اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف فرانسیسی صدر کی فتنہ انگیزیوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے، فرانس کے صدر میکرون کی اسلام دشمنی ساری حدوں کو پار کررہی ہے، اس سلسلہ کا تازہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب نبی کریمﷺ کے اہانت آمیز خاکوں کو صدر فرانس کی ایماء پر ساری سرکاری عمارتوں پر آویزاں کیا گیا، ملعون زمانہ فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو نے اس سے قبل جب متعدد گستاخانہ خاکے شائع کیے تھے اور گستاخی نمبر کے طور پر ایک خصوصی شمارہ کی اشاعت عمل میں لائی گئی تھی اور اس تعلق سے صدر فرانس سے پوچھا گیا تو انھوں نے انتہائی گٹھائی کے ساتھ کہا تھا کہ اس میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہے، فرانس ایک سیکولر اورآزادی اظہار رائے والا ملک ہے اور اسی کے ساتھ ہم آگے بڑھیں گے، فرانس کی آزادی رائے کی حقیقت جاننے کے لیے صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ جن دنوں میں چارلی ایبڈو نے گستاخانہ خاکوں کا خصوصی نمبر شائع کیا تھا، انہی دنوں میکرون کو اپنے دورہ لبنان کے دوران اپنے ہی ملک کے ایک صحافی کو محض اس بات پر ڈانٹے ہوئے دیکھا گیا تھا کہ اس صحافی نے میکرون کی میٹنگ میں کچھ باتیں میڈیا کو بتادی تھیں، یورپ وامریکہ میں جوکہ آزادی اظہار رائے کی راگ الاپتے تھکتے نہیں ہولوکاسٹ پر بات کرنا نہ صرف ممنوع ہے بلکہ قابل سزا جرم ہے، پورا یورپ اور امریکہ اس بات پر متفق ہے کہ ہولوکاسٹ پر کوئی بحث نہیں کرسکتا، تازہ گستاخی کے واقعہ پر جب ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو ترکی کے صدر طیب اردغان نے اپنے ایک بیان میں صدر فرانس کی گستاخانہ حرکتوں پر انھیں نفسیاتی مریض کہا، اور انھیں مینٹل چیک اپ کا مشورہ دیا تو فرانسیسی حکومت اس قدر چراغ پا ہوگئی کہ اس نے ترکی سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا، جب ایک ملک کے صدر کی شان میں گستاخی پر اس قدر اظہار ناراضگی کیا جاسکتا ہے تو اس ذات کی شان میں گستاخی کی کیا سزا ہونی چاہیے جس ذات کو دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔
آزادیٔ اظہار کیا ہے؟
یہاں سب سے زیادہ جس بات کی وضاحت ضروری ہے وہ آزادیٔ اظہار رائے کی حقیقت ہے، ایک کالم نگار نے آزادیٔ اظہار کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے بجا لکھا ہے:’’لفظ ِآزادی ایک حسین اور خوبصورت تعبیر ہے، ایک دلکش اور پرکشش نعرہ ہے، دلوں کو اپنی جانب کھینچنے والی ایک جادوئی چھڑی ہے، آزادی ہر کسی کو پیاری ہے، ہر کوئی آزادی کا خواہش مند ہے،ہر کوئی اپنی آزادی کے لیے کوشاں اور سرگرداں ہے، اس پرفریب نعرے نے کتنوں کو برباد کیا ہے اور کتنوں کو اپنے دام فریب میں پھنسا کر ذلیل وخوار کیا ہے اس کا شمار ممکن نہیں۔