وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
ملک کی ترقی،اس کی خوشحالی، اس کا معاشی استحکام، امن وامان کی صورتحال،اور سماج کی خوبصورتی ۔جہاں باہمی رواداری، انسانی حقوق کی پاسداری، اور اپنے ملکی،سماجی ،فرائض کی دیانت کے ساتھ انجام دہی پر منحصر ھے،وہیں اس کو ارتقاء کی راہوں سے آشنا کرنے کے لئے ملک کے نگہبان اور اس کے حکمرانوں کی نیتوں کی شفافیت، قلب ونظر کی وسعت، انصاف ودیانت، عناد وتعصب سے پاک کردار وعمل کی یکسانیت، اور رواداری ومساوات اور جمہوریت وعدالت جیسے اوصاف بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ، یہی وہ
کردار ہیں جو ملک کو سیاسی، معاشی، سماجی، اقتصادی اور تہذیبی لحاظ سے اونچے مقام پر لے جاتے ہیں، یہ ملک کی عمارت کے وہ ستون ہیں’کہ اگر ایک بھی ان میں سے منہدم ہو جائیں تو ملک کی عمارت کمزور ہوجاتی ہے، اس کا آئین بے روح اور اس کی فضا مسموم ہوجاتی ہے’،
بدقسمتی سے ملک بھارت میں ارتقاء کی عمارت کا کوئی ستون بھی صحت مند اور سالم نہیں ہے بلکہ اس کے تمام درودیوار فرقہ پرستی اور متعصبانہ شعلوں کی زد میں آکر مخدوش ہوچکے ہیں، ایک طرف عوام کے درمیان منافرت کی وسیع خلیج ہے’، مذہب کے نام پر فرقہ وارانہ کشیدگی ہے’، نظریات وخیالات کے اختلاف کے نتیجے میں انتہا پسندی ہے’، امیر وغریب کے درمیان طویل فاصلے ہیں، انسانوں کے درمیان طبقاتی کشمکش ہے’، طاقت کے غرور میں کمزوروں پر مختلف قسم کی ستم رانیوں کے سلسلے ہیں،
اکثریت کے زعم مکروہ کے نتیجے میں اقلیتوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی کا نشہ ہے’، نفرت ہے،عداوت ہے،متشددانہ کردار ہے، انتہا پسندانہ عمل ہے’، فسادات ہیں، مآب لنچنگ ہے، خوف وہراس ہے،اور ملک کے ایک اک گوشےمیں ،دہشتوں کے مہیب سائے ہیں، ۔
تو دوسری طرف اس ملک پر اصحاب اقتدار کی ناانصافیوں کی طویل داستان ہے’، دہرے روئیے ہیں، ڈکٹیٹر شپ ہے،آمریت ہے، متعصبانہ روش ہے’، اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کی پالیسیاں ہیں، اور ایک قوم کو بے دست وپا کردینے اور اسے بے حیثیت کرکے گمنامی کے اندھیروں میں غرق کر دینے کے منصوبے ہیں، جمہوریت کے اس دیس میں قوم پرستی کی لہر اور فسطائیت وکمیونزم کے نفاذ کی غیر قانونی کوششیں اور سرگرمیاں ہیں۔ جس کی وجہ سے زندگی کے تمام شعبے
وہ سیاست و عدالت، ہو یا معیشت و معاشرت ،تعلیم و تدریس ہو یا صنعت وتجارت ، زوال و انحطاط کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں، ہر طرف بے یقینی کی فضا ہے’، مایوسیوں کا ماحول ہے’،
غربت و افلاس کا سایہ ہے’، بے بسی کی دھوپ ہے’،
پسماندگی کا راج ہے’، اور بے کسی کے اندھیرے ہیں،
دنیا میں وہی معاشرہ خوشحال ہے’،وہی ملک ارتقاء آشنا ہے’، وہی سماج امن کی راہوں پر گامزن ہوسکتا ہے جس میں فرمانرواؤں اور سیاست دانوں کی لفظی بازیگری کے بجائے عمل کی حکمرانی ہو،کرداروں کی قوت ہو، انصاف ومساوات کے اجالے ہوں۔
اس کے برعکس کردار وعمل اگر غیر منصفانہ ہوں، ملکی مفادات پر ذاتی مفادات کا نظریہ اور پلان ہو، متعصبانہ فکر اور فرقہ وارانہ سوچ ہو،تو ان سے وہی نتائج پیدا ہوتے ہیں جو ہم اور اس ملک کے تقریباً تمام شہری ہی نہیں پوری دنیا اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے ، جو غربت،افلاس، بدامنی،انارکی ، تشدد خونریزی، عداوت ومنافرت،
