اسلامیات

تنخواہ، سنت فاروقی اور ہم

حضرت علامہ شبلی نعمانی ؒ(1857-1914)نے اپنی مایہ ناز فخر زمانہ تصنیف الفاروق کے حصہ دوم میں خلیفہ ثانی ؓ کے طرز جہاں بانی اور جہاں داری کی تفصیلات رقم کرتے ہوئے تنخواہ کے باب میں صراحت کی ہے کہ حضرت الفاروق ؓ اپنے گورنروں کو بھاری تنخواہ پر مقرر کرتے تھے، اور اگر کوئی عامل حق الخدمت لینے سے منع کرتا تو آپ ؓ بہ اصرار دلواتے اور لینے پر مجبور کرتے۔ اسی سلسلے میں لکھتے ہیں‌
"ایک موقع پر حضرت ابوعبیدہ ؓ جو مشہور صحابی اور سپہ سالار تھے حق الخدمت لینے سے انکار کیا تو حضرت عمر ؓ نے بڑی مشکل سے ان کو راضی کیا”(الفاروق صف۱۹۰)

حضرت عمر ؓ کے پیش نظر بیش اور زیادہ تنخواہ مقرر کرنے کی حکمت کیا تھی؟ خود مصنف کتاب کی تبصراتی اور تجزیاتی تحریر ملاحظہ کریں، لکھتے ہیں ” عمال کی دیانت داری اور راست بازی کے قائم رکھنے کےلئے نہایت عمدہ اصول یہ اختیار کیا تھا۔ کہ تنخواہیں بیش مقرر کی تھیں، یورپ نے مدتوں کے تجربے کے بعد اصول سیکھا ہے۔ اور ایشیائی سلطنتیں تو اب تک اس راز کو نہيں سمجھیں، جس کی وجہ سے رشوت اور غبن ایشیائی سلطنتوں کا خاصہ ہو گیا ہے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں اگرچہ معاشرت نہایت ارزاں اور روپیہ گراں تھا۔ تاہم تنخواہیں علیٰ قدر مراتب عمومًا بیش قرار تھیں۔ صوبہ داروں کی تنخواہ پانچ پانچ ہزار تک ہوتی تھی۔ اور غنیمت کی تقسیم سے جو ملتا تھا وہ الگ۔ چنانچہ حضرت امیر معاویہ ؓ کی تنخواہ ہزار دینار ماہوار یعنی پانچ ہزار روپے تھی”۔{استیعاب قاضی بن عبدالبر اور ازالۃ الخفا جلد دوم صفحہ ۷۱} بحوالہ (الفاروق صفحہ۱۹۶)
یہ ریکارڈ تاریخ نے ان لوگوں کے بارےمیں محفوظ کیا ہے کہ سورج رہتی دنیا تک اس سے زیادہ پاکباز اور پاک نفس لوگوں پر طلوع نہيں ہوگا، جنہيں دنيا چھو کر بھی نہيں گذری تھی، جنہوں نے دنیاوی جاہ و جلال اور مال و منال کی طرف نظر غلط بھی ڈالنا گوارا نہ کیا ۔ قیصر و کسری کے خزانے کے حاکم اور مالک ہو کر بھی ان پاک نفسوں نے فقر کو ہی گلے لگائے رکھا اور شان امارت میں بھی الفقر فخری کا سماں پیش کرتے رہے۔ جن کی نظروں میں دنیا کی حیثیت پرِ کاہ کے برابر بھی نہيں تھی۔ ان قدسی صفات جماعت کے بارےمیں یہ تصور کرنا بھی جرم اور گناہ ہےکہ انہوں نے کبھی دنیا کے عارضی نفع کو کسی لمحے میں دل میں جگہ دی ہوگی۔۔ اور اس سے بھی بڑھ کر زبان نبوت نے اس زمانے کو خیرالقرون کا سرٹیفیکیٹ عطا کیا تھا، اور اس مقدس جماعت کے صدق و اخلاص کی شہادت دی تھی۔۔۔
ان اھل خیرالقرون اور پاک نفس لوگوں نے دنیاوی امور و معاملات میں غبن اور دھوکے کے دروازے کو بند کرنے کےلئے، اخلاص اور دیانت داری کو برقرار رکھنے کےلئے اس قدر احتیاط اور دور اندیشی سے کام لیا تھا، تو آج جبکہ شر اور فریب والوں کا دور دورہ ہے، خیر اور اخلاص والے کمیاب اور نایاب ہوگئے ہیں ۔
؎کہ وہ دن لد گئے جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔
تو اب اس گئے گذرے دور میں کام کرنے والوں میں غبن اور دھوکے کے دروازے کو بند کرنے کےلئے اور اخلاص دیانت داری پیدا کرنے کےلئے اس سنت عمری کو عمل میں لانا کس قدر ضروری ہوگیا ہے، ایک اعتبار سے اس پر عمل درآمد ایک شرعی حکم بھی بن جاتاہے کہ آپ ﷺ نے خلفائے راشدین ؓ کی سنت کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ اور اس صورت میں اس سے بےاعتنائ برتنا اور اسے اہمیت نہ دینا جرم اور گناہ شمار نہيں ہوگا؟
آہ یہ کس قدر افسوس ناک معاملہ ہےکہ ہم عبادات میں تو صحابہ کرام کے طرز عبادت کو اپنانے کا خوب اہتمام کرتے ہیں، مگر معاملات میں اس سے بالکل پہلو تہی اختیار کیے ہوئے ہیں، جبکہ رسول ﷺ اور صحابہء رسول ﷺ کے عمل کا یہ پہلو بھی اسی قدر اہمیت کا حامل ہے اور اس پر عمل درآمد بھی اسی قدر ضروری ہے۔۔۔۔۔

