شخصیات

ملت اسلامیہ ہند کاعظیم راہنما!!!

آج سے تقریباً دوسال قبل شہر ممبئی کے گوونڈی علاقے میں سیرت النبی کے موضوع پر مسجد ام القری کے زیر اہتمام ایک جلسے کا انعقاد تھا ، جس میں بحیثیت سامع میں بھی شریک تھا حمد ونعت کی روایات کے جلوے سامنے آئے پھر کچھ مقامی علماء کی ابتدائی تقریروں کے بعد کلیدی خطاب کے لئے اسٹیج پر ظاہری حسن وجمال سے آراستہ ایک شخصیت جلوہ گر ہوئی، روشن ،گول اور بارعب اور کھلا ہوا چہرہ، رنگ بالکل گورا اور حسن و جمال کا پیکر،کشادہ پیشانی،لحیم شحیم  قد وقامت، سیرت النبی کے موضوع پر دھیمے اور پرسکون مگربھاری لہجے میں  خطاب کا آغاز ہوا، رفتہ رفتہ آواز کے زیر وبم میں تبدیلی ہوتی گئی،اور موضوع کی نزاکت کے لحاظ سے بلند ہوتی گئی اور تھوڑی دیر بعد لہجے اور اسلوب میں وہ گرج اور شان پیدا ہوئی جیسے طوفان کی شکل اختیار کرتی ہوئی دریاؤں کی پرسکون لہریں۔
آواز میں بلندی کے ساتھ ساتھ اثر انگیزی بھی تھی اور خطیبانہ جوش بھی، مجمع پر سحر طاری کرنے والے مضامین بھی تھے اور ان کے دلوں پر نقش کالحجر ہوجانے والے حرف وصوت کے صد رنگ  جلوے بھی، طرزِ ادا میں سلاست بھی تھی اور قوت بیان واظہار فکر وخیال میں ساحرانہ کمال بھی،
      یہ قدآور خطیب اور جادو بیان مقرر معلوم ہے کون تھا؟ میرے خیال میں اس کے جواب کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن اگر نام کی وضاحت قلب وروح  کی تسکین کا ذریعہ ہو تو ایسے ماحول میں اس اسم باکمال کی تصریح ضرورت بن جاتی ہے’، جی ہاں یہ شخصیت ہے مولانا متین الحق اسامہ قاسمی کی۔
      جس کی ذات سے کارناموں کی ایک تاریخ وابستہ ہے، جس کی پشت پر ملی خدمات کی روشن دستاویز موجود ہے، جس کا نام ملت اسلامیہ ہند کی علمی، اصلاحی، سیاسی اور معاشرتی خدمات وسرگرمیوں کا ایک معتبر استعارہ ہے’،
آج صبح جب موبائل کھولا تو بہت سارے پیغامات کے ساتھ ساتھ یہ اندوہناک خبر بھی سامنے آئی کہ یہ شخصیت آج دنیا سے اٹھ گئی اور اس نے برسہا برس کی جد وجہد اور قوم وملت کے انفرادی مسائل سے لیکر اجتماعی مسائل کے حل کی کوششوں میں  صبح سے شام اور رات سے صبح تک صحراؤں اور بیابانوں کی آبلہ پائی کی ۔اور آج یہ مسافر تھک چکا تھا ،اس لئے وہ اس عارضی اور خود غرض دنیا سے ہمیشہ کے لیے  عالم بقا کی طرف رحلت کرگیا۔ ماضی قریب کی متعدد علمی وسماجی شخصیات کی فرقت کا زخم ابھی اچھی طرح مندمل بھی نہیں ہوا تھا کہ اس خبر نے رہے سہے زخم کے ٹانکے بھی توڑ دئیے، دل رنج و الم کے سمندر میں غرق ہوگیا، اداسی کی سیاہ چادر وجود کے ارد گرد پھیل گئی۔
حضرت مولانا متین الحق اسامہ قاسمی  مرحوم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے،وہ ایک بہترین ناظم اور مہتمم بھی تھے اور واعظ بھی، وہ ایک جید عالم بھی تھے اور مناظر بھی، وہ کئی اداروں مجلس تحفظ ختم نبوت اور جمعیت علماء اترپردیش کے صدر بھی تھے اور نیشنل پیمانے کے پرجوش،اور بےباک خطیب بھی، انھوں نے اپنے مسحور کن خطاب اور عالمانہ وناقدانہ شعور وکمال،اور مناظرانہ مہارت کی وجہ سے ملک کے اکثر حصوں میں بدعات وخرافات اور دین کے نام پر پھیلی ہوئی خانہ رسومات کی عمارتوں کو زمیں بوس کیا ہے’، جرات اظہار،بےباکی ،جوانمردی وبہادری، قدرت کی طرف سے ملی تھی علم کے توشے کے ساتھ انہوں نے باطل کے ہرمحاذ پر وہ بریلویت ہو کہ غیر مقلدیت،نیچریت ہوکہ قادیانیت، غامدیت ہو کہ ملحدیت ۔ اقدامی طریقہ کار سے احقاق حق کا فریضہ انجام دے کر باطل کی دیواروں میں شگاف پیدا کیا ہے’،اور انہیں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے،
