احوال وطن

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی خدمات ،علمی سرمایہ اور فکری میراث پر دوروزہ سمینار

نئی دہلی ۔10دسمبر (2022) معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کی شخصیت اور خدمات پرمنعقد ہورہے دوروزہ سمینار کے افتتاحی اجلاس میں معروف عالم دین مولانا خالدسیف اللہ رحمانی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ایک بھولی بسری شخصیت پر سمینار کا انعقاد قابل ذکر ہے۔ مولانا شاہ عبد العزیز ایک ایسے علمی خانوادہ کے سپوت تھے جنہوں نے علم حدیث سے ہندوستان کا رشتہ جوڑا، جب معقولات لوگوں کیلئے مرکز توجہ بن گیا تھا اور قرآن وحدیث سے لوگ دور ہوگئے تھے اس وقت انہوں نے علم دین سے لوگوں کو جوڑا۔ ان کی درس گاہ منقولات کا مرکز تھی اور صحاح ستہ وہاں پڑھائی جاتی تھی۔ ہندوستان میں حدیث کی جتنی سند ملتی ہے اور جتنے مکاتب فکر ہیں سب کا سلسلہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے ملتا ہے اور اس کے بعد آگے بڑھتی ہیں۔
ہندوستان میں جو مدارس ہیں ان کی سند شاہ اسحاق رحمة اللہ علیہ اور فضل رحمان گنج مرادآبادی رحمة اللہ سے ملتی ہے۔ دونوں کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے حدیث کی اجازت تھی اور یہی اس وقت ہندوستان میں حدیث کی سند ہے۔ اس خاندان کا سب سے بڑا فیض یہ ہے کہ لوگ جو علم حدیث سے دور ہوگئے تھے اور معقولات پر بھروسہ کرلیا تھا اس کا انہوں نے خاتمہ کیا اور علم حدیث سے جوڑا۔ اس خاندان نے قرآن سے بھی لوگوں کو جوڑا جس کی شروعات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے کی تھی۔ مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث نے اپنے خطاب میں کہاکہ جب مغلیہ حکومت نے انگریزوں کو زمین فراہم کیاتھا تو شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے اس کی شدید مخالفت کی اور کہاکہ مال دو لت دے دیتے لیکن زمین نہیں دینی چاہیے تھی اس کا بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا اور یہی ہوا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر منظور عالم نے اپنے پیغام میں کہاکہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کی شخصیت اور اور خدمات کا محققانہ منصفانہ جائزہ لینے والوں نے ان کی خدمات کو پانچ بنیادی نکات میں تقسیم کیاہے ۔ قرآن کریم کی تشریح وتبلیغ خدمت حدیث نبوی اسلام کے بنیادی ماخذ ومصادر کو مشکوک بنانے والی کوششوں کا سدباب وسیع تر مقاصد کیلئے انگریزی استعمار سے آزادی کی جدوجہد  افراد سازی یہ وہ پانچ نکات ہیں جن کو شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی زندگی میں بآسانی دیکھاجاسکتاہے ۔
مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی پروفیسر حدیث جامعہ محمد بن زاید للعلوم الانسانیہ ابوظہبی نے اپنے پیغام میں کہاکہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی اولاد کے درمیان وہی مقام حاصل ہے جیسے شیخ معصوم سرہندی کو حضرت مجدد صاحب کے صاحبزادگان کے درمیان ہے ۔ان کی ذات گرامی کو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے سلسلے کو پورے عالم میں پہونچانے کا اللہ تعالی نے ذریعہ بنایا بلکہ شاہ صاحب کے تجدید کارناموں کے ذریعہ ان کی تکمیل ہوئی ۔
معروف عالم دین مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی زندگی کے مختلف پہلوﺅں کا پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ حضرت شاہ صاحب نے اپنی زندگی ، دینی خدمات اور ملت اسلامیہ ہندیہ کی دینی ضروریات کی صحیح رہنمائی او ر ان کی خدمت اس طرح بسر فرمائی کہ شاید زندگی کا کوئی وقت اس کی فکر سے خالی او رضروری دینی خدمات سے فارغ نہیں تھا۔حضرت شاہ صاحب قرآن کریم کی تعلیم کو زندہ اور عوامی پیغام بنانے کیلئے زندگی کے ہر ایک دن میں محنت کی اور اس کو طرح طرح سے امت کے سامنے پیش فرمایا۔در س حدیث بھی لازمہ حیات تھا ۔وہ بھی زمانہ تعلیم سے وفات کے دن تک ایک بڑی ذمہ داری اور مشغولیت تھی ، ہر وقت ہمیشہ درس حدیث ، خدمت حدیث حل تصیحح الفاظ حدیث اور حدیث شریف کی تعلیم وتفیہم ، اس کیلئے شاگردوں اور فضلاءکو تیار کرنے اور ہر پہلو سے حدیث شریف کو عام کرنے اس کے متون کی صحت ودرستگی میں فرد فرید بلکہ امام وقت تھے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے صد ر مولانا رابع حسنی ندوی نے اپنے پیغام میں کہاکہ شاہ عبد العزیز محدث دہولی نے جس دور میں آنکھیں کھولیں اور میدان عمل میں قدم رکھاوہ دور فتنوں سے بھرا ہوتھا ، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جو کسی فتنے میں مبتلا نہ ہو ، صحیح اسلامی عقیدے پر باقی رہنا مشکل ترین عمل بن چکاتھا ، اسلام مخالف نظریات ور جحانات گھر گھر داخل ہوچکے تھے ،اور ایک فیشن کی شکل اختیار کرچکے تھے ، ان کا مقابلہ کوئی آسان کام نہ تھا لیکن شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کو وراثت میں جو علم ملاتھا ترکے میں جو فکر ملی تھی اور پھر امت کیلئے درد اور تڑپ کی جس دولت سے وہ مالامال تھے اس نے ان کو روشنی کا ایک ایسا مینارہ بنادیاتھا جس سے پورا بر صغیر جگمگانے لگا ۔ مولانا کاکا سعید احمد عمری نے اپنے پیغام میں کہاکہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی بیک وقت ملک ہندوستان کی جغرافیائی اور دین اسلام کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ خوب سے خوب تر انجام دیا ۔
خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے سجادہ نشیں حضرت مولانا محمد آیت اللہ قادری کا پیغام مولانا مشہود احمد قادری ندوی نے پیش کیا ۔ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اپنے خطاب میں کہاکہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے انگریزوں کے خلاف فتوی دیا اور ہندوستان کو دارلحرب قرار دیاجس کے بعد مسلمانوں نے آزادی کو ضروری سمجھا ۔
صدارتی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے کہاکہ شاہ عبد العزیز محد ث دہلوی کی جو فکر او ر سوچ تھی آج اسی کو اپنانے او ر اس راستہ پر چلنے کی ضرورت ہے ۔ اس موقع پر تین کتابوں کا رسم اجراءبھی عمل میں آیا ۔
1- دکن میں اسلامی علوم کی خدمات ، مرتبین : ڈاکٹر محمد فہیم ختر ندوی ، ذیشان سارہ ، صفحات : 478 ، قیمت : 495 روپے ۔
2 – جامع مسجد گیان واپی اور بنارس کی دیگر تاریخی مساجد ، مولانا عبد الحمید نعمانی ، صفحات : 166 ، قیمت : 195 روپے
3 – آئی او ایس کا ترجمان سہ ماہی مطالعات نئی دہلی (شمارہ 60 ,61) حدیث نمبر
قبل ازیں افتتاحی اجلاس کا آغاز مولانا اطہرحسین ندوی کی تلاوت سے ہوا ، نظامت کا فریضہ مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی نے انجام دیا ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×