نفرت وتعصب، فرقہ وارانہ جنون اور نسل پرستانہ دیوانگی، خیانت وبددیانتی، اور رشوت و ڈاکہ زنی،اور قتل وغارت گری کی صورت میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں، لفظوں کے سبز باغ سے ارتقائی عمارت تاریخ میں کبھی کھڑی ہوئی ہے اور نہ کی جاسکتی ہے،لیکن اس کے باوجود اس ملک کے فرمانروا نے
اپنے پورے عہد اقتدار میں اسی غیر حقیقی تصور پر اپنے نظریات کی عمارت بنانے کی کوشش کی ہے’اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ایک بڑی تعداد محض ایک قوم کے عناد پر سب کچھ صحیح ماننے کو تیار بھی ہوجاتی ہے’اس سے اس ملک کی فضا اور اس کے مسموم ماحول کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،
ملک کے اقتدار اعلیٰ کا حالیہ بیان درحقیقت اسی نوعیت کا ایک نمونہ ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے، پوری دنیا میں پھیلی ہوئی عالمی وبا کے تناظرمیں وقفے وقفے سے رونما ہونے والا یہ چھٹا بیان ہے’ اور اس دوران نسبتاً قدرے طویل وقفے سے ظاہر ہوا ہے، مگر ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی اس میں وہی سنہرے وعدے ہیں، ماضی کے ہوائی کارناموں کی فہرست ہے ، حقیقی دنیا سے جس کا کوئی واسطہ نہیں ہے،ہاں یہ ضرور ہے کہ ایک خاص طبقے اکثریت کی تسلی کا سامان فراہم کیا گیا ہے،
ملک کی عوام بہت ساری امیدوں کے خواب سجائے شدت سے منتظر تھی کہ اس بار خطاب میں معاشی لحاظ سے بدحال اور مفلوک الحال افراد کو نئی زندگی فراہم کرنے والی سہولیات کا اعلان کیا جائے گا، ملک میں پھیلی ہوئی بے روزگاری کو ختم کرنے کی مضبوط اسکیم جاری ہوگی، کاروبار و معیشت کی غرق آب کشتی کو ساحلوں سے ہم کنار کرنے کی مستحکم پلاننگ رونما ہوگی، پٹرول وڈیزل کے ساتھ ساتھ دوسری بنیادی ضروریات کی قیمتوں پر بات ہوگی، ملک کی سالمیت کے حوالے سے چائنا کی جارحیت پر ٹھوس پالیسی منظر عام پر آئے گی، کرونا کی وبا کے نتیجے میں ہاسپیٹلوں میں مریضوں کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ رویوں پر گفتگو ہوگی،
مگر جب اسپیچ آئی تو پتہ چلا کہ اس کی سمت کہیں اور ہے،
اور اس کے ٹاپک کا رخ دوسری طرف ہے’، ملک میں اچانک لاک ڈاؤن کے فیصلے سے متوسط طبقات کی حالت جس قدر ابتر ہوئی ہے’،کاروبار اور صنعت وتجارت کے حوالے لاکھوں افراد جس طرح بے دست و پا اور تنگ دست ہوئے ہیں، بے شمار خوشحال خاندانوں کی زندگیاں جس کس مپرسی میں شب وروز بسر کررہی ہیں، مزدور طبقے کے لاکھوں افراد بے بسی کی حالت میں جس طرح فاقہ کشی پر مجبور ہیں،ان کے انتظام کے سلسلے میں، افلاس اور غریبی کے عفریت سے انہیں آزاد کرنے کے سسٹم اور منصوبہ کے بارے میں حالیہ خطاب میں بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آئی،