تاہم ان تمام کارناموں میں سب سے روشن کارنامہ جمعیت علماء ہند کے پلیٹ فارم سے قوم کی ملی،سیاسی ،تعلیمی ، اور اصلاحی وسیاسی خدمات ہیں،آخری عہد میں انہوں نے اسی پہلو پر اپنی سرگرمیاں نسبتاً زیادہ مرکوز کردی تہیں،چنانچہ ملک کے اکثر خطوں میں عموماً اور یوپی کے علاقوں میں خصوصا جہاں کہیں مسلمانوں کی جماعت پریشانی کا سامنا کرتی،سیاسی لحاظ سے یا اقتصادی اعتبار سے وہ مشکلات کے بھنور میں ہوتی تو مقدور بھر ان کی جد وجہد مسائل کے حل کے تیار ہوجاتی۔
اس کے لئے وہ ہمہ وقت سفر میں رہتے، اس سلسلے میں نہ انہیں اپنے آرام کی پروا تھی نہ ہی صحت کی، نہ زندگی کی حفاظت کی فکر تھی اور نہ ہی آفات ومصائب کے اندیشے اور وسوسے ان کی راہ دیوانگی میں سنگ گراں بن کر حائل ہوپاتے، وہ بہت سے اوصاف وکمالات کے حامل تھے اور علمی واصلاحی اور احقاق حق اور ابطال باطل کے حوالے سے نہایت گراں قدر اور وسیع پیمانے پر ان کی سرگرمیاں پھیلی ہوئی تھیں
لیکن باوجود اس کے وجدان یہ کہ رہا ہے’کہ ان تمام خدمات میں قوم وملت کے لئے ان کی جو سیاسی،اقتصادی اور سماجی  محاذ پر  خدمات ہیں وہ انتہائی نمایاں، تاریخ ساز اور ناقابل فراموش ہیں، جو آپ کو وقت کے مسیحا کے مقام پر فائز کرتی ہیں، اس معاملے میں وہ انتہائی بے لوث اور بے غرض تھے جس وقت مولانا اسعد مدنی کا عہد تھا ان کی سرپرستی میں جس طرح اور جس جوش وجذبے سے مرحوم خدمت قوم وملت میں مصروف رہتے تھے ان کی رحلت کے بعد مولانا محمود مدنی کی امارت میں اسی طرح سے اس میدان خدمت خلق میں سرگرم رہے۔
مولانا مرحوم کی عمر کوئی زیادہ نہیں تھی اور جسم کے اعتبار سے ابھی وہ بالکل تنومند اور صحت مند تھے، دیکھنے والوں کےلئے یہ محسوس کرنا مشکل تھا کہ  ان کی زندگی کسی مرض کا شکار بھی ہو سکتی ہے،
لیکن یہ امر واقعہ ہے’کہ مسلسل اسفار اور جد وجہد نے جسم کی طرف توجہ سے انہیں بالکل اے نیاز کردیا تھا،اس عدم توجہی کا اثر یہ ہوا کہ انہیں شوگر نے جکڑ لیا اس کے ساتھ ساتھ ہارٹ کی بھی شکایت تھی، حالیہ وبا میں میڈیکل لائن سے مسلسل دوڑ دھوپ جاری تھی ادھر چند روز قبل انہیں بھی بخار آیا اور کانپور کے سرکاری ہاسپٹل میں ایڈمٹ کیا گیا دوسرے روز جسم سے روح کا رشتہ منقطع ہوگیا۔
ذہن اب تک تعجب میں ہے’کہ ایک ایسا شخص جس کا اثر رسوخ کانپور شہر ہی نہیں بلکہ لکھنؤ تک جس کی عظمت کی گونج تھی اسے ہیلیٹ نامی سرکاری ہاسپٹل میں کیوں داخل کیا گیا جب کہ اس اسپتال کی لاپرواہی سے متعدد لوگ موت کے منہ میں جاچکے تھے اسی کی ایک لیڈی آفسیر سے مولانا کی مریضوں کے سلسلے لاپرواہی اور مشکوک کرداروں کو لیکر خاصی جھڑپ ہوئی تھی، یہ سوال اہل شہر کے تقریباً ان تمام افراد کے ذہن میں کھڑا ہوا ہے’جس نے مولانا کی مجاہدانہ زندگی کا مشاہدہ کیا ہے’، ہرچند موت کا ایک وقت مقرر ہے اور اس کی آمد میں ایک لمحے کی تاخیر ممکن نہیں،
مگر اسباب کی رہنے والا یہ ضرور کہے گا کہ، ایسے وقت میں جب کہ گورنمنٹ ہاسپیٹلوں کی خدمات شفاف نہیں بلکہ متعصبانہ ہیں،مولانا کی زریں خدمات اور ان کی شان کا تقاضا تھا کہ انہیں اطمینان بخش نگہداشت اور معتبر عمدہ ریکارڈ کے حامل پرائیویٹ ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرنا چاہیے تھا تاکہ مستقبل میں شکوک وشبہات کی راہیں نہ کھل سکیں۔
زندگی موت کی تمہید ہے دنیا اور اس کی ہر شے  ہر لمحہ تغیر آشنا ہے ، بے ثبات ہے اور فانی ہے،انسان بھی اسی طرح بے ثبات ہے ،مولانا اسامہ صاحب کی زندگی کا سفر بھی یہیں تک تھا ، لیکن جس طرح انھوں نے اس سفر کو طے کیا ہے اور اس شاہراہ پر جس طرح اپنے کارناموں کے رنگ بکھیرے ہیں وہ اس قدر گہرے ہیں کہ وقت کے گرد وغبار  ان کی تنویروں کو قید نہیں کرسکتے،اور یہی چیز شخصیت کے دوام کا ذریعہ ہوتی ہے جو یقینا مولانا متین الحق اسامہ مرحوم کو حاصل ہے’

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×