سیاسی و سماجی

انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار ہی ہے  

اصول قانون”جسٹس ڈیلیڈ، جسٹس ڈینائیڈ” کے بمثل،”انصاف میں تاخیر، انکار انصاف ہی ہے” جیسے,بھارت دیش کے سب سے بڑے قانوں دانوں کی بینچ نے آج  عملا  اسے کر دکھایا ہے۔ دیش کی پارلیمنٹ دیش کا قانون بنایا کرتی ہے جسے نافذ العمل کرنے کا کام پولیس اور عدلیہ کے ذمہ ہوتا ہے۔ بھارتی دستور العمل میں،دیش کی عدلیہ کو، دیش کے تمام اداروں پر فوقیت دی گئی ہے۔ یہ اس لئے کہ قانون بنانے والے عوامی نمائیندے، قانونی داؤ پیچوں سےنابلد، پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے بل پر  کچھ غلطی دانستہ یا غیر دانستہ کر بیٹھیں تو، قانون و دستوری اثاث کے یہ ماہرین،یہ دیش کی عدلیہ عالیہ کے قابل قانون دان، ان سیاستدانوں کی دانستہ یا کہ نادانستہ لغزشوں و غلطیوں کی وجہ سے، دیش کے اصل مالک دیش کی 135 کروڑ، عام جنتا کو ہونے والی تکالیف سے راحت و سکون دلاسکیں۔ ماضی کی عدالتی تاریخ اس بات کی گواہ رہی ہے کہ جب جب بھی دیش کی مختلف ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں نے، یا دیش کی پارلیمنٹ نے دستوری اثاث کو پھلانگتے ہوئے، ریاستی و مرکزی عوام مخالف کوئی اقدام کئے ہیں تو  صوبائی عدلیہ اور  دیش کی  عدالت عالیہ نے، ہمیشہ بھارت کے دستور اور اس کے دائرہ میں ترتیب دئیے قانون کی حفاظت کی ہے۔ چاہے مرکزی حکومت کی ایماء و حکم پر ریاستوں میں نامزد، گورنر کے، ریاستی حکومتوں کو برخاست کئے جانے والے احکام ہوں یا دیش کی پارلیمنٹ میں پاس شدہ تجاویزات و احکام ہی ہوں۔ اسی کے دیے قبل کی اندرا گاندھی کے دور والی، ازھر من الشمس کی طرح نظر آنے والی ایمرجنسی پر، دیش کی عدالت عالیہ کے فیصلے ہی کیوں نہ ہوں؟ دیش کی عدالت عالیہ نے عوامی مفاد عامہ کی خاطر، تاریخ ساز فیصلے دیتے ہوئے، عدالتوں کی گریماء و وقار کی ہمہ وقت حفاظت کی ہے۔

2014 عام انتخاب بعد، جب سے ای وی ایم چھیڑ چھاڑ سے یہ سنگھی مودی حکومت، مرکز پر برسراقتدار آئی ہے، یہ سنگھی حکومت مودی یوگی جیسے مہروں کو عوامی سطح پر، بے وقوف و مفکور ومشغول رکھتے ہوتے، یہ ہندو وادی شدت پسند  تنظیم آر ایس ایس، وقفہ وقفہ سے اپنے غیر دستوری عمل سے، حکومتی اداروں کی اہمیت وقوت کو روبہ زوال کرتے ہوئے، انہیں مکمل اپنے کنٹرول میں کئے جانے کی سعی ناتمام  میں لگی ہوئی ہے۔ دیش کے بڑے مرکزی تحقیقاتی ادارے این آئی اے، اور سی بی آئی و دیش کے سب سے بڑے مالیاتی ادارے، ملکی انشورنس  کمپنیوں، اور ریزرو بنک کو اپنے مکر و فن سے مکمل اپنے زیر اثر کرلینے کے بعد، ان کی تحویل میں گذشتہ پیسنٹھ سالہ کانگریسی راج میں، ہزاروں کروڑ کی عوامی جمع پونچی کو، زبردستی حاصل کرتے ہوئے، اپنی انانیت والے سنگھی فیصلوں پر خرچ کرتے ہوئے،  اس سنگھی پارٹی آرایس ایس  نے، ماضی قریب میں،دیش کی سیکیولر اثاث میں قدغن لگاتے، گنگا جمنی سیکیولر اثاثی بھارت کو، منو وادی ھندو دھرم میں تبدیل کرنے کی کوششیں ازھر من آلشمس کی طرح جگ ظاہر ہیں۔ ھندوادی آرایس ایس بی جے پی مودی  جی کی،دیش کی عدالت عالیہ کے ہندتوا دھومی کرن کی ان کی کوشش، ان سازشوں کی گواہ، خود عدالت عالیہ کے، تین سابق ججز نے دیش کی آزادی بعد والے اس ستر سالہ دور میں پہلی مرتبہ گذشتہ سال، دیش کی میڈیا کے سامنے آتے ہوئے ،دیش کی عدلیہ کے سنگھی کرن ہونے سے بچانے کی دیش کی عوام کے سامنے گوہاڑ لگائی تھی۔اس وقت تک تو دیش کی 135 کروڑ جنتا کو دیش کی عدلیہ پر،نہ صرف  مکمل بھروسہ تھا بلکہ اگر اس وقت دیش کی عدلیہ اور مرکزی حکومت میں مفاہمت یا سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوچکا ہے یقین دہانی نہ کرائی گئی ہوتی تو دیش کی عدلیہ اور دستوری اثاث کی بقاء کے لئے، دیش کی عام جنتا اس وقت ہی سڑکوں پر آچکی ہوتی!

