اسلامیات

قربانی کا پیغام

اسلام کے اصل معنیٰ سر افگندگی اور تسلیم و رضا کے ہیں انسان اپنے آپ کو خالق کے حکم کے سامنے بچھا دے اپنی خواہشات کو خدا کی رضا جوئی کی چوکھٹ پر قربان کر دے اور یہ چیز عقیدہ و ایمان سے لے کر جان و مال اور اس سے بڑھ کر اولاد وعیال تک ہو جائے تو یہ بندگی کا کمال اور عبدیت کی معراج ہے اسلامی تعلیمات بندے کو اپنے خالق کے ساتھ وفا شعاری عبدیت و بندگی خدا کی محبت میں میں علائق دنیا سے بے نیازی خودسپردگی شرک سے نفرت حق کی دعوت سکھاتی ہے چنانچہ قربانی (جو کہ ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے ) کا سبق بھی یہی ہے کہ تقرب خداوندی کے حصول کی نیت سے حکم ربانی کے سامنے خواہشات نفسانی کو ملیامیٹ کر دیا جائے مگر حیف صد حیف کہ اس طرف ہمارے ذہنوں کی رسائی تک نہیں ہوتی حالانکہ کے اصل مقصود اللہ تعالی کا خوف و خشیت دل میں جاگزیں ہو جانا اور ہر معاملے میں شریعت اسلامی کا تابع فرمان بن جانا ہے یہ قربانی ٖ ہمیں اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ جس طرح ابوالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے آقا کے حکم پر لاڈلے لخت جگر اور نور نظر کو قربان کرنے کا تہیہ کر کے اپنی واقعی بندگی کا ثبوت دیا اسی طرح ہر انسان کو اپنی انا حکم ربی کے سامنے فنا کر دینی چاہیے بلاشبہ یہ انسانیت کی معراج ہے اور عبدیت کا سب سے اونچا مرتبہ ہے قربانی اصل میں نفس کشی کا ذریعہ اور محبت الہی کا مظاہرہ ہے زندگی کے ہر موڑ پر آدمی کو نفس کشی یعنی قربانی دینی پڑتی ہے کاروبار چھوڑ کر عبادات کے لیے وقت فارغ کرنا یہ بھی ایک طرح کی قربانی ہے معاشرتی اصلاح میں نا مساعد حالات پر صبر کرنا بھی قربانی کی ایک مثال ہے اسی طرح اجتماعی زندگی میں بھی قربانی کی ضرورت پڑتی ہے آج اقتدار پسندی خود غرضی اور مفاد پرستی کا دور ہے اسی وجہ سے دلوں میں بغض و عداوت حسد اور کینہ کی بھرمار ہے دوسرے کی ترقی آنکھوں میں کھٹکتی ہے اور ہر معاملے کو کاروباری انداز سے دیکھنے کا رواج ہو گیا ہے ہر طبقے میں اور ہر سطح پر صرف اور صرف اپنے مفاد کے لیے لوگ تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں ایسے معاشرے اور سماج میں ایثار کرنا اور اپنے اوپر دوسرے کو ترجیح دینا بڑے دل گردے کا کام ہے اور یہ وقت کی سب سے بڑی قربانی ہے اس قربانی سے بڑے بڑے فتنے منٹوں میں دب جاتے ہیں اور سالوں کے رقابتیں لمحوں میں ختم ہو جاتی ہے اور اگر یہ جذبہ مفقود ہو تو دو سگے بھائیوں میں بھی اتحاد و اتفاق اور انس و محبت کی فضا باقی نہیں رہ پاتی غرض یہ کہ زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں قربانی دینے کا سبق سیکھنا چاہیے یہ کامیابی کی کنجی اور فلاح کی ضمانت ہے تاریخ کے صفحات گواہی دیتے ہیں کہ قوموں کا عروج ان کی قربانیوں سے ہی ہوا ہے اور قربانی کا جذبہ سرد پڑ جانے پر بڑی سے بڑی قومیں بھی نیست و نابود ہو کر تاریخ کے نہاں خانوں میں چلی گئی ہے قربانی کی عبادت انجام دیتے وقت ہمارے سامنے صرف جانور کا گوشت پوست نہ رہے بلکہ اس کے پس پشت جو آفاقی پیغام مضمر ہے اسے دھیان میں رکھ کر ہمیں اس عبادت کی سعادت سے بہرہ ور ہونا چاہیے اسی آفاقی پیغام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی علیہ السلام نے فرمایا لا یومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ (مشکوۃ شریف ) شریعت کے سامنے سر تسلیم خم کر کے نفسانی تقاضے کو دبا دینا ہی تو قربانی ہے یہی تقوی کا مفہوم ہے قربانی کا پیغام یہ ہےکہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنی عقل اپنے علم اپنی رشتہ داری کسی چیز کو بھی اللہ کے حکم کے مقابلے میں ترجیح نہیں دی اسی طرح ہم کو بھی چاہیے کہ جب خدا کا حکم آ پہنچے تو وہاں نہ اپنی عقل کو ترجیح دیں نہ اپنے علم کو نہ کسی اور کو اور بعض لوگ اللہ کے حکم کے مقابلے میں اپنی سمجھ و فہم پر بھروسہ کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی یہ عقل کے خلاف ہے اگر ان لوگوں کو اللہ سے محبت ہوتی تو ایسی بات ہرگز نہ کہتے اور نہ خدا کے حکم کو ٹھکراتے قربانی کا ایک درس یہ بھی ہے کہ ایثار و قربانی اور اخلاص و للہیت کا مزاج پیدا ہوجائے اللہ تعالی کے علاوہ کائنات کی ہر شے چاہے اولاد ہو یا عزیز مال یا جائیداد عہدہ ہو ہو یا منصب واقتدار ہو ان سب پر خدا کی رضا اور خوشنودی کے لئے چھری چلا دی جائے ضرورت ہے کہ ہم قربانی کی اصل روح اور پیغام کو سمجھیں اور اس سے حاصل ہونے والے دروس و عبر ت سے نفع اٹھائے اور زندگی کے جس موڑ پر ہم سے جیسی قربانی مانگی اور چاہی جائیں ہم اس کے لیے ہمہ وقت اپنے آپ کو تیار رکھیں اللہ پاک دین کا فہم اور توفیق عمل نصیب فرمائیں آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×