر کامیابیوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ ۲۷ مارچ ۱۹۹۴ء کے لوکل انتخابات کے بعد رجب طیب اردغان استنبول کے میئر منتخب ہوئے۔ میئر کی حیثیت سے انتخاب نے اردغان کے لئے اپنی بے پناہ انتظامی و سیاسی صلاحیتوں کو کام میں لانے کا موقع فراہم کیا۔ جس وقت اردغان استنبول کے میئر بنے استنبول بدترین حالات سے دوچار تھا۔ پورے شہر پر مافیاز کا قبضہ تھا۔ منشیات کا تیسرا بڑااور معاشی فراڈ کا دوسرا بڑا اڈہ تھا۔ استنبول میں اس وقت جہاں آبی قلت کا مسئلہ درپیش تھا وہیں برقی قلت نے بھی لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کردیا تھا۔ کچرا اور کوڑا کرکٹ نے تو استنبول کو ملک کا انتہائی آلودہ شہر بناکر رکھ دیا تھا۔ میئر منتخب ہوتے ہی اردغان نے استنبول کو یوروپ کا سب سے پاکیزہ اور پر امن شہر بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ صفائی کا بہترین نظم کرکے آلودگی کو ختم کردیا۔ ٹریفک کامسئلہ لوگوں کے لئے درد سر بناہوا تھا اسے حل کیا۔ صرف دو برس کے عرصہ میں شہر کو کرائم سے پاک کردیا۔ ایک ایک کرکے سارے مافیاز کو ٹھکانے لگا دئیے۔ شہر کے دو بلین ڈالر کے خسارے کو ختم کرکے چار بلین ڈالر کے انفراسٹرکچر قائم کئے۔ چار سالہ مدت میں استنبول، یوروپ کا ایک نہایت ترقی یافتہ شہر بن گیا۔ اس دوران ایک وقت ایسا آیا کہ ایک معاملہ میں اردغان کو استنبول کی گورنری سے معزول ہونا پڑا۔ ۱۲ڈسمبر ۱۹۹۷ء کو انہیں جیل جانا پڑا۔ قصہ یوں ہوا کہ ۱۹۹۷ء میں اردغان نے سیرت شہر کے ایک جلسہ عام میں ایک شعری مصرعہ پڑھا تھاجس کے الفاظ یہ تھے : گنبد ہماری جنگی ٹوپیاں ہیں، مسجد یں ہماری فوجی چھاونیاں ہیں۔ صالح مسلمان ہمارے سپاہی ہیں۔ کوئی دنیاوی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ اس واقعہ کو بنیاد بناکر انہیں استنبو کی گورنری سے معزول کرکے جیل بھیجا گیا۔ لیکن اس سے ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ۲۰۰۱ء میں انہوں نے عبداللہ گل کے اتحاد میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی تشکیل دی۔ نومبر ۲۰۰۱ء کے انتخابات میں اردغان اس لئے حصہ نہ لے سکے ان پر سیرت شہر کے جلسہ عام کا مقدمہ تھا لیکن قانونی ترمیمات کے نتیجہ میں جب رکاوٹیں دور ہوئیں تو ۹ مارچ ۲۰۰۳ء میں اسی شہر سیرت سے انہو ں نے پارلیمانی امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا جس میں انہیں ۸۵ فیصد سے زائد ووٹ حاصل ہوئے اور وہ سیرت شہر ے رکن پارلیمان منتخب ہوئے ۔ بالآخر ۲۰۰۳ ء کے عام انتخابات میں وزیراعظم بنائے گئے۔ ترکی میں ارکان پارلیمان ہی اپنے صدر کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ ۲۰۱۴ء میں پہلی مرتبہ قدیم نظام کو تبدیل کرکے صدارتی انتخابات کرائے گئے جس میں اردغان کو واضح کامیابی حاصل ہوئی۔ اس طرح اگست ۲۰۱۴ کو ترک عوام نے طیب اردغان کو ملک کا صدر منتخب کیا۔ بعد ازاں ۱۶ ؍اپریل ۲۰۱۷ء کو ترکی کے تاریخی ریفرنڈم انتخابات میں اردغان نے اکیاون اعشایہ اکتالیس فیصد ۴۱.۵۱ فیصد ووٹ حاصل کرکے اپنی سیاسی زندگی کے ایک اہم سنگ میل کو طئے کیا۔ طیب اردغان اے کے پارٹی کے قیام کے ایک سال بعد ۲۰۰۲ء میں اقتدار پر آئے اور گیارہ سال تک ترکی کے وزیراعظم اور پھر ۲۰۱۴ء میں پہلے راست صدر منتخب ہوئے۔ اے کے پارٹی کے اقتدار میں آنے سے قبل فوج چار مرتبہ براہ راست سیاست میں دخل اندازی کرچکی تھی ۔ ۲۰۱۳ء میں اردغان کو اعلیٰ فوجی حکام پر اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب فوجی افسران کو اے کے پی کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش میں عمر قید سزاہوئی۔ اس وقت سینکڑوں فوجیوں ، صحافیوں اور سیکولر سیاست دانوں پر مقدمہ چلایاگیا۔ ۲۰۱۱ء میں جب ۲۰۰ سے زائد افسروں کو حراست میں لیاگیا تو بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں نے احتجاجاً استعفے دے دئیے تھے۔ یہ طیب اردغان کے لئے بڑی آزمائش تھی۔
ترکی کے حالیہ صدارتی پارلیمانی انتخابات طیب اردغان کے لئے چیلنج سے پر تھے۔ چھ مختلف حریفوں سے انہیں مقابلہ درپیش تھا۔ اکمل الدین احسان اوغلو کو حزب اختلاف کی دوجماعتوں ریپبلکن پیپلز پارٹی اور قومی مومنٹ پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔ اکمل الدین احسان اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے سکریٹری جنرل کے طورپر دس سال خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کا نعرہ تھا کہ صدر کے روایتی کردار کو برقرار رکھا جائے۔ صدر کو ملک کے ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ دوسرے حریف صلاح الدین دمیرش پیپلز ڈیموکریٹک کے قائد اور کرد اقلیت کے مقبول رہنما ہیں۔ ان کی انتخابی مہم کا موضوع غریب مزدور نوجوان اور دبے کچلے افراد تھے۔ بہر حال ترک عوام نے اردغان کے حق میں فیصلہ سنادیا۔اردغان کی فتح غیر متوقع نہیں ہے۔ اردغان نے اپنے سابقہ دور اقتدار میں ایسے کئی اقدامات کئے جس نے ترکی کی معیشت اور اس کی عالمی حیثیت کو چار چاند لگادئیے ۔ قونیہ میں اپنی آخری انتخابی ریالی سے خطاب کرتے ہوئے اردغان نے ترکی کے جمہوری اور اقتصادی معیار کو بلند کرنے اور ترکی کو عالمی قوت اور عالمی قیادت فراہم کرنیکی بات کہی تھی۔ بلاشبہ اردغان اپنے ان عزائم میں بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ ۲۴سال قبل جب وہ استنبول کے میئر بنے تھے تو استنبول ہر قسم کے جرائم کی آماجگاہ اور گندگی کا ڈھیر تھا۔ صرف چار سال کے عرصہ میں اردغان نے اسے یوروپ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر بنایا۔ طیب اردغان نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کا ۲۳۵ ارب ڈالر کا ملکی قرضہ زیرو کرکے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو قرضہ دینے کی پیش کش کردی، جو ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔ سال ۲۰۱۷ء میں ترکی کی شرح نمو جی 20 ملکوں میں سب سے زیادہ رہی۔ چنانچہ یلدرم بیاضیت یونیورسٹی کی فیکلٹی آف پولیٹکل سائنس کے شعبہ اقتصادیات کے پروفیسر ڈاکٹر ایر وال تاناس نے اپنے ایک جائزہ میں کہا ہے کہ ملکوں کی فی کس آمدنی کے مطابق وضع کردہ صف بندی میں ایک ہزار۵ ڈالر سے نیچے ہونے والے ملکوں کو کم سطح کی آمدنی والے گروپ ایک ہزار ۶ سے ۱۲ ہزار ۲۳۵ ڈالر تک ہونے والے ملکوں کو درمیانی سطح کی آمدنی والے گروپ جبکہ ۱۲ ہزار ۲۳۵ ڈالر سے زائد تک کے ممالک کو بلند سطح کی آمدنی والے گروپ میں شمار کیاجاتا ہے یعنی اس کے مطابق ملکوں کا بلند سطح کا شرح نمو کو حاصل کرنا فی کس آمدنی میں اضافے سمیت آمدنی گروپ میں بھی آگے بڑھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ترکی ۲۰۲۰ء تک ۱۳ ہزار ڈالر سے زائد فی کس آمدنی کی سطح کو حاصل کرتے ہوئے بلند سطح کی آمدنی والے گروپ میں شامل ہوجائے گا۔ سال ۲۰۱۷ء کی تیسری سہ ماہی میں ۱.۱۱ فیصد کی شرح سے ترقی کرنے والی ترک معیشت نے اسی دورانیہ میں جی 20 ملکوں کے بیچ ۸ڈ۶ فیصد کی شرح نمو کے حامل چین اور ۱.۶ فیصد کی شرح نمو کے حامل ہندوستان کو بھی کافی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق ۱۹۸۱ سے ۲۰۰۳ء تک چار فیصد شرح نمو کے ساتھ ترکی نے قابل تقلید ترقی کی ہے جس کے نتیجے میں گذشتہ دس سال سے بھی کم عرصہ میں ترکوں کی فی کس آمدنی دس ہزار ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ سیاحت ترکی میں باقاعدہ صنعت کا درجہ رکھتی ہے اس مد میں سالانہ آمدنی ساڑھے تین کروڑ تک پہنچ چکی ہے جس سے ترکی کو سالانہ ۲۳ ارب ڈالرز کا ریونیو حاصل ہوتا ہے۔ اردغان نے اپنی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کے ذریعہ افراطِ زر پر قابو پالیا۔ اس کے علاوہ کئی ایک عوامی فلاح کے پروگرام شروع کئے ۔ ۱۸ سال کی عمر سے تمام افراد کے لئے مفت طبی سہولتوں کی فراہمی اور ریٹائرمنٹ کی عمر میں دھیرے دھیرے اضافہ کیا۔ ترک ادارہ شماریات نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ اکتوبر میں ترکی سالانہ حقیقی پیداوار میں ۳.۷ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس عرصہ میں بجلی، گیس، بھانپ اور ایرکنڈیشنگ کی فراہمی کے شعبوں میں ۳.۷ فیصد جبکہ کانکنی اور معدنیات کے شعبوں کی پیداوار ی صلاحیت میں ۵.۵ فیصد اضافہ ہوا ۔ پڑوسی ملک کے کالم نگار اسلم بھٹی نے اپنے ایک کالم میں ترکی کی ترقی کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے اپنے ترک دوست سے پوچھا کہ ترکی میں بھی بم دھماکے ہوتے ہیں، دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ترکی مسلسل ترقی کررہاہے اور اس کی معیشت مضبوط ہورہی ہے۔آخر یہ کیسے ہورہا ہے؟ ترکی آج بھی اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہے۔ لیکن ہر شعبہ میں پیش رفت ہورہی ہے ۔ آخر اس کاراز کیا ہے۔ میرا ترک دوست مسکرایااور اس نے کہا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ترکی کو بھی دیگر ممالک کی طرح مختلف چیلنج درپیش ہیں لیکن دو چیزوں نے ترکی میں معجزہ کردکھا یا ۔ ایک ترکی میں تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ۔ سب سے زیادہ بجٹ تعلیم کے شعبے کے لئے مختص کیاگیا۔ دوسرا ترک عوام اور معاشرہ میں ملک اور وطن کی بہتری اور ترقی کا احساس اجاگر کیاگیا۔ اس احساس نے حب الوطنی کے جذبہ کو ابھارا اور ہمارا معاشرہ اچھے برے کی تمیز کرنے لگا۔ حکومت نے معیشت کو سنبھالا ، تاجروں سرمایہ کاروں اور کاروباری حضرات کو لیکر حکمت عملی بنائی۔ تعلیم، عوامی شعور اور اقتصادی بہتری نے ترکی کو ترقی کی شاہ راہ پر گامزن کردیا۔( روزنامہ پاکستان ۲۴ ستمبر ۲۰۱۲) انتخابات میں اردغان کی فتح کے دو بنیادی اسباب ہیں: ایک اپنے ملک کی ترقی اور معاشی بہتری کے لئے اردغان کی کامیاب پالیسیاں اور اس کے لئے جہدِ مسلسل اور دوسرے عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے مسائل سے اردغان کی بے پناہ دلچسپی اور ان کے حل کے لئے حتی المقدور عملی اقدامات، اردغان ان دونوں محاذوں پر خوب سرگرم رہے۔ ملک کی ترقی اور معیشت میں بہتری کا اعتراف خود ان کے مخالفین کو بھی ہے۔ بین الاقوامی شخصیات نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔ ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے وابستہ شخصیت مارک لوکن کا کہنا ہے کہ اردغان فیصلہ کن شخصیت کے مالک ہیں۔ ترکی کی معیشت کا رخ بدل ڈالنے کے لئے ان کے حامی ان سے محبت کرتے یں۔ برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم ایک تھنک ٹینک چیٹم ہاوس سے منسلک ماہر فیدی ہکورہ کے مطابق حالیہ انتخابی نتیجہ غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ الیکشن سے قبل یہ بات سامنے آگئی تھی کہ اردغان ۵۴ تا ۵۸ فیصد ووٹ حاصل کرکے انتخابات جیت سکتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ طیب اردغان جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے بعد ملک کے سب سے مقبول سیاستداں بن چکے ہیں۔ معیشت کے ساتھ اردغان نے تعلیم پر کافی توجہ کی ۔ تعلیمی نظام میں مناسب اصلاحات کیں جس کے نتیجہ میں جن اسکولوں میں طلبہ کی تعداد ۶۵ ہزار تھی وہ ۸ لاکھ تک پہنچ گئی۔ ملکی یونیورسٹیوں کی تعداد ۹۸ سے بڑھ کر ۱۹۰ ہوگئی۔ ۱۲ برس میں ہوائی اڈوں کی تعداد ۲۶ سے ۵۰ ہوگئی۔ صرف سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی سالانہ ۲۰ ارب ڈالر ہے۔ ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۸ء کے درمیان ترکی میں ۱۳۵۰۰ کلو میٹر طویل سڑکیں بنائی گئیں۔ پہلے عام ترکی کی سالانہ آمدنی ۳۵۰۰ ڈالر تھی اب وہ آمدنی بڑھ کر ۱۱ہزار ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ ترکی میں اقتصادی خوشحالی کے نتیجہ میں لوگوں کی تنخواہوں میں ۳۰۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملازم کی بنیادی تنخواہ جو کسی دور میں ۳۴۰ لیرہ تھی اب بڑھ کر ۹۵۷ لیرہ تک پہنچی۔ اردغان نے ساری قوم کے لئے گرین کارڈ کا اجرا کیا جس کے تحت ترک باشندے کو ملک کے کسی بھی اسپتال میں ہمہ وقت مفت علاج کی سہولت حاصل ہے۔