کتنی عفت مآب بیٹیوں کی چادر عصمت کو تار تار کیا ہے، کتنی صنف نازک اور پاکیزہ دوشیزاؤں کو رنگ محفل بنا کر متاعِ تعیش بنادیا ہے، اس کے حصول کی خاطر تحریکیں چلانے والے اور اس میدان میں خود کو کامیاب وکامران تصور کرنے والے خود اس حقیقت سے نابلد ہیں کہ آزادی کسے کہتے ہیں، کسی بھی قسم کی آزادی کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ آپ اپنے تسکین کی خاطر دوسروں کے جذبات کو مجروح کریں۔آزادی کا یہ تصور قطعاً غلط ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاری جائے، فرد واحدکی آزادی سے اگر دوسروں کو تکلیف ہونے لگے تو اسے شخصی آزادی کیسے کہا جاسکتا ہے، آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ آپ راہ چلتے مسافر کو پتھر اٹھا کر مار دیں اور اسے شخصی آزادی سے تعبیر کیا جائے، کسی باعزت اور باوقار شخصیت کے ساتھ بلا کسی عذر کے دشنام ترازی کے ساتھ پیش آیا جائے، دنیا کے بیشتر ملکوں میں مختلف اقسام کی آزادی شہریوں کو حاصل ہے، لیکن یہ آزادی مختلف قسم کے حدود وقیود کے ساتھ متصف ہے، بعض مغربی ممالک بظاہر مکمل آزادیٔ اظہار کی اجازت دیتے ہیں لیکن وہاں بھی بعض چیزوں سے متعلق سوال کرنے اور رائے زنی کرنے کو ناقابل معافی جرم گردانا جاتا ہے، امریکہ کے موجود ہ صدر نے ایک صحافی کو وائٹ ہاؤس سے صرف اس لیے باہر نکلوادیا کہ اس نے کچھ چبھتے سوالات پوچھ لیے تھے، ایک ملک کا سربراہ جس کی مدت محض چار سال ہے، وہ اپنے خلاف کوئی سوال جواب کے لیے تیار نہیں ہے، لیکن اگر وہ کسی کی کردار کشی کرے اور ان کے طریقہ زندگی پر زبان درازی کرے تو اسے آزادیٔ اظہار سے تعبیر کیا جائے؟ یہ آزادی نہیں دل آزاری ہے‘‘۔
انبیاء کی شان میں گستاخانہ مہم کا تاریخی تسلسل
رسولوں کی شان میں گستاخی کا سلسلہ کچھ آج کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ یہ ناپاک سلسلہ زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے،ہر زمانہ میں ایسے بد باطن لوگ رہے ہیں جنھوں نے انبیاء کی حرمت کو پامال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، انبیاء کی شان میں گستاخی بنی اسرائیل کا خاص شیوہ تھا، حتی کہ قرآنی بیان کے مطابق انھوں نے بہت سے انبیاء کرام کا قتل تک کردیا، قرآن مجید میں گستاخانہ حرکتوں کا شکوہ کرتے ہوئے کہا گیا : ان بندوں کی (نامرادی) پر افسوس وحسرت ! ان کے پاس جو رسول بھی آتاہے تو یہ اس کا تمسخر اڑانے سے نہیں چوکتے(یٰسین:۳۰) انبیاء ومرسلین کی شان میں گستاخی کے سبب پچھلی قوموں پر عذاب بھی نازل ہوا، چنانچہ ایک جگہ ارشاد ربانی ہے: ’’رسولوں کا اس سے پہلے بھی مذاق اڑایا جاتا رہا، تو میں کافروں کو ڈھیل دیتا رہا، پھر میری پکڑ نے ان کو آلیا، پھر کیسا رہا میرا عذاب‘‘ (رعد:۳۲) نیز قرآن کریم نے تمسخر اڑ انے والے ایک شخص اخنس بن شریح کو سخت جفا کار اور نطفۂ حرام قرار دیتے ہوئے روز قیامت اس کی سونڈ سے گرفت کرنے کی وعید سنائی ہے۔
یورپ اور گستاخانہ مہم
