رمضان المبارک انتہائی بابرکت مہینہ ہے جو رحمتوں کی سوغات لے کر آتا ہے، وہ انسانی زندگی کو بدل کر رکھنے کی بے پناہ تاثیر رکھتاہے، اس کی صحیح قدر دانی آدمی کی زندگی کے رخ کوپلٹ کررکھ دیتی ہے، بندہ رحمت الٰہی کا مستحق ہوکر جہنم سے خلاصی حاصل کرلیتا ہے اور جنت کی نعمتوں سے سرفراز کیا جاتا ہے ، رمضان کی اہم ترین عبادت روزہ ہے جو روزہ دار کو تقویٰ سے مالامال کردیتی ہے ، تقویٰ اس عظیم الشان انقلاب کا نام ہے جو آدمی کو من چاہی زندگی سے نکال کررب چاہی زندگی پر گامزن کردیتا ہے ، معصیت والے ماحول سے نکال کر اطاعت کی کھلی فضاء میں لے آتاہے،مگر یہ سب اسی وقت ممکن ہے جبکہ اس ماہ مبارک کو ہر طرح کی بے اعتدالیوں سے پاک رکھا جائے، رمضان المبارک میں ہم مسلمانوں کاطرز ِعمل فوری اصلاح کا طالب ہے، بہت سی بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیںمثلاً:
۱)رمضان المبارک میں روزوں کا مقصد کھانے پینے میں کمی لاکر نفسانی قوت کو کمزور کرنا ہے ، طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک ایک بندہ کھانے پینے سے رکتا ہے تو اس کے نفس پر شاق گزرتا ہے اس سے شہوات میں تخفیف پیدا ہوتی ہے لیکن ہم نے اس مہینہ کو بسیار خوری کا مہینہ بنالیا ہے ، چنانچہ سحری وافطار اور رات کے کھانے میں اس قدر زیادہ خوراک لی جاتی ہے کہ عام مہینوں میں بھی اتنی خوراک نہیں لی جاتی اس طرح روزوں کا مقصد ہی فوت ہونے لگتا ہے ،حتیٰ کہ بہت سے غیرمسلم یہ باور کرنے لگے ہیں کہ مسلمانوں کے یہاں ایک مہینہ ایسا بھی ہے جس میں خوب کھایاجاتاہے ۔
۲)رمضان عبادتوں اور ذکر وتلاوت میں مشغولی کا مہینہ ہے، دیگر مہینوں کے مقابلہ میں اس مہینہ میں ایک مسلمان کو عبادت کے لیے زیادہ سے زیادہ فارغ کرنا چاہئے لیکن ہماراطرز عمل بتاتا ہے کہ یہ مہینہ ہمارے لیے تجارت اور کاروبار کا مہینہ ہوکر رہ گیا ہے، چناںچہ ہمارے بیشتر اوقات مساجد کے بجائے بازاروں میں گزرتے ہیں، تجار کے لیے رمضان تجارت کا سیزن بن گیا ہے، بہت سے تاجروں کو تراویح تک کے لیے فرصت نہیں ملتی وہ تین دنوں میں قرآن سن کر مہینہ بھر کے لئے تراویح سے چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں ، اورعام مسلمان بالعموم عید کی خریدی کے لیے ہفتوں بازاروں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں، برقعہ پوش خواتین سے بازار تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگتا ہے ، بھیڑ بھاڑ میں اجنبی مردوں کےساتھ دھکم پیل کی نوبت آجاتی ہے، حالاں کہ کپڑوں اورجوتوں کی خریدی آغاز رمضان سے پہلے بھی کی جاسکتی ہے، اس صورتحال نے رمضان کے روحانی اثرات کو کم کردیا ہے۔