کرونا کی ہلاکت خیز وبا میں گرفتار بے شمار مریضوں کی طبی سہولیات،ہاسپیٹل میں ان کے ساتھ حیوانیت جیسا برتاو اور سلوک اور ان کے ساتھ لاپرواہی،پرائیویٹ اسپتالوں کی خدمات پر بندش اور سرکاری ہاسپٹل میں ڈاکٹروں کی عدم توجہی، کے نتیجے میں جس طرح اموات کا تسلسل ادھر سے ادھر تک جاری ہے’اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، بیسیوں ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں ۔ایک اچھا خاصا شخص معمولی بخار کھانسی جیسی بیماریوں کے ساتھ ہاسپٹل جاتا ہے’اور دوسرے یا تیسرے روز پر اسرار حالات میں اس کی لاش ہی برآمد ہوتی ہے’، اس طرح کے لاپرواہی، بے توجہی، ناروا سلوک، اور مریضوں کے اہل خانے سے سخت رویوں کے واقعات کی سنگینی یہاں تک پہنچ چکی ہے’کہ انہیں لاش تک دیکھنے کی اجازت نہیں ملتی ہے ،متعددایسی واردات پیش آئی ہیں کہ انسانوں کا پورا وجود ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے’، ممبئی میں ایک مریض کی موت کے بعد سیل شدہ باڈی جب اہل خانہ کو فراہم کی گئی اور ڈاکٹروں کی ہدایت کے برخلاف جب اسے کھولا گیا تو میت دوسرے شخص کی برآمد ہوئی، حال ہی حیدرآباد وشودھا ہاسپٹل کا ایک کارنامہ سامنے آیا ہے’جس کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے’
کہ ایک مولانا جو شوشل ورکر تھے، معمولی بیماری میں مبتلا ہوئے، مذکورہ ہاسپٹل میں داخل ہوئے تو دوسرے روز یہ کہ دیا گیا کہ مریض کی ڈیتھ ہوگئی ہے گھر والوں نے اثر رسوخ کی وجہ سے جب تمام وارڈ میں چیک کیا تو ایک جگہ وہ زندہ حالت میں ملے اس طرح ان کی جان بچی، انسانوں کے ساتھ مختلف قسم کی بے شمار بیماریاں ساتھ ساتھ رہتی ہیں جس کا نارمل حالت میں علاج ومعالجہ جاری رہتا ہے’لیکن انہیں بیماریوں کے ساتھ جب اس دور میں کوئی شخص اسپتال جاتا ہے’تو اسے حالیہ وبا کی فہرست میں ڈال کر انہیں اس وارڈ میں داخل کردیا جاتا ہے’جہاں پہلے سے متعدد لاشیں سیل کر کے رکھی ہوتی ہیں،اس صورت حال سے وہ خوف و دہشت میں ایسا جکڑ جاتا ہے کہ پھر وہ ہمیشہ کے لیے موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے، عام صحت مند انسانوں کے ساتھ سرکاری اسپتالوں کا رویہ حد درجہ افسوسناک ہے ،جس کی وجہ سے عوام کا اعتماد یکسر
شفاخانوں سے اٹھ چکا ہے ،لیکن اس موضوع پر خطاب میں کوئی بات نہیں ہوئی۔۔۔
ایک طر ف طویل لاک ڈاؤن کا طوفان ہے’جس میں اچھے اچھے خوشحال افراد کے معاشی آشیانے بکھر چکے ہیں،دوسری طرف بڑھتی ہوئی اشیاء خوردونوش کے ساتھ ساتھ پٹرول وڈیزل کی مہنگائی نے زندگی کے سفر کو دشوار تر کردیا ہے’ ،ایسے وقت میں تو خاص طور سے ضرورت تھی کہ منظم منصوبے کے تحت اس مہنگائی پر قابو پانے کی فکر کی جاتی لیکن اس خطاب میں اس عنوان کو بھی جگہ نہ مل سکی،
ملک کی سالمیت کے لئے بارڈر پر محافظین کی سہولیات اور فوج کے دفاعی واقدامی اختیارات بھی لازمی ہیں، چائنا نے جس طرح ھمارے فوجیوں پر حملے کرکے انہیں زندگی سے محروم کیا ہے’یہ کسی بھی صورت میں قابل برداشت نہیں ہے’، اس حملے کے ذریعے اس نے بھارت کی اہم سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے’، اسے بازیاب کرانے اور فوجیوں کو مناسب سہولیات فراہم کرنے، چائنا کا ہر لحاظ سے مسکت جواب دینے کے لئے منظم پلاننگ اور مستحکم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔لیکن یہاں بھی اس اہم موضوع کو نظر انداز کر دیا گیا۔