شانِ رسالت میں گستاخی اور قرآن مجید کی توہین کا حالیہ سلسلہ گذشتہ دو دہائیوں سے شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔اکتوبر ۲۰۰۱ء سے یہ ناپاک مہم وقفہ وقفہ سے چلائی جارہی ہے، اس کی ابتداء ڈنمارک کے یہودی اخبار ’’جیلنڈر پوسٹن‘‘ نے کی، پھر اس سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یورپ کے دیگر ممالک اٹلی، فرانس، جرمنی اور ہالینڈ بھی میدان میں کود پڑے، گذشتہ دو دہائیوں میں پیش آئے گستاخانہ واقعات پر طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ بات صاف ہوتی ہے کہ یورپ اور مغربی ملکوں نے اس گھناؤنے عمل کو مستقل مشن بنا رکھا ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو ایک ویب سائٹ پر حضور پرنور ﷺ سے منسوب چند تصاویر نہایت تمسخر آمیز مضامین کے ساتھ شائع کی گئیں۔۲۰۰۵ء میں بڑے پیمانے پر گستاخانہ خاکوں کو ڈنمارک کے تمام اخباروں نے شائع کیا، یہ خاکے ڈینیل پائپس نامی متعصب امریکی یہودی کے شرپسند دماغ کی پیداوار تھے، یہ کوئی اتفاقی معاملہ نہیں تھا، بلکہ منصوبہ بندی کے ساتھ باقاعدہ کارٹونوں کے مقابلہ منعقد کروائے گئے، پھر انھیں ڈنمارک کے تمام اخبارات میں شائع کیا گیا، ویسے ان خاکوں میں یہودیوں کے تعلق سے مسلمانوں کے تصورات کو تمسخر کا نشانہ بنایا گیا تھا، لیکن ان میں سب سے خطرناک خاکہ نبی کریمﷺسے متعلق تھا، آپ کے رخ انور کو نعوذ باللہ کراہت آمیز مشابہت دے کر عمامہ مبارکہ میں ایک بم کو چھپا ہوا دکھایا گیا تھا اور یہ تأثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ اسلام امن نہیں عصبیت وجارحیت کا علمبردار ہے، اور آپﷺ کی ذات معاذ اللہ تشدد، خونریزی اور جنگ وجدال کی علامت ہے، دیگر خاکوں میں اسلام کے تصوری جہادپر بھی گہرے طنز کے تیر چلائے گئے تھے۔ستمبر ۲۰۰۵ء میں شائع ہونے والے خاکوں پر عالم اسلام سراپا احتجاج بن گیا، جس پر مغرب کے بعض حکومتی اہلکاروں نے معذرت خواہانہ موقف اختیار کیا تھا، لیکن مغربی میڈیا نے اس احتجاج کو اظہار رائے پر قدغن کے تناظر میں پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں آئندہ اپنی رائے کے اظہار کے لیے مسلمانوں سے اجازت لینی ہوگی، ظالموں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ۲۰۰۶ء اور ۲۰۰۷ء میں بھی گستاخانہ خاکے شائع کرکے ڈیڑہ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو چھلنی کردیا، اس کے بعد ۱۳؍ فروری ۲۰۰۸ء کو ایک بار پھر بھر پور منصوبہ بندی کے ساتھ سکنڈے نیویا کے ۱۷ ؍اخبارات نے ان خاکوں کو شائع کیا، اس بار کی گستاخانہ حرکت کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ۱۱؍ فروری ۲۰۰۸ء کو ایسے دو مراکشی مسلمانوں کو پولیس نے گرفتار کیا تھا جن پر ۷۳ سالہ ملعون کارٹونسٹ ویسٹرگارڈ کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام تھا، حکومت پر دباؤ بڑھانے اور ملعون کارٹونسٹ سے اظہار یکجہتی کے لیے یہ اقدام کیا گیا، گذشتہ دنوں جب ایک ٹیچر نے باقاعدہ کلاس روم میں بار بار ان خاکوں کی نمائش کرتا رہا جس پر ایک عرب غیور مسلمان سے رہا نہ گیا اور اس نے بدبخت ٹیچر پر حملہ کرکے واصل جہنم کردیا، اس واقعہ پر صدر فرانس شدید بوکھلاہٹ اور انتقامی جنون کا شکار ہوگیا اور اس نے یہ اعلان کردیا کہ سارے گستاخانہ خاکوں کو کتابی شکل دے کر انھیں نصاب میں شامل کیا جائے گا، حالیہ تازہ واقعہ میں صدر فرانس نے بدبختی کی انتہا کردی، باقاعدہ حکومتی نگرانی میں تمام سرکاری عمارتوں پر بینروں کی شکل میں گستاخانہ خاکے آویزاں کرادئے، جس کے نتیجہ میں پورا عالم اسلام مشتعل ہوگیا۔