دیش  کی عدالت عالیہ کے سابق تین ججز کے دیش کی میڈیا کے واسطے سے، دیش کی سوا سو کروڑ عوام کے سامنے،عدلیہ کے سنگھی دھومی کرن کی گوہاڑ بعد،اس ایک سال کے دوران دیش کی اقلیتوں پر براہ راست  اثر انداز ہوتے، دیش کی سیکیولر دستوری اثاث ہی کو متاثر کرنے والے،یکے بعد دیگرے تین اہم فیصلے، اولا مسلم نساء پر، یک محفل میں دیے ہوئے تین طلاق کے ملزمین کو، فوجداری قانون کی زد میں لانے والے، دستور ھند میں مسلم اقلیت کو دئیے گئے، مسلم پرسنل لاء،آزادی مذھبی امور کی  عمل آوری کی یقین دہانی پر ضرب کرتے، دیش کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کے جذبات کو مجروح کرتا فیصلہ ہو، یا ثانیا آزادی ھند کے وقت بھارت سے الحاق کے لئے،اکثریتی مسلم کشمیر کے سلسلے میں، دستور ہند میں انہیں دئیے گئے حقوق متمیز، 370 کی منسوخی کا، عالم کے تناظر میں بھارت سرکار کے وقار کو مجروح کرتا فیصلہ ہو، یاثالثا وقت آزادی ملک ،تمام مذہبی عبادت گاہوں کی، آزادی کے وقت والی حیثیت، برقرار رکھنے کے،بٹوارے پاک و بھارت، دونوں سربراہان کے درمیان ہوئے، عقدو عہد و پیمان کے خلاف،ستر سالہ بابری مسجد ،رام جنم بھومی تنازعہ پر، فیصلہ سناتے وقت،عدالت عالیہ کا، ملکیت کاغذات کی روشنی میں ہی، نہ کہ کسی کی مذھبی آستھا پر فیصلہ نہ دینے کی، خود اپنی یقین دہانی باوجود، 500 سالہ قانونی ملکیت والی بابری مسجد آراضی، قاتل بابری مسجد ہی کے حوالے کرنے والے،عدل و انصاف کا خون کرتے، عدالت عالیہ ھند کے   شرمناک فیصلہ نے، سوا سو کروڑ دیش واسیوں کے قلوب و اذہان میں، عدالت عالیہ کے وقار کو دیش واسیوں کی نظروں میں مجروح کیا ہی تھا۔لیکن اب9 دسمبر 2019 ،سنگھی مودی حکومت کے,اپنےاکثریتی زعم میں، پارلیمنٹ میں پاس و صدر مملکت کی دستخط سے، سی اے اے  کی شکل اختیار کئے، شہریت ترمیمی قانون، و پارلیمٹ کے ایوانوں میں دیش کے وزیر داخلہ کی طرف سے، آسام طرز پر پورے ملک میں این آر سی کئے جانے کے دبنگانہ اعلان  کے خلاف، دیش کے مختلف صوبوں، شہروں، گاؤں، قریوں میں،ان ایام دیش میں پڑ رہی، ٹھٹرتی سردی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، دیش بھر میں ہورہے لاکھوں کروڑوں دیش واسیوں کے احتجاج ودھرنے کے تناظر میں، دیش کے مختلف مکتب ہائے فکر و مذہب کی طرف سے، دیش کی عدلیہ میں گوہاڑلگانے پر ہوئی،22 جنوری 2020 کی، دیش کے بڑے ججز کی بنچ میں،سی اے اے کالے قانون پر، دائمی نہ صحیح ،وقتی روک لگاتے ہوئے، اس ٹھٹرتی ٹھنڈ سےکروڑوں دیش واسیوں کو وقتی راحت دینے کے بجائے، قانونی داؤ پیچ کا سہارا لیتے ہوئے،ظالم نازی نواز سنگھی مودی حکومت ہی کو راحت دیتے، اپنے فیصلے کو موخر کرنے کے اعلان نے، سوا سو کروڑ دیش واسیوں کے، دیش کی عدالت عالیہ پر، اپنے ڈگماتے یقین و بھروسہ کو، کمزور کر دیا ہے

ایک طرف،بنا تفریق مذہب، ذات پات، وفرقہ  کے، دیش کے کروڑوں عوام اس ٹھٹرتی ٹھنڈ میں دیش کے مختلف ریاستوں،شہروں، صوبوں گاؤں، قریوں میں، دیش کے مرد و زن، بوڑھے،بچے سنگھی کالے قانون سی اے اے ،این سی آر اور این آر پی کے خلاف دھرنوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، ایک طرف،اب تک  پولیس کے ظلم و ستم سے ہوئی پچاس  ایک اموات میں صرف بھگوا دھاری یوگی جی کے صوبہ یوپی میں 24 اموات  ہوچکی ہیں۔ ایسے میں،کروڑوں دیش واسیوں کو سنگھی نازی کالے  قانون سے، انصاف دلانے میں عدالت عالیہ کی تاخیر،  جہاں دیش کے کروڑوں احتجاجی عام شہریوں  کی دقت بڑھائے گی، وہیں پر، سنگھی آمر مودی جی اور امیت شاہ کے خطرناک حوصلوں کو جلا بخشے گی۔ ایسے میں سنگھی حکومت بیزار کروڑوں دیش واسیوں  کا عدالت عالیہ پر بھروسہ، گر مکمل اٹھ جائے تو،اس بھارت دیش میں مستقبل میں پھیلنے والی بے چینی، انارکی، اراجھستا میں اضافہ ہوتے ہوئے، دیش کو مزید بٹوارے سے بچانا ناممکن نہ صحیح مشکل تر ضرور ہوگا

2014 اور پھر 2019 عام انتخاب میں،ای وی ایم چھیڑ چھاڑ جیت کو،گر نکار بھی دیا جائے تو، سابقہ کانگریس حکومت سے کہیں زیادہ سہولیات دینے، دیش کی عوام سے کئے، سنگھیوں کے اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق، دیش واسیوں کو  روٹی، کپڑا، مکان، صحت عامہ کی سہولیات، بہتر روزگار اور ان کے بچوں کی اعلی تعلیم کے مواقع مہیا کروانے کے بجائے، دیش کو وناش کی طرف لے جاتے، ستر سالہ کانگریسی راج میں تعمیر کئے گئے مختلف سرکاری فیکٹریوں، تجارتی کمپنیوں،  عوامی سہولیات کے لئے تعمیر ایرپورٹ ،ہوائی و ریلوے سروسز کو، منظم سازش کے تحت اپنے پونجی پتی برہمن سنگھی دوستوں میں،  معمولی قیمتوں پر بانٹتے ہوئے، اپنی ذاتی شخصی امیج بنانے کے لئے، امریکی انتخابی امیدوار کو جتانے ہاؤڈی مودی پروگرام پر ہزاروں کروڑ دیش کی جنتا کے پیسے لٹاتے ہوئے، دیش میں بڑھتی مہنگائی کو قابو کرنے میں ناکام، اس سنگھی مودی حکومت کو، دیش کی کروڑوں ھندو مسلم عوام کی طرف سے، دیش کی عدالت عالیہ، اپنے انتخابی وعدے کو وفا کرنے، اس سنگھی حکومت کو کیا پابند  نہیں کیا جاسکتا؟ کہ جس کام کے وعدے کے ساتھ حکومت قائم کی گئی ہے پہلے اس نصب العین کو حاصل کرتے ہوئے، دیش واسیوں کو سکون و چین مہیا کریں پھر سی سی اے ، این آر سی اور ای پی آر جیسے دیش میں ہندو مسلم منافرتی دیوار قائم کرتے موضوعات کو لایا جائے۔کیا دیش میں قانونی تعلیم حاصل کئے ہوئے لاکھوں وکلاء میں ایسا کوئی جوان مرد وکیل یا این جی او نہیں ہے جو کروڑوں دیش واسیوں کو روٹی کپڑا مکان اچھی تعلیم، اچھی صحت عامہ کے مراکز سے استفادہ حاصل کروانے کے لئے، انتخابی وعدوں پر ان سنگھیوں کو پابند عمل کروانے، عدالت عالیہ سے جن ہت یاچیکا یا مفاد عامہ عدالتی گوہاڑ سے ان سنگھیوں کو ایک طرف پابند وعدہ انتخاب کرے تو دوسری طرف دیش کی کروڑوں عام جنتا کو انصاف دلانے کی کوشش کرے۔ وما علینا الا البلاغ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×
Testing