اردغان کی مقبولیت کی ایک وجہ عالم اسلام اور دنیا بھر کی ملت اسلامیہ کے لئے ان کی بے پناہ فکرمندی دلچسپی اور مسلم مسائل کے حل کے لئے ان میں پائی جانے والی تڑپ ہے۔ وہ بجاطورپر خلافت عثمانیہ کے فرزند ہیں۔ وہ مقہور و مغلوب مسلم امت کی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں وہ سب پر عیاں ہے۔ ہر جگہ ظلم فساد ، خانہ جنگی اور اضطراب کی کیفیت ہے۔ امت مسلمہ کسی ایک ایسے قائد کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی ہے جو اس کے لئے مسیحا ثابت ہو اور عالمی طاقتوں کی جانب سے ہونے والی چیرہ دستوں کے خلاف آواز بلند کرسکے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایسا قائد رجب طیب اردغان کی شکل میں نظر آرہا ہے۔ جب کبھی عالم اسلام اور مسلمانوں پر براوقت آیا اردغان آگے آئے ۔ گذشتہ دنوں جب امریکی صدر نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تو عالم اسلام میں شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ عرب حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔ اردغان واحد شخص تھے جنہوں نے نہ صرف اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی بلکہ او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جس سے ایک طرف امریکہ اور اسرائیل کے خلاف دنیا اکٹھا ہوئی؛ دوسری طرف ترکی کی قیادت میں بیت المقدس کی حفاظت کے لئے مسلم ممالک اکٹھے ہوئے۔ گذشتہ سال جب قطر ، مصر ، بحرین اور سعودی عرب میں باہمی تنازعہ پیدا ہوا تو ترکی ہی نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے ان ملکوں کو جنگ کی آگ سے بچالیا۔ ۲۰۰۸ء میں غزہ پر اسرائیل کے حملے کے بعد اردغان نے اپنے قدیم حلیف کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ نیز داؤس عالمی اقتصادی فورم میں اسرائیل کے خلاف سخت احتجاج درج کرایا اور وقت نہ دینے پر فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ ۳۱ مئی ۲۰۱۰ء غزہ کے لئے امدادی سامان لے جانے والے ترک جہاز پر اسرائیل کے حملے کے بعد عالم اسلام میں اردغان کی مقولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما کی پھانسی پر ترکی نے اپنا سفیر واپس بلوالیا۔میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف سب سے پہلے اردغان نے آواز بلند کی۔ اردغان نے سب سے زیادہ اخوت اسلامی کا مظاہرہ مظلوم شامی مہاجرین کے ساتھ کیا۔ اس وقت ۴۰ لاکھ کے قریب شامی مسلمان ترکی میں قیام پذیر ہیں جنہیں عوام اور حکومت کی جانب سے پوری سہولتیں فراہم ہیں۔
ہم نہیں کہتے کہ اردغان کے یہاں سب کچھ ٹھیک ہے ۔اردغان کو فرشتہ یا ساری ملتِ اسلامیہ کا خلیفہ نہیں کہا جاسکتا۔ اردغان کی بعض پالیسیوں سے ضرور اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اردغان اور ان کے سیاسی سرپرستوں کا ایک کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا وہ یہ کہ ۱۹۲۴ء میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد کمال اتاترک کے دور میں اسلام اور دین پسند مسلمانوں کے صفایا کی جو مہم شروع کی گئی تھی اسے ختم کرنے اور ترکی میں اسلامی تشخص کو بحال کرنے میں اردغان نے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ اتاترک کے زمانے میں اسلام کا نام لینا جرم تھا ۔ ایک ایک کرکے سارے اسلامی شعائر مٹادئیے گئے تھے۔ طیب اردغان کی کوششوں سے اسلام اور اسلامی شعائر کی دوبارہ نشاۃ ثانیہ ہوئی ۔ آج ترکی میں اسلام پوری قوت کے ساتھ لَوٹ رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×