عالم اسلام کا رد عمل
صدر فرانس کے حالیہ اقدام نے دنیا بھر میں امت ِمسلمہ کو شدید رد عمل پر آمادہ کردیا، اس وقت پوری مسلم دنیا سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے، ترک صدر رجب طیب اردغان نے میکرون کو دماغی مریض قرار دیتے ہوئے انھیں علاج کرانے کی صلاح دی، اور فی الواقع ایسی حرکت وہی شخص کرسکتا ہے جو عقل سے عاری ہو، اور جسے دین اسلام سے پیروکاروں کے شدید رد عمل کا احساس نہ ہو، میکرون کا جان لینا چاہیے کہ مسلمان ہر بات کو برداشت کرسکتا ہے لیکن آقا کے ناموس کے مسئلہ پر وہ کسی طرح مفاہمت نہیں کرسکتا، ناموس رسالت پر ایک مسلمان جان، عزت، مال وعیال، آباء واجداد حتی کی اپنی ساری نسلیں قربان کرسکتا ہے، اس وقت پورے عالم میں غم وغصہ کی ایک لہر دوڑ گئی ہے، مختلف مسلم ملکوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، سوڈان کے مسلمانوں نے احتجاج کرتے ہوئے فرانسیسی سفارت خانہ کو نذر آتش کردیا، پاکستان میں بھی بھر پور احتجاج کے ساتھ حکومت سے فرانس سے سفارتی تعلقات ختم کرنے اور فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔بنگلہ دیش میں زبردست ریالیوں کا سلسلہ جاری ہے، عراق اور تیونس میں فرانسیسی سفارت خانہ پر مظاہرے جاری ہیں، فلسطین میں بھی عوام شدید احتجاج کررہے ہیں، سعودی عرب نے گستاخانہ کارٹونس کی اشاعت کی مذمت کی اور فرانسیسی سفیر کوطلب کرتے ہوئے احتجاج درج کروایا، بنگلہ دیش میں ہزاروں عوام نے احتجاج کرتے ہوئے صدر فرانس کا پتلہ نذر آتش کیا، ایران نے بھی شدید احتجاج درج کرایا، کویت، قطر، اردن اور ترکی وغیرہ میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ پوری شدت کے ساتھ جاری ہے، کویت میں فرانسیسی اشیاء کو بازاروں سے ہٹادیا گیا ہے، سوشیل میڈیا پر فرنچ مصنوعات کا بائیکاٹ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے، قطر اور خلیجی تعاون کونسل کی جانب سے سخت مذمتی بیانات جاری کئے گئے ہیں، فلسطین میں حماس سمیت تنظیموں نے اسلامی مقدسات کے دفاع عہد کیا ہے، مصر میں جامع ازہر کے مفتی احمد الطیب، لیبیا کے صدارتی کونسل کے چیئرمین، یمن وزیر مذہبی امور، اردن میں اخوان المسلمین اور شام کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے میکرون کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، قطر اور تیونس کی متعدد کمپنیوں نے فرانسیسی کمپنیوں کے ساتھ تجارتی معاہدوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے، سوڈانی مسلمانوں نے صرف مذمت پر اکتفاء کرنے کے بجائے فرانسیسی باشندوں کو اپنے ملک سے نکالنے کے لیے شدید احتجاج کیا۔فرانسیسی اشیاء کی بائیکاٹ مہم میں کویت سر فہرست ہے، جہاں سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر ایسی تصاویر شیئر کی گئی ہیں جن میں کویت کے ۵۰ بڑے شاپنگ مالز کے ان کاؤنٹروں کو خالی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو اس سے قبل فرانسیسی اشیاء سے بھرے ہوئے تھے۔اس وقت ٹوئٹر پر ’’بائیکاٹ فرنچ پروڈکٹس ‘‘اور ’’بائیکاٹ فرانس‘‘ کے ہیش ٹیگ ترینڈ کررہے ہیں،ان ٹرینڈ کے ساتھ جو تصاویر شیئر کی گئی ہیں ان میں فرانسیسی اشیاء کے خالی کاؤنٹرز خالی دیکھے جاسکتے ہیں، اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بھی فرانس کی عمارتوں پر گستاخانہ خاکوں کے آویزاں کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم بار بار اس کی مذمت کرتے رہیں گے،مراکش اور مقبوضہ بیت المقدس میں بھی مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا،ترک صدر طیب اردغان نے سارے ملک میں فرنچ مصنوعات کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔
ناپاک جسارت کے محرکات
فرانس اور دیگر یورپی ممالک کی شانِ رسالت میں گستاخانہ مہم کے محرکات پر غور کیا جاتا ہے تو درج ذیل باتیں نمایاں ہوتی ہیں:
۱- اسلام کے خلاف نفرت کا اظہار کرنااور لوگوں کو اسلام کسے متنفر کرنا۔
۲- مسلمانوں کو اشتعال دلانا؛ تاکہ ان کے مشتعل اقدامات کو بہانہ بنا کر اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔
۳- اسلام کی تیز رفتار اشاعت پر قدغن لگانا؛ تاکہ اسلام کی طرف مائل ہونے والا یورپی طبقہ دوری اختیار کرے۔
۴- ملک کے اصل مسائل اور موضوعات سے عوام کو بھٹکانا۔
شانِ رسالت میں گستاخی کے یورپی کوششیں در اصل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری فضا مہیا کرنا ہے؛ تاکہ یورپی ممالک میں مقیم مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ ہوجائے اور وہ مغربی تہذیب وکلچر میں ضم ہوجائیں۔نیز فرانس میں اس وقت اسلام تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، ایک سروے کے مطابق ۲۰۴۰ء تک فرانس میں مسلمان دیگر تمام مذاہب کے پیروکاروں پر بازی لے جائیں گے، ہزار مخالفتوں اور اسلام کے خلاف لگاتار پروپیگنڈہ کے باوجود فرانسیسی باشندے اور بالخصوص خواتین تیزی کے ساتھ اسلام قبول کرتے جارہے ہیں۔علاوہ ازیں اس وقت فرانس مختلف مسائل سے دوچار ہے، بے روزگاری کی شرح بڑھتی جارہی ہے، حکمراں طبقہ اس قسم کے مسائل کو اچھال کر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتا ہے۔
دامن کو ذرا دیکھ
فرانس کے صدر پر حیرت ہوتی ہے انھیں محمد رسول اللہﷺ جیسی پاکیزہ ہستی پر جو سارے انبیاء کے سردار اور خدا تعالیٰ کے عظیم القدر پیغمبر ہیں، ان کی طرف انگشت نمائی کرتے ہوئے انھیں شرم نہیں آتی، کہاں میکرون جیسی انتہائی فحاش ،بداخلاق اور گندی شخصیت اور کہاں محبوب رب العالمین کی رفعتیں اور بلندیاں۔