سیاسی و سماجی

گوڈسے سے گوپال تک

گوڈسے سے گوپال تک ۔۔۔دہشت گردوں کا ایک ہی ٹولہ۔۔۔ملک مخالف گروہ کا ایک ہی مقصد ۔۔۔امن کے پجاریوں کو مارنا ۔۔۔۳۰ جنوری ۱۹۴۸ کو گاندھی جی کا قتل کیاگیا اور ۷۲ سال بعد ۳۰ جنوری ۲۰۲۰ کو گاندھی جی کے ماننے والوں کے قتل کی کوشش کی گئی۔ گوڈسے مرا نہیں وہ زندہ ہے ، اس کی فکر زندہ ہے اور جب تک اس فکر کو پھانسی نہیں دی جائے گی ، ملک میں گاندھی کا قتل ہوتا رہے گا؛ لیکن اس فکر کو پھانسی کون دے گا جو اقتدار میں ہیں وہ سر عام نعرہ لگا رہے ہیں "دیش کے غداروں کو، گولی مارو۔۔۔۔۔۔کو” پھر کیسے اس ذہنیت کا خاتمہ ہوگا، کیسے گوڈسے کی فکر کا قتل کیا جائے گا؟ جب اس طرح کے نعرے لگائے جائیں گے کھلے عام نفرت بانٹی جائے گی وہ جن کے آباء و اجداد نے خون جگر سے اس ملک کی آبیاری کی انکو غدار سمجھا جائے گا اور وہ جنہوں نے انگریزوں کی مخبری کی وہ محب وطن ٹھہریں گے تو پھر کیسے اس سوچ کا خاتمہ ہوگا کیسے ملک میں نفرت ختم ہوگی ؟ اب تو یہ مزید بڑھے گی اگر اسی دن جس دن گوڈسے نامی دہشت گرد نے باپو کا قتل کیا تھا اس کے حامیوں سمیت اس کو پھانسی دی گئی ہوتی، اس سوچ کا قتل کردیا گیا ہوتا، وہ پارٹی جو اسے سپورٹ کررہی تھی اس کا خاتمہ کردیا جاتا تو شاید آج کوئی یونیورسٹی کا طالب علم بندوق کے دہانے پر نہ کھڑا ہوتا، بندوق کا نشانہ نہ بنتا، زخمی نہ ہوتا؛ لیکن اس ملک میں یہ ناممکن ہے جہاں انصاف کے پیمانے دوہرے ہوں، جہاں نظریات و افکار شخصیات دیکھ کر ، مذہب دیکھ کر بدل دی جاتی ہوں وہاں یہ سب نہیں ہوسکتا۔ آپ نے گوپال نامی بجرنگ دل کے ہندو دہشت گرد کو گولی چلاتے ہوئے دیکھا تھا آپ نے اندازہ لگایا ہوگا کہ کس طرح پولس وہاں خاموش تماشائی کا کردار نبھا رہی ہے ہاتھ پر ہاتھ دھرے کھڑی ہے اور لاشوں کے گرنے کی منتظر ہے اگر اسی گوپال کی جگہ کوئی کمال ہوتا مظاہرین کی بھیڑ جامعہ کے طلبہ کے علاوہ خالص ہندو بھیڑ ہوتی تو آپ سوچ سکتے ہیں نظارہ کیا ہوتا ! کیا پولس اسی طرح کھڑی رہتی یا انکاونٹر کردیا جاتا۔
ملک کی تاریخ گواہ ہے دہشت گردوں کا ٹولہ یہی گوڈسے فکر کے حامل افراد رہے ہیں، دہشت گردی کے الزام میں بے قصور اور معصوم مسلمانوں کو پھنسایا گیا، نفرت کی وہ بیج بوئی گئی کہ اگر قوم مسلم کے علاوہ کوئی اور قوم ہوتی تو وجود مٹ چکا ہوتا مسجد میں دھماکہ ہوا نمازی شہید ہوئے پھر بھی مجرم مسلمان بنائے گئے۔ درگاہ میں دھماکہ ہوا مسلمان جاں بحق ہوئے پھر بھی مجرم مسلمان بنائے گئے ، قبرستان میں دھماکہ ہوا قبروں کی بے حرمتی ہوئی مسلمان جان سے گئے پھر بھی الزام ان پر ہی ڈالا گیا۔ آنجہانی کرکرے نے سب سے پہلے ہندو دہشت گردی کو متعارف کرایا اور اس کے پیچھے چھپے چہروں کو بے نقاب کرنا شروع کیا ہی تھا کہ انہیں بھی شہادت کے رتبے پر پہنچا دیا گیا۔ لیکن دنیا کو معلوم ہوچکا تھا کہ دہشت گرد کون ہے؟ کون ملک میں فساد مچاتا ہے ، کون سرعام قبر سے لاش نکال کر عصمت دری کرنے کی دھمکی دیتا ہے ، گجرات میں مسلمانوں کا قاتل کون ہے ، جج لویا کو کس نے مروایا؟ نجیب کو کس نے غائب کیا، گوری لنکیش کیوں قتل ہوئی ، دابھولکر کیوں بھونے گئے ، پنسارے کو کس نے مارا۔۔۔۔سبھی کے پیچھے اسی شدت پسند دہشت گرد گروہ کا ہاتھ ہے جو گوڈسے حامی ہے۔ کل ہی گوڈسے کی ناجائز اولاد نے جامعہ کے طالب علم پر حملہ کیا اور آج ہی اسے اعزاواکرام سے نوازنے کا شدت پسندت تنظیم کی طرف سے اعلان کردیا گیا۔ مودی جی گوپال نامی دہشت گرد کو کپڑے سے نہیں پہچانیں گے؛ کیوں کہ وہ ان کی ہی فکر کا ماننے والا ہے ان کی فکر اس لیے کہا کہ ان ہی کی پارٹی میں گوڈسے کو محب وطن ٹھہرانے والی مالیگاوں بم بلاسٹ کی ملزمہ سادھوی پرگیہ ہے جس نے کہا تھا کہ میرے شراپ سے ’کرکرے ‘مر گیا جس نے ایک شہید کی توہین کی، جو سر عام گوڈسے کو محب وطن قرار دیتی ہے اسے رول ماڈل بناتی ہے وہ ممبر پارلیمنٹ ہے اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ ایک دہشت گردانہ دھماکے کی ملزمہ قانون ساز اسمبلی کی رکن ہو اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات ملک کے لیے کیا ہوگی کہ ایک اہم عہدیدار سر عام گولی مارنے کا حکم دیتا ہو ،اب کیا خیر کی امید لگائی جاسکتی ہے اب کچھ نہیں بچا جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کے ذہن و دماغ میں مسلمانوں سے نفرت ، گاندھی جی کے افکاروخیالات سے نفرت اور گوڈسے ساورکر گوروگوالکر سے محبت بٹھائی جائے وہاں یہی سب ہونا ہے اب یہ سلسلہ رکنے والا نہیں دیش کے غداروں کو گولی مارو ۔۔۔۔کو کا سلسلہ اب گوڈسے وادی سرعام جسے چاہیں گے گولی ماریں گے جسے چاہیں گے موت کے گھاٹ اتاریں گے؛ کیونکہ انہیں حکومت اور گودی میڈیا کا مکمل تعاون حاصل ہے وہ مظاہرین سے نپٹنے کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں؛ اس لیے سیکولرازم پسند ملک کے عوام سے گزارش ہے کہ وہ چوکنا رہیں اپنی حفاظت کو یقینی بنائیں، گاندھی جی کے افکارونظریات پر ملک کو لیجانے کی ہر ممکن کوشش کریں، نفرت کے پجاریوں کو قانون کے دائرے میں رہ کر انجام تک پہنچائیں، آپ کی کامیاب تحریک سے فرقہ پرست بوکھلاہٹ کے شکار ہیں آپ کے نعرہ آزادی سے ان کے خیموں میں ہلچل ہے اب آپ پوری شدت سے نعرہ لگائیں "دیش کے غداروں کو پھانسی دو گوڈسے والوں کو” اور ملک کے سیکولر کردار کی حفاظت کریں خاموش نہیں بیٹھیں پوری شدت سے اٹھیں اور ملک کو فرقہ پرستوں سے آزادی دلائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×