یہ پہلو بھی قابل توجہ ہےکہ جہاں اہل یورپ اس اصول کو اپنا کر روز بروز اپنے سسٹم کو بہتر سے بہتر بنا رہا ہے، اور یورپ کو ایک مثالی سسٹم بنانے کی راہ پر گامزن ہے، وہیں اہل مغرب مشرق کے بہترین دماغوں کو بیش از بیش قیمت دے کر ہائر(hire) کررہا ہے اور ان کے تجربات اور تحقیقات سے فائدہ اٹھا کر علوم و فنون اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں روز ایک نئی تاریخ رقم کررہا ہے۔۔۔۔ ہماری تاریخ کا یہ بھی المناک باب ہےکہ ہم نے اپنے بہترین اور عالی دماغوں کو کیسے ضائع کیا اور غیروں نے اس سے فائدہ اٹھا کر کیسے کیسے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔۔ اور آج بھی ہم ضائع کررہے ہیں۔۔۔ فالی اللّٰہ المشتکی والمستعان

خیر ہمیں حکومت اور حکومتی اداروں کا رونا ہی نہيں ہے اور نہ ہی ہمیں اس سے کوئی بحث ہے، کہ

؎ حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ ایک عارضی شئی تھی
نہيں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا

بلکہ ہمیں تو رونا اپنی دینی علمی اور تحقیقی اداروں کا ہے کہ یہ تیزی کےساتھ رو بہ زوال ہیں اور ویرانی کی طرف لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ ان اداروں کو مطلوبہ صفات اور صلاحیت کے حامل افراد مل نہيں رہے ہیں، اور مل اس لیے نہيں رہے کہ یہ ادارے ایسے مطلوب افراد کے واجبی حق الخدمت بھی ادا کرنے سے قاصر ہے۔۔۔ ہمیں بحث اس سے ہےکہ ان اداروں کے ناخدا اور ارباب حل و عقد گریہ کناں اور آہ بہ لب ہیں کہ ہمارے بہترین دماغ اور ذہین طلباء ان اداروں سے نکلنے کے بعد خدمت انجام دینے کےلئے ہمارے اداروں کا رخ نہيں کرتے بلکہ دنیاوی ادارے کا رخ کرتے ہیں یا پھر دنیاوی ڈگریاں حاصل کرنے کےلئے کالجز اور یونیورسٹیوں کو جاتے ہیں اور وہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔۔۔۔ ان ذہین طلباء کی یہ برگشتگی اور بےرخی کسی بڑے جرم اور گناہ سے کم نہيں سمجھا جاتا۔۔۔
گستاخی معاف، خدارا ہمارے دینی علمی اور تحقیقی اداروں کے ارباب حل و عقد سر بیٹھ کر سوچیں اور سوچیں کہ ان اداروں کے زوال اور ویرانی کے اسباب خود ہمارے پیدا کردہ نہيں ہیں؟ اور ان اداروں کو ناگفتہ بہ حالت تک پہنچانے کے ہم ذمہ دار نہيں ہیں؟ اگر ذہین طلباء اور بہترین دماغوں کی یہ برگشتگی اور بےرخی جرم ہے اور گناہ ہے تو کیا ہم اس گناہ میں برابر کے شریک اور ذمّہ دار نہيں ہیں، کہ ہم نے اس سنت عمری کو عملا اختیار کرکے اس زوال اور ویرانی، برگشتگی اور بےرخی کے اسباب پر قدغن لگا کر ان کا سدباب کیوں نہ کیا؟؟؟

جو گذر گیا سو گذر گیا، اب بھی ہمارے پاس جو بچا کھچا سرمایہ ہے اس کو ٹھکانے لگانے کی فکر کریں، اس کےلئے لائحہ عمل تیار کریں اور منصوبے بنائیں۔۔

اگر اب بھی ہم اور ہمارے ارباب حل و عقد اس تعلق سے بیدار نہيں ہوئے تو دنيا کو تو چھوڑیں ایک دن تو اسے ختم ہونا ہی ہے، کل ہم سے روز محشر اس تعلق سے بھی ضرور باز پرس ہوگی۔۔
"کلکم راعیٍ وکلکم مسئول عن رعیتہ ”
تم میں سے ہر ایک نگہبان اور ذمّہ دار ہے، اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت اور رعیت کےبارےمیں پوچھ ہوگی۔۔۔

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل گر کوئی دفتر میں ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×