قارئین کو معلوم ہونا چاہیے کہ فرانس کا موجودہ صدر اپنے زمانۂ طالب علمی ہی سے انتہائی بدکار انسان رہا ہے، ۱۵ سال کی عمر میں اس نے اپنی ۴۰سالہ ٹیچرسے زنا کیا، جوتین بچوں کی ماں اور کے دو بچے خود ۱۵ سالہ میکرون سے بڑے ہیں۔جب ۴۰ سالہ ٹیچر خاتون کے شوہر کو اور اسکول کے ذمہ داروں کو اس خیانت کی خبر ملی تو اس لیڈی ٹیچر کو اسی شہر کے دوسرے اسکول منتقل کردیا گیا، اور میکرون کو ۱۷۰ کلومیٹر دور دوسرے شہر منتقل کردیا گیا، مگر اس کے باوجود ان دونوں بدکار وں نے بدستور ایک دوسرے سے ناجائزتعلقات قائم رکھا۔یہاں تک کہ ۲۰۰۶ء میں ٹیچر کو اس کے شوہر نے طلاق دی اور ۲۰۰۷ء میں اس ٹیچر نے اسی بدکار شاگرد شادی رچا لی۔ایسا بدکار انسان آج دنیائے اسلام کو درس دینے جارہا ہے اور رحمت ِعالمﷺ پر کیچڑ اچھالنے کی ناپاک کوشش کررہا ہے،میکرون سے متعلق یہ تفصیلات گوگل وغیرہ پر دیکھی جاسکتی ہیں۔
محمد عربی ﷺمغربی دانشوروں کی نگاہ میں
محمد عربیﷺ کی رفعت وبلندیوں کا اعتراف اپنے تو اپنے خودغیرمسلم مغربی دانشوروں نے بھی کیا ہے، پڑوسی ملک کے نامور صحافی مظہر برلاس اس سلسلہ میں اپنے ایک حالیہ کالم میں ایک ایسا واقعہ پیش کیاہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب کے چوٹی کے دانشور محمد رسول اللہ ﷺ کے کمالات کے معترف رہے ہیں، کالم نگار لکھتے ہیں:مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب ’’سو عظیم شخصیات ‘‘ کو لکھنے میں ۲۸ سال لگادئے، کتا مکمل ہوئی تو اس کی تقریب رونمائی لندن میں منعقد ہوئی،لوگ اس تقریب کا شدت سے انتظار کررہے تھے، کیوں کہ اسے سب سے عظیم شخصیت کو بتانا تھا، تقریب کے وقت ہال کھچا کھچ بھرا ہواتھا، مائیکل ہارٹ ڈائس پر آیا تو شور بہت زیادہ تھا، کچھ لوگوں نے سیٹیوں اور شور کے ذریعہ چاہا کہ مائیکل ا پنی بات مکمل نہ کرسکے، مگر اس نے اسی شور میں کہنا شروع کیا: ’’ایک آدمی چھوٹی سی بستی مکہ میں کھڑے ہوکر لوگوں سے کہتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں، میں اس لیے آیا ہوں تاکہ تمہارے اخلاق وعادات کو بہتر بنا سکوں ، ان کی اس بات پر صرف چار لوگ ایمان لائے، جن میں ان کی بیوی، ایک دوست اور دوبچے شامل تھے، مگر خواتین وحضرات!اب اس بات کو چودہ سو سال گزر چکے ہیں، زمانہ کی رفتار کے ساتھ ان کے پیروکار وں کی تعداد بڑھ کر ڈیڑھ ارب سے زائد ہوچکی ہے، ہر آنے والے دن میں اس تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ وہ شخص جھوٹا ہو؛ کیوں کہ چودہ سو سال کے بعد جھوٹ کا زندہ رہنا محال ہے اور کسی کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ ڈیڑہ ارب لوگوں کو دھوکہ دے سکے۔ہاں ایک اور بات کہ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد آج بھی لاکھوں لوگ ہمہ وقت ان کی ناموس کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، کیا کوئی ایک بھی مسیحی یایہودی ایسا ہے جو اپنے نبی کی ناموس کی خاطر حتی کہ اپنے رب کی خاطر جان قربان کرے؟ بلا شبہ تاریخ کی سب سے عظیم شخصیت مسلمانوں کے نبی حضرت محمدﷺ ہیں، مائیکل نے سب سے عظیم شخصیت کا اعلان کیا تو پورے ہال میں خاموشی چھاگئی، ایک ہیبت کا سما ں تھا‘‘(روزنامہ جنگ ۲۷؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء)
