احوال وطن

مسلم قیدیوں میں وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کا رجحان

ممبئی: 16/جنوری (پریس ریلیز) یوں تو ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق سب کو ہے لیکن قیدیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت عدالت اور جیل سپرنٹنڈنٹ سے طلب کرنی پڑتی ہے اور اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قیدیوں کو ہائی کور ٹ اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع ہونا پڑتا ہے کیونکہ عدالت کی اجازت کے بغیر کالج انہیں ایڈمیشن نہیں دیتے۔
دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کا سامنا کررہے ملزمین جیل میں اپنے بیشتر اوقات پڑھائی لکھائی کرکے گذا ر رہے ہیں، بیشتر ملزمین نے مختلف کورسیس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے تو کچھ ملزمین نے وکالت کی تعلیم بھی مکمل کرچکے ہیں، گذشتہ دنوں ہی 13/7 ممبئی سلسلہ وار بم دھماکہ معاملے کے ملزم ندیم اختر نے ممبئی یونیورسٹی سے اعلی نمبرات سے کامیابی حاصل کی ہے اور اب وہ باقاعدہ طور پر مہاراشٹر بار کونسل سے رکنیت حاصل کرنے جارہے ہیں۔
ملزم کو قانونی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملزم ندیم اختر کے تعلیمی اخراجات جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) نے برداشت کیئے ہیں۔
اس ضمن میں موصولہ اطلاعات کے مطابق ملزم ندیم اختر اور دیگر ملزمین گذشتہ دس سالوں سے زائد عرصہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہیں اور ابتک ان کے مقدمہ کی باقاعدہ سماعت شروع نہیں ہوسکی ہے۔خصوصی مکوکا عدالت نے ان کی ضمانت عرضداشت خارج کردی ہے، نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف بامبے ہائی کورٹ میں ضمانت کی اپیل التوا ء کا شکا رہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب جیل میں رہتے ہوئے کسی ملزم نے قانون کی تعلیم مکمل کی ہو، اس سے قبل 7/11 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ معاملے کے ملزم احتشام قطب الدین صدیقی، عبدالواحید دین محمد، اورنگ آباد اسلحہ ضبطی معاملے کے ملزم ڈاکٹرشریف، پربھنی داعش معاملے کا سامنا کررہے رئیس الدین صدیقی و دیگر نے بھی وکالت کی تعلیم حاصل کی ہے۔
دہشت گردانہ معاملات کا سامنا کررہے مسلم نوجوانوں کا مقدمہ لڑنے والے ایڈوکیٹ شاہد ندیم (جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی) نے بتایا کہ جیل میں رہتے ہوئے وکالت کی تعلیم حاصل کرناآسان کام نہیں ہے، ملزمین جیل میں پڑھائی تو کرلیتے ہیں لیکن ایڈمیشن لینے اور امتحان کے وقت امتحان سینٹر پر جانے میں شدید دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حکومت کی جانب سے کوئی رعایت نہ ملنے کے باوجود قیدیوں میں وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن مختلف پابندیوں کی وجہ سے پریشانی بھی پیش آ رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایڈمیشن لینے سے امتحان دینے اور پھر بار کونسل میں رجسٹریشن کرانے تک عدالت کی اجازت لینا پڑتی ہے، زیر سماعت یا سزا یافتہ ہونے کے باوجود قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے قیدیوں کو حکومت کی طرف سے فیس میں کوئی رعایت نہیں دی جاتی ہے جبکہ تعلیم حاصل کرنا شہریوں کا آئینی حق ہے اور مفت تعلیم مہیا کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے مزید کہا کہ ایڈمیشن لینے کے وقت اور پھر امتحان کے وقت جیل سے امتحان سینٹر پر لیجانے کا پولس عملہ فیس وصول کرتا ہے اور یہ فیس کبھی کبھی لاکھوں روپئے سے تجاوز کرجاتی ہے نیز ملزمین کو امتحان دینے والے دیگر لوگوں سے الگ بیٹھایا جاتا ہے اور جب تک پیپر لکھنا مکمل نہیں ہوجاتا مسلح پولس والے ان کے ارد گرد کھڑ ے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ایکزام سینٹر کا ماحول بھی متاثر ہوتا ہے۔
انہو ں نے مزید کہا کہ دیگر پیشہ وارانہ کورسوں کی طرح قانون کی تعلیم فاصلاتی طور پر نہیں ہوتی ہے لہذا ملزمین کو ایکزام سینٹر اور کبھی کبھی لیکچر میں شرکت کرنے اور دیگر امور مکمل کرنے کے لیئے کالج بھی جانا پڑتا ہے اور جیل سے باہر جانے پر ان کے ساتھ پولس کی ٹیم رہتی ہے جو نا صرف ان کی نگرانی کرتی ہے بلکہ ان سے اسکاؤٹ کے چارجیس بھی وصول کیئے جاتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×