اسلامیات

قربانی کے موقع پر ہم کیا کریں؟

قربانی اسلامی شریعت کے اہم و اجبات میں سے ہے ۔ اسلام سے پہلے بھی دوسرے انبیاء کی امتیں اس واجب کو بجا لاتی رہی ہیں۔ قرآن مجید (جو مسلمانوں کے لئے بنیادی دستور حیات ہے)میں اس کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح اللہ کے آخری نبی و رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسکی تاکید فرمائی ہے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی کی بات ہے کہ اس واجب کی ادائیگی کا مقصد یہ سمجھا جائے کہ قربانی غیر مسلموں یا دیگر اقوام کی دلا ٓزادی کے لئے کی جاتی ہے یا اس سے صرف تفریحی رسم و رواج یا کھیل کو د یا گوشت کا کھانا کھلانامقصود ہے۔
ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے۔ آئین ہند نے ملک کے تمام باشند گان کو رہنے سہنے اپنے مذہب پر آز ادانہ طور پر عمل کرنے اور اپنے تمام مذہبی فریضوں و رسومات کو ادا کرنے کی بلا امتیاز مذہب و ملت پوری آزادی دی ہے جس کے مطابق یہاں کے تمام باشندگان اپنے مذہبی ، معاشرتی فرائض و رسومات کو پورے طور پر ہمیشہ سےادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس وقت ملک میں مسلمانوں کو جس طرح کے حالات ددرپیش ہیںا ن میں کسی قسم کی مایوسی یا احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان ناگفتہ بہ حالات میں ہم اپنے اسلامی اخلاق اور اپنے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کی پاکیزہ اور نورانی سیرت آپ ﷺ کے سچے عاشق اورجاں نثار صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) اور اولیاء عظام( رحمہم اللہ ) نے ہم کو جس ہمدردی ،غم گساری،بھائی چارہ اور محبت کا جو درس دیا ہے اس کا اپنے کردار و عمل سے ان تعلیمات کا مظاہرہ اور عملی نمونہ پیش کرکے ہم دشمنان اسلام کے ناپاک منصوبوںکو ناکام بنادیں۔ عید قرباںکا یہ موقع ہم کو دعوت دے رہا ہے کہ ہم یاد کریں سیدنا حضرت ابراہیم ؑکی قربانی کو حضرت ہاجرہ کی قربانی کو حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کو رسول اعظم ﷺ کی قربانی کوحضرات حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم کی قربانی کو، آپ کے پیارے ساتھیوں کی قربانی کو، اولیا ء اللہ اور بزرگان دین کی قربانی کو،اور ا ن تمام قربانیوں کو ذہن میں رکھ کر ہم قربانی دیں اپنے جذبات کی، اپنے نفس کی، اپنی خواہشات کی،ان شاء اللہ حالات بدلیں گے، حالات سے بددل ہونے اورمایوسی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اللہ کا نظام ہےان مع العسر یسرا۔ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے۔ دشمنان اسلام کو ہزیمت اور پسپائی ہو کر رہے گی یہ ہمارا ایمان ہے۔بس ضرورت ہے کہ ہم اپنے حالا ت بدلیں۔آئیےاس عید قرباں کے دن کو ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ایک انقلابی اور تاریخی دن بنائیں۔اپنےگناہوں سے توبہ اور اللہ سے استغفار کریں اسکی طرف رجوع کریں۔
اس سلسلہ میں اس موقع پرپہلا کام یہی کریں کہ قربانی کے اس پاکیزہ و مقدس اور محترم موقع پر ہم اپنے علاقوں اور محلوں میں صفائی کا خاص اہتمام رکھیں۔ پیغمبر کائنات حضرت رسول مقبول ﷺ نے اپنی تعلیمات میں پاکی اورصفائی کو نصف ایمان بتایا ہے،اپنی ذاتی صفائی کے ساتھ ساتھ گلی کوچوں اور اپنے محلوںو کالونیوں کی صفائی کا خاص اہتمام ہم کو عام دنوں میں رکھنا چاہئے لیکن عید قرباں کے اس مقدس اور محترم موقع پر ہماری اسلامی تہذیب اور اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ ابنائے وطن کے لئے ان شاء اللہ ہدایت کا ذریعہ بنے گا۔
قربانی کے بعد جانوروں کی گندگی،خون اور آلائش وغیرہ کی صفائی پورے اہتمام اور ذمہ داری کے ساتھ کرائیں کیونکہ صفائی اور پاکی کی جوہدایات اور اس کاجو واضح تصور ہمیں اسلام نے دیا ہے وہ دنیا کے کسی مذہب کے پاس نہیں ہے۔طہارت کا صحیح ترجمہ دنیا کی کوئی زبان اس لئے نہیں کر سکتی کہ کسی غیر اسلامی تہذیب میں طہارت کا تصور ہی نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات کو عملی طور پر پیش کرنا ہی مسلمانوں کی کامیابی کی ضامن ہے۔ قربانی محلوں یا گلیوں میںکھلی اور عوامی جگہوں پر نہ کرائیں تاکہ کسی کو شر انگیزی کا موقع نہ مل سکے۔گوشت کو ادھر ادھر کھول کر نہ لے جائیں ،باقاعدہ ڈھانک کر لے جائیں۔قربانی کے گوشت کی تقسیم بھی نظم و ترتیب کے ساتھ کریں۔ اپنی جانب سے حتی الامکان کوئی ایسی بات نہ ہونے دیں جس سے شر پسندوں کو فتنہ انگیزی کا موقع ملے اور وہ اسکو بنیاد بناکر وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا کر اپنا ناپاک منصوبہ کامیاب بنا سکیں۔ کسی علاقہ میں اگر شرپسند کوئی فتنہ پروری اور شر انگیزی کی کوشش کریں تو فوری طور پر اسکی اطلاع مقامی پولیس افسران اور حکام کو دینے کے ساتھ ساتھ ملی وسماجی کارکنوں اور ملت کے سبرآوردہ حضرات کو دیں۔ خود قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کریں تاکہ قربانی کے فریضہ کو ہم سب خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے سکیں۔یہی اس صورت حال کا صحیح اور مناسب حل ہے۔

