حیدرآباد و اطراف

فرانس میں گستاخانہ کارٹونس کی اشاعت مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت

حیدرآباد: 26؍اکتوبر (پریس نوٹ) مولانا انصار اللہ قاسمی آرگنائزر مجلس تحفظ ختم نبوت کےبموجب مجلس تحفظ ختم نبوت ٹرسٹ تلنگانہ وآندھرا پردیش کےارکان وعہدیداران مولانا شاہ جمال الرحمن مفتاحی ،مولانا مفتی عبدالمغنی مظاہری ،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا مفتی غیاث الدین رحمانی قاسمی، مولانا محمد عبد القوی، مولانا حافظ خواجہ نذیر الدین سبیلی ،مولانا مصلح الدین قاسمی، مولانا محمد امجد علی قاسمی اورمولانا محمد ارشد علی قاسمی نے فرانس میں گستاخانہ کارٹونس کی اشاعت پر اپنے صحافتی بیان میں کہا: یہ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر پوری اسلامی برادری کی بدترین دل آزاری ہے، مسلمان اپنے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرسکتاہے، لیکن محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کی شان میں ادنی گستاخی بھی اُس کے لئے کسی بھی صورت میں ناقابلِ قبول ہے، آج کی نام نہاد مہذب دنیا کو اس پر غور کرنا ہوگا اظہارِ رائے کی آزادی کی مطلب کسی کو گالی دینا اورکسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہے، اظہارِ رائے کی ایسی آزادی جس سے سماج میں امن وامان کی برقراری خطرہ میں پڑ جائےاور مذہبی رواداری و ہم آہنگی متاثر ہوتی ہو، تو یہ ایک سنگین جرم ہے، اظہارِرائے کی آزادی کے احترام کے نام پر اس سنگین جرم کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ کوئی انصاف پسند اِس کی حمایت کرسکتاہے، علماء کرام نے اپنے بیان میں مزید کہا: افسوس کہ فرانس کی موجودہ حکومت اپنی مسلم عوام کے مذہبی جذبات کو محسوس کرنے اور ملک میں مذہبی بھائی چارگی کو یقینی بنانے کے لئے گستاخانہ کارٹونس کی اشاعت پر روک لگانے کےبجائے اُس کی حمایت میں اُتر آئی ہے،اس طرح حکومت دانستہ طورپر اسلام فوبیا پالیسی اپنا رہی ہے، اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہے، اور حکومتِ ہند سے مطالبہ کرتے ہیں وہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے مذہبی جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے فرانس کی حکومت سے اپنا احتجاج درج کروائے، علماء کرام نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ بطور احتجاج فرانسیسی کمپنیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، آں حضرت ﷺ سے اپنی والہانہ عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے بارگاہِ نبوی میں کثرت سے درودِ شریف کا نذرانہ بھیجتےرہیں، اس کے علاوہ سوشیل میڈیا پر نبی ﷺ کے پیام محبت وانسانیت کو دلچسپ اور مؤثر انداز میں عام کریں۔

Related Articles

One Comment

  1. فرانسیسی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ ایک عارضی اور جذباتی اقدام ہے، ماضی میں بھی اس طرح کے اقدامات کئے گئے لیکن ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بائیکاٹ نہ کریں، بائیکاٹ ضرور ہو لیکن مستقل طور پر کیا جائے، اس بات کی کوشش کی جائے ہم خود ان مصنوعات کو اپنے طور پر تیار کریں، انہیں اعلیٰ اور معیاری بنا کر معاشرے میں عام کریں تاکہ باطل کو مستقل طور پر سبق سکھایا جا سکے، نیز دینی اعتبار سے ہر مسلم بالخصوص مسلم نوجوان اپنی زندگیوں کو سیرت رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×