ہاں۔۔پورے ملک میں جو اناج تقسیم ہوا ہے’، پانچ کلو گیہوں اور چاول غریبوں کو دیا گیا ہے، اس کا ذکر بڑے شدومد سے کیا گیا ہے پوری تقریر اس پر مرکوز رکھی گئی کہ غریبوں کے راشن کا انتظام حکومت نے اس طرح بڑے پیمانے پر کیا ہے کہ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی،سوال یہ ہے کہ ملک میں غریبوں کو افلاس کے سمندر سے نکالنے کے لیے صرف دس کلو اناج ایک مہینے میں کافی ہے’، ایک ایسے وقت میں جب معاش کے تمام ذرائع بند ہون، علاج ومعالجہ کے سارے سسٹم مخدوش ہوں، ملازمت ومزدوری اور صنعت وتجارت کے سارے راستے مسدود ہوں وہاں زندگی بسر کرنے کے لئے چند کلو غلہ کیا حیثیت رکھتا ہے،
افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ مفت کے اس راشن کی تقسیم کا اعلان بڑے کروفر سے نومبر تک یہ کہ بڑھا دیا گیا کہ ضروریات زندگی کا دائرہ بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے طویل ہوگیا ہے’، اس ضمن میں مختلف تیوہاروں کا نام لیا گیا، گروپورنما،رکشابندھن،جنم اشٹمی،گنیش چترتھی،نوراتری،درگاپوجا،دسہرہ ،دیوالی اور چھٹی کی پوجا،ان سارے تیوہاروں کا ذکر کیا گیا جس میں ضروریات کے بڑھ جانے کا امکان ہے مگر اس خطاب میں اگر نہیں جگہ ملی تو سامنے آنے والے ایک تیوہار عید الاضحی کو، عیسائیوں کے کرسمس کو، سوال یہ کہ کیا اقتدار اعلی صرف ایک کمیونٹی اور ایک نظریہ ومذہب کے ماننے والوں ہی کے وجود میں آیا ہے، اس کا تعلق دوسری اقوام سے نہیں ہے’صرف اکثریت
کی خبر گیری اس کے فرائض میں داخل ہے؟
‘، ایک جمہوری ملک کبھی اس کی اجازت نہیں دے سکتا کہ اجتماعی سہولیات کے سلسلے میں صرف ایک طبقے کی بات کی جائے اور دوسری تمام اقلیتوں کو نظر انداز کر دیا جائے،
وزارت عظمیٰ کا منصب انتہائی معزز اور اونچا ہے’، ملک کی عوام کے درمیان اگر مذہبی تعصب کا ظہور ہوتا ہے’،فرقہ واریت جنم لیتی ہے’، نسل پرستی پر پھیلاتی ہے’،انتہا پسندی راہ پاتی ہے’ ،تو ہر چند یہ سماج معاشرے اور ملک وملت کے لئے تباہی وبربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے’لیکن یہی چیزیں جب نگہبانوں کے عمل اور ان کے بیانات سے صادر ہوتی ہیں’تو اس کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے’، جمہوریت اپنی موت مرجاتی ہے’، ملک رسوا اور قانون بے اثر ہوجایا کرتے ہیں، ہر فرد اس یکطرفہ بیان اور اکثریت کو خوش کرنے والی اسپیچ میں متعصبانہ کردار کو دیکھ سکتا ہے’، جمہوریت کے حوالے سے بھارت پوری دنیا میں ایک شناخت رکھتا ہے’لیکن ماضی قریب کے متعدد فیصلوں کے علاوہ اس اہم خطاب میں بھی ایک کمیونٹی کو نظر انداز کرکے دنیا والوں کے سامنے مساوات،جمہوریت اور سیکولرازم کی کون سی تصویر پیش کی گئی ہے اسے بھی ہر انصاف پسند محسوس کرسکتا ہے۔
ملک کے مزاج اور اس کے قانون کا تقاضا تھا کہ رہنمائے اعظم کی زبان سے جہاں اور اکثریت کی اشک سوئی اور اس کی بندہ پروری کے لئے سنہرے دعوے تھے وہیں اقلیتوں کے تیوہاروں کے لئے ان کے مخصوص خوشی ومسرت کے ایام کی خوشگواری اور ان لمحات کی ضروریات کی تکمیل کے لئے بھی حکومت کی طرف سے کسی وعدے،کسی منصوبے اور کسی جذبات کا ذکر ہوتا۔ مگر جب ملک کی سالمیت،اس کی جمہوریت، اور اس کی مساویانہ روایات کے تحفظ کے بجائے مخصوص نظریات کی تحفیظ اولین ترجیح قرار پاجائے تو کردار وعمل تو ایک طرف رہا۔لفظوں کی سطح پر بھی رواداری اور مساوات کے تصور اور جذبات کو مشکل ہی سے جگہ مل پاتی ہے۔
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا