اسلامیات

فرضیتِ صیام کا مقصد!!

خداوند کریم نے اپنے بندوں کے لئے عبادات کے جتنے بھی طریقے بتائے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہے ۔بعض حکمتیں وہ ہیں جہاں تک عقل انسانی کی رسائی ہوسکتی ہے اور بعض وہ ہیں جہاں کسی کی رسائی نہیں۔جیسے نماز خدا کے وصال کا ذریعہ ہے ۔ اس میں بندہ اپنے معبودِ حقیقی سے گفتگو کرتا ہے بعینہ روزہ بھی خدا تعالیٰ سے لَو لگانے کا ایک ذریعہ ہے ۔ جہاں نماز کے بارے میں یہ ارشاد ہے کہ نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے ۔وہیں روزے کے بارے میں فرمایا گیا ہے : اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بنو۔
تقوی کیا ہے ؟تقوی:انسانی زندگی کی وہ صفت ہے جو تمام انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ رہی۔جس کے معنی ہے اللہ کی عظمت و کبریائی کا احساس رکھتے ہوئے گناہوں سے بچنا اور نیک کام کرنا۔ایک مرتبہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ تقوی کی حقیقت کیا ہے ۔ انہوں نے سوال کیا، کیا آپ کا گزر کبھی ایسے راستے سے ہوا جس میں دونوں طرف کانٹے ہوں ۔ فرمایا ،ہاں ! کہا :اس حالت میں آپ نے کیا کیا ؟ فرمایا،میں نے کوشش کی، کانٹون سے بچ کر نکل جاؤں ۔ کہا: یہی تقوی کی حقیقت ہے ۔
مفسر قرآن مولانا ابوالکلام آزادؒ ‘‘تقوی’’کی حقیققت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :زندگی کی تمام باتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں؛ بعض طبیعتیں محتاط ہوتی ہیں ،بعض بے پرواہ ہوتی ہیں ؛جن کی طبیعت محتاط ہوتی ہے ، وہ ہر بات میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں ،اچھے برے ،نفع ونقصان ،نشیب و فراز کا خیال رکھتے ہیں، جس بات میں برائی پاتے ہیں ،چھوڑ دیتے ہیں ، جس میں اچھائی دیکھتے ہیں ،اختیار کر لیتے ہیں ، برخلاف اس کے جو لوگ بے پرواہ ہوتے ہیں ، ان کی طبیعتیں بے لگام اور چھوٹ ہوتی ہیں ؛ جو راہ دکھائی دے گی ، چل پڑیں گے ، جس کام کا خیال آگیا کر بیٹھیں گے ، جو غذا سامنے آگئی کھا لیں گے ، جس بات پر اڑنا چاہیں گے ،اڑبیٹھیں گے ، اچھائی برائی ، نفع ونقصان ،دلیل اور توجہ کسی کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی ۔جن حالات کو ہم نے یہاں‘‘ احتیاط’’ سے تعبیر کیا ہے اس کو قرآن تقوی سے تعبیر کرتا ہے ۔(ترجمان القرآن)
مختصر یہ کہ روزہ کے ذریعے اللہ تعالی ہمارے اندر احتیاط اور تقوی کی صفت پیدا کرنا چاہتے ہیں،جس طرح ہم رمضان میں اللہ کے حکم کی وجہ سے قدرت کے باوجود حلال چیزوں سے پرہیز کرتے رہے غیر رمضان میں ہم حرام و مشتبہ امور سے بچنے والے ہوجائیں۔
علامہ ابن قیم ؒ نے تقویٰ کے تین درجات بیان فرمائے ہیں (۱)پہلا درجہ: دل اور اعضاء وجوارح کو معاصی اور محرمات سے محفوظ رکھنا(۲)دوسرا درجہ : دل اور اعضاء و جوار ح کو مکروہات سے بچانا (۳)تیسرا درجہ : دل اور اعضاء وجوارح کو فضول ولا یعنی امور سے باز رکھنا۔
تقویٰ والی زندگی مسلمان کے لیے لازمی وضروری ہے ؛ کیوں کہ صفت ِ تقویٰ صرف اجتماعی ومعاشرتی زندگی ہی میں اوامر ونواہی کا پابند نہیں بناتی ؛ بلکہ انفرادی اور نجی زندگی میں بھی تعمیر ِ حیات اور تطہیر ِ نفس کا سبب بنتی ہے ۔
تقویٰ کا حکم قرآن مجید میں :
قرآن مجید میں متعددمقامات پر تقوے اختیار کرنے کی تاکید کی گئی چناں چہ ارشاد باری ہے :یا اَیھَُّا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ ما قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَ اتَّقُوا اللَّہَ(الحشر) اے ایمان والو! ڈرتے رہو اللہ سے اور چاہئے کہ دیکھ لے ہرشخص، اس نے کل کے واسطے کیا بھیجاہے اور اللہ سے ڈرتے رہو!
ایک اور مقام پر فرمان الہی ہے : یَا ایُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (آل عمران)
اے ایمان والو!ڈرتے رہو اللہ سے جیساکہ اس سے ڈرنا چاہئے اور نہ مرو مگرمسلمان ہوکر ۔
ایک اور جگہ اللہ جل شانہ نے فرمایا: ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ) حجرات(تم میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے ۔
تقویٰ کے معنی ہیں بچنے کی کوشش کرنا یعنی ایسا راستہ اختیارنہ کرنا،جس کا سرا جہنم تک پہنچتا ہو، اپنے آپ کو گناہوں سے بچانا اور اس کی مشق کرنا ،اس کا ملکہ اپنے اندر پیدا کر لینا اور اس انداز سے یہ صفت اختیار کر لینا کہ گناہوں سے بچنے کی عادت اور مزاج بن جائے(یہی تقوی کہلاتاہے) ۔
تقوی کا حکم احادیث رسول ﷺ میں:
رسول اللہﷺبارہا اپنے خطبات میں ارشاد فرمایاکرتے : اوصیکم بتقوی اللہ والسمع والطاعۃ یعنی میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی لہٰذاتم اللہ سے ڈرتے رہنا ،اس کی نافرمانی سے بچتے رہنااوراس کے کسی حکم سے منھ نہ موڑنا۔
ایک مقام پر رسول اللہ ﷺنے خود اپنے بارے میں ارشاد فرمایا: اما واللہ انی لاتقاکم للہ و اخاشاکم لہ۔(صحیح مسلم)
میں تم میں سب سے زیادہ اللہ کا تقویٰ رکھنے والا اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں،خشیت اور تقویٰ میں ساری مخلوق اور سارے انسانوں میں بڑھا ہوا ہوں؛اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز اور سب سے زیادہ مکرم تھے ۔
اللہ تعالی نے کلام مجید میں روزوں کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا :یاایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون(البقرۃ)
اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم پرہیزگار بنو ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ تعالی کے مقررکردہ حدود کے اندر رکھ کر زندگی بسر کرے اور اسے اس بات کا ڈر رہے کہ اگر اس نے ان حدودکو توڑاتواللہ کے سوا اسے سزا سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ جن کو بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور بہت سے رات کو جاگنے والے ایسے ہیں کہ جن کے حصہ میں صرف جاگنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا،روزہ رکھا ؛لیکن کچھ نہیں پایا،رات بھر بیدار رہا مگر کچھ نہیں ملا،رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ (صحیح بخاری)
فرمایا کہ جو شخص غلط بات بولنا اور غلط کام کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ بندہ اپنے کھانے پینے کو چھوڑ دے ۔
ذرا دیکھئے !کس قدر ناراضگی کا اظہار ہے ، جو آدمی غلط کام کرنا نہ چھوڑے ،غلط بات بولنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ بندہ اپناکھانا پینا چھوڑ ے ؛بہ ظاہر کھانا پینا توبندے نے چھوڑ دیا ہے ، لیکن کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا، زبان کی بے احتیاطی ،اوربد نگاہی سے اجتناب نہیں کرتا ،تو ناراضگی کے لہجہ میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ اس کو بھوکا رکھنا چاہتا ہے ؟اس کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ میرا بندہ نہ کھائے نہ پیئے ، وہ تمہارے اندر تقویٰ کی صفات پیدا کرنا چاہتا ہے ، ان چیزوں کو چھوڑوگے تو تمہارے اندر تقویٰ کی صفات پیدا ہوں گی ،اور تم اگر کسی چیز کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو تو بھوک پیاس کے علاوہ تمہارا روزہ کچھ نہیں ہوا۔
ایک اور مقام پر سرکار دوعالمﷺنے ارشادفرمایا :روزہ ڈھال ہے ، جب تک کہ اس کو پھاڑ نہ ڈالے ۔ڈھال،دشمن کے حملہ کو روکنے کا ذریعہ ہے ،نفس اور شیطان کے حملوں سے بچانے کے لیے روزہ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے ڈھال بنایا ہے ،اگر اس ڈھال کو ہم پھاڑ دیں گے تو پھر یہ دشمن کے حملہ سے ہم کو بچا نہیں پائے گا،اور روزہ کی ڈھال کا پھاڑنا کیا ہے ؟ جن چیزوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ان سے اپنے آپ کو بچا کر نہ رکھنا اور اس کی حفاظت یہ ہے کہ جن چیزوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ان سے بچے کی فکرکرنا ،جب ان سے بچا جائے گا تب روزہ ڈھال بنے گا۔
تمام عبادات کا مقصود‘‘تقوی’’ :
نماز: اللہ تعالی سے تعلق کا بہترین اظہار نماز کی شکل میں ہوتا ہے ؛کیوں کہ اس عبادت میں بندے کا اپنے رب سے رشتہ جڑ جاتا ہے ، وہ اسے ملجا و ماوی اور سب کچھ سمجھتا ہے اور اس کے آگے سربسجودہوجاتاہے ۔نماز جیسی اہم عبادت کے تعلق سے بھی بہ طور خاص تقوی کومطلوب بتلاتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: بیشک نماز بے حیائی اور برائیوں سے روکتی ہے ۔ (سورۃ العنکبوت ) نوٹ:بے حیائی اور برائیوں سے رکنے کانام ہی تقویٰ ہے ۔
زکوۃ: راہ خدا میں ہرسال مال کا چالیسواں حصہ فقراء ومساکین کو دینا؛تاکہ مال پاک ہوجائے اور نفس کی اصلاح ہوتی رہے ،زکوۃ کہلاتاہے ؛یہی وجہ ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرے اور بندوں کے حقوق نہ پہچانے ،اس کا مال ناپاک ہوجاتا ہے ، اور ناپاک مال میں جینے والا صاحبِ تقوی نہیں ہوسکتا، تقوی کا مقامِ بلند مال کے تزکیہ کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے اور انسان اللہ تعالی کی بے پایاں نعمتوں کا مستحق ہوتا ہے ،ارشاد باری ہے : جہنم سے وہ شخص دور رکھا جائے گا جو بڑے تقوی والا ہے ، جو اپنا مال اس غرض سے دیتا ہے کہ پاک ہوجائے ، اس پر کسی کا احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ اسے دینا ہو، وہ تو صرف اپنے رب اعلی کی رضا جوئی چاہتا ہے اور وہ ضرور اس سے خوش ہوگا۔ (اللیل)
روزہ : اسلام کاتیسرا ایک اہم رکن ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سارے مکلف مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں روزہ رکھیں اور اپنے پاک کلام میں روزہ کی فرضیت کی یہی حکمت بتائی ہے کہ روزہ سے انسان میں تقویٰ پیداہوتا ہے جیساکہ فرمان الہی ہے : ے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔(البقرۃ)
حج: اسلام کا پانچواں رکن ہے ، اس کی ادائیگی میں مالی صرفہ بھی ہے اور جانی مشقت بھی ،حج کے سفر کے دوران عازمین حج زاد سفر اختیار کرتے ہیں اور متعدد چیزوں سے آراستہ ہوکرجاتے ہیں؛مگر فرمان الٰہی ہے : اور (حج