۳)تراویح رمضان کی اہم ترین عبادت ہے اور سنت مؤکدہ ہے لیکن بہت سے تاجروں کے لیے یہ ایک ناگوار بوجھ بنتی جارہی ہے ، چناںچہ اس بوجھ کو جلد از جلد اپنے کندھوں سے اتارنے کے لیے شبینوں کو سہارا لیا جاتا ہے ، دس یا چھ یوم میں ختم قرآن کرکے پھر مہینہ بھر کے لیے تراویح سے نجات حاصل کرلی جاتی ہے ، ظاہر ہے یومیہ پانچ یا تین پاروں کی تکمیل کوئی معمولی کام نہیں ،حفاظ کو بھی جلد ختم کرنے کی فکر دامن گیر رہتی ہے اورلمبی لمبی رکعتوں کے سبب مقتدی خشوع وخضوع سے محروم رہتے ہیں بہت سوں کو جمائی لیتے اور سستی اتارتے دیکھا جاتا ہے ، ایسے میں عبادات کے روحانی اثرات کیوںکر حاصل ہوں گے، شبینوں میں ہونے والی تیز رفتار تلاوت تجوید ومخارج کی رعایت سے خالی ہوتی ہے ، الا ماشاء اللہ ۔
۴)رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے ، اس مہینہ میں اکثر روزہ دار تلاوت قرآن کا اہتمام کرتے ہیںلیکن تجوید ومخارج سے ناواقفیت کے سبب وہ تلاوت بجائے ثواب کے وبال بن جاتی ہے ، ارشاد رسول ہے:بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کررہا ہوتا ہے ، امت کا ایک بڑاطبقہ تجوید کی رعایت کے ساتھ تلاوت کرنا نہیں جانتا ، ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ جتناوقت تلاوت میں صرف کررہے ہیں اسے کسی حافظ قرآن کے پاس قرآن کی درستگی میں صرف کریں تاکہ ان کا قرآن درست ہوجائے، عام لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ قرآن کی صحیح تلاوت علماء اور حفاظ کا حق ہے جبکہ ایسی بات نہیں ہے ، ہرمسلمان اس کا پابندہے۔
۵)بہت سے لوگ رمضان میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں ، اس سلسلہ کی بے اعتدالی یہ ہے کہ اپنے اہل قرابت اوررشتہ داروں میں مستحق افراد ہونے کے باوجود دوسروں کو زکوٰۃ دی جاتی ہے جبکہ ہماری زکوٰۃ کے اولین مستحق ہمارے غریب رشتہ دار ہیں، اسی طرح مدارس کے سلسلہ میں بھی مقامی سینکڑوں مدارس کو نظر انداز کرکے دوردراز علاقوں کے مدارس کو ترجیح دی جاتی ہےجب کہ اولین مستحق اپنے وہ مقامی مدارس ہیں جہاں اصولوں کے تحت کام ہورہا ہے ، صحیح نہج پر کام کرنے والے کتنے مدارس ایسے ہیں جو بجٹ کی کمی سے دوچار ہیں جہاں کئی کئی مہینوں کی تنخواہیں رکی ہوتی ہیںعلاوہ ازیں مدارس کو زکوٰۃ دیتے ہوئے تحقیق کا اہتمام نہیں ہوتا جس کے نتیجہ میں مستحق مدارس محروم ہوجاتے ہیں۔
۶)رمضان المبارک میں حفاظ کو تراویح کا معاوضہ دیا جاتا ہے، اس عمل کے جواز وعدم جواز سے قطع نظر یہ عمل حفاظ قرآن کی توہین کے مترادف ہے ، مسجد کے ذمہ دار ہر ٹھیلہ بنڈی والے سے حافظ کے نام پر دباؤ ڈال کر چندہ وصول کرتے ہیں، لگتاہے جیسے کسی فقیر کے لیے چندہ اکٹھا کیا جارہا ہو ، اگر حفاظ وعلماء کا تعاون ہی کرنا مقصود ہے تو اس کی بہترین شکل یہ ہے کہ ان کے ماہانہ مشاہروں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے ۔
۷)خواتین کے لیے مختلف فنکشن ہالوں میں تراویح کا انتظام کیا جارہا ہے ، بالعموم بہت کم لوگوں کی اس کے مفاسد پر نظر جاتی ہے ، منچلے نوجوانوں کے لیے یہ ایک سنہری موقع بنتاجارہا ہے، شہر کے کئی احباب نے لڑکوں اور لڑکیوں کے اختلاط کے سبب رونما ہونے والے واقعات کی نشاندہی کی ہے ، یہ طرز عمل بھی فوری توجہ کا طالب ہے۔