قربانی کے جانوروں کی چرم(کھالوں) کو ہمارے علاقوں میں دینی مدارس، مراکز اور رفاہی اداروں میں دینے کا رواج عام ہے جو کہ ان اداروں کے لئے فراہمی مالیات کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ گذشتہ کچھ سالوں سے عالمی بازار میں خام چمڑے کی قیمتوں میں بے تحاشہ گراوٹ کے سبب عام دنوں میں کھالوں کی قیمت برائے نام رہ گئی ہے اور نتیجتاً قربانی کی کھالیں بھی بے قیمت ہو گئی ہیں اور ان کے خریدار نہیں مل رہے ہیں۔ایسے حالات میں دین کی خدمت کرنے والے ان اداروں کے سامنے بھی مالیات کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ دینی ادارے اور دینی مدرسے عام مسلمانوں کے گرانقدر تعاون سے ہی دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں ان اداروں کا وجود اور بقاء کس حد تک ضروری ہے اس کا احساس بھی یقیناً آپ سب کو ہوگا۔ عالمی استعماری طاقتوں کے ساتھ ساتھ ملک میں فرقہ پرست عناصر بھی ان مدارس کی بیخ کنی کے لئے تمام حربے بروئے کار لا رہے ہیں۔ دشمنان اسلام کے ان ناپاک منصوبوں کو ناکام بنانے اور دین کے ان قلعوں کو مضبوط کرنے کی نیت سے اگر ہم اپنی قربانی کی کھالوں کے ساتھ کم از کم -/200 بکرے کے لئے اور کم از کم -/500روپئے بڑے جانور کے لیے اور زیادہ سے زیادہ اپنی وسعت و سہولت کے مطابق ان مدرسوں کا تعاون کردیں تو ان شاءاللہ یہ تعاون نہ صرف ان دینی اداروں کے استحکام اور ان کے بقاء میں معاون ہوگا بلکہ آپ کے لئے صدقہ جاریہ بھی بنے گا ۔

چونکہ قربانی کی کھالوں کی کوئی قیمت نہیں مل رہی ہے اس لئے ان کی وصولیابی پر ہونے والا خرچ بھی مدارس کے لئے اضافی بوجھ بن رہا ہے۔لہذا اس بات کی کوشش کریں کہ اپنے ذرائع سے ہی ان کھالوں کو مدارس یا ان کے مقرر کردہ کلیکشن سینٹروں پر پہنچوانے کا انتظام فرمائیں۔ دینی اداروں کے ساتھ آپ کی یہ محبت،تعاون اور قربانی ان شاء اللہ رائیگاں نہیں جائے گی اور اس پر آپ ان شاءاللہ اجر عظیم کے مستحق ہونگے۔

اللہ تعالیٰ نیک مقاصد میں ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہم سب کو اخلاص کے ساتھ قربانی و دیگر تمام اسلامی احکام وہدایات پر عمل کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین و خاتم النبین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×