امت مسلمہ کا لائحہ عمل
فرانس کی اس گستاخانہ مہم کے خلاف امت مسلمہ کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے.اکثر اس قسم کے موقعوں پر مسلمان چند احتجاج کرکے خاموش ہو جاتے ہیں۔اس سنگین صورت حال کے تدارک کے لیے مستقل لائحہ عمل اور طویل المدت منصوبہ بندی ضروری ہے۔ پڑوسی ملک کے عالم دین مولانا محمد الیاس گھمن صاحب نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ٹھوس لائحہ عمل مرتب کیا ہے مسلمان اس لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنائیں تو اس کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔سطور ذیل میں مذکورہ لائحہ پیش کیا جاتا ہے اس امید کے ساتھ کہ ناموس رسالت کے تحفظ کی فکر رکھنے والا ہر مسلمان حتی المقدور اسے نافذ کرنے کی ضرور کوشش کرے گا۔
عوام کیا کرے ؟
زبانِ خلق نقارۂ خدا ہوتی ہے، عوام کا احتجاج سب سے مؤثر ہوتا ہے اور جب عوام اپنے ساتھ اپنے سیاسی رہنماؤں کو بھی احتجاج میں شریک کرلے تو اپنے مطالبات منوالیتی ہے، اگر مسلمان عوام مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرسکتی ہے۔ سڑکوں پر نکل سکتی ہے تو کائنات کے سب سے بڑے ظلم گستاخانہ خاکوں کے بارے سڑکوں پر کیوں نہیں آسکتی؟
اس حوالے سے میری گزارش ہے کہ عوام ہر سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے یہاں تک کہ فرانس میں موجود مسلمان اپنے نبی کی عزت و ناموس کے لیے اور اپنے آزادی اظہار رائے کے حق کو پُر امن طریقے سے حاصل کریں، اگر سیاسی معاملات میں ریلیاں، دھرنے اور احتجاج ہوسکتے ہیں تو نبی کریم ﷺ کی ناموس کی خاطر اس سے بڑھ کر ہوسکتے ہیں۔
فرانسیسی مصنوعات کی فہرست
فرانس کی مصنوعات کی ایک فہرست درج ذیل ہے، ہمیشہ کے لیے ان کا بائیکاٹ کریں۔
: LU کمپنی کے تمام بسکٹس۔ , TUC , Bakeri , Orieo , Gala Party , Prince , Candy و غیره
BICکمپنی کی تمام اشیاء۔ شیونگ ریزر، سٹیشنری،لا ئٹرو غیره
Total کمپنیکے پیٹرول ،انجن آئل و غیره
Garnier کمپنی کی تمام مصنوعات ۔ کریمیں، لوشن ، ہئیر کلر و غیره
‘ L oreal کمپنیکی تمام مصنوعات ۔ شیمپو، کنڈیشنر کا سمٹکس و غیره
Chloe کمپنیکے پر فیومز، کپڑے، جوتے وغیره
Ibis ہوٹلز
Carefour سپر مارکیٹ
اس کے علاوہVichy Eau Thermale Thermal Spa Water, Bioderma Sensibio H2O, Yves Rocher Hydra Vegetal Gel Cream, Avene Eau Thermale Thermal Spring Water, La Roche-Posay Effaclar Duo, Eau de Beaute Caudalie, Nuxe Rêve de Miel Lip Balm, Shampooing Sec Au Lait D´avoine, Embryolisse Lait-Crème Concentre, Luminescence by Lierac Illuminating Serum Complexion Corrector, Nuxe Huile Prodigieuse, FILORGA Time-Filler, L’Occitane Almond Shower Oil, Bourjois Paris Rouge Edition Velvet, Caudalie Polyphenol C15 Overnight Detox Oil ان فرانسیسی اشیاء کا بائیکاٹ کریں۔