۸)افطار کرانا ایک محبوب عمل ہے ، احادیث میں اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے لیکن موجودہ دور میں افطار پارٹیوں کے نام پر جو اہتمام ہوتا ہے اس میں افطار کی روح کم اور دکھاوا زیادہ ہوتا ہے ، بیشتر افطارپارٹیاں سیاسی نوعیت کی ہوتی ہیں جن میں غرباء کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور امراء کو مدعوکیا جاتا ہے ، اکثر موقعوں پر نماز مغرب کے لالے پڑجاتے ہیں ، ایسی نام نہاد افطارپارٹیوں سے گریز کرنا چاہئے ۔
۹)آخری عشرے کا اعتکاف غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے لیکن اعتکاف کے نام پر مسجد میں قیام کرنے والے بہت سے کم عمر لڑکےحدود مسجد میں جو طوفان بدتمیزی مچاتے ہیں اس سے عام مصلیوں کی نماز وتلاوت میں خلل واقع ہونے کے ساتھ آداب ِمسجد کی پامالی ہوتی ہے یا تو ایسے منچلے بچوں پر امتناع عائد کیا جائے یاپھر ان کی مکمل نگرانی کی جائے، اور ان کے لیے باقاعدہ تربیت کا نظام العمل ترتیب دیاجائے۔
۱۰)رمضان المبارک کی راتیں انتہائی قیمتی ہوتی ہیں لیکن اکثر نوجوان تراویح کے بعد ہوٹلوں اوربازاروں میں گھنٹوں ضائع کرتے ہیں ، راتوں کی یہ ناقدری انتہائی افسوسناک ہے، حلیم کے نام پر جگہ جگہ بھیڑ لگی رہتی ہے ،رات دیرتک جاگتے رہنے سے سحر خطرہ میں پڑجاتی ہے بعض سیٹھ کہلانے والے افراد مدارس کے سفیروں کے ساتھ فقیروں جیسا رویہ اپناتے ہیں جو انتہائی غلط ہے نہ دینا ہوتو مہذب انداز میں معذرت کی جاسکتی ہے۔
یہ اور اس جیسی بہت سی بے اعتدالیاں ہیں جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے، ان کے علاوہ رمضان المبارک میں درج ذیل باتوں کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھنا چاہئے :
۱)اوقات ضائع نہ کئے جائیں ، رمضان کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے کاروبار اور گھریلو مصروفیات کے بعد جو وقت خالی ہواسے عبادات اور اعمال میں لگایاجائے۔
۲)ویسے زندگی بھر اکل حلال ضروری ہے لیکن رمضان میں اشد ضروری ہے ، اس کے بغیر دعا اور عبادت قبول نہیں ہوتی۔
۳)گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام ہو، اس کے بغیر روزہ حقیقی معنی میں روزہ نہیں کہلاتا بالخصوص زبان، آنکھ اور کان کے گناہوں سے بچیں جن میں ابتلائے عام ہوتا ہے۔
۴)رمضان کی ہر عبادت خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کی جائے ، جلد بازی اور بے توجہی سے گریز کیا جائے ، آداب استحباب کی رعایت کرتے ہوئے پورے اطمینان کے ساتھ اداکریں۔
۵)ان اعمال سے بچاجائے جو نیکیوں کو ضائع کرنے والے ہیں، رمضان نیکیوں کا موسم ہے لیکن نیکیوں کی حفاظت بے حد ضروری ہے ، غیبت ،دوسرو ں کی برائی اور گالی گلوج سے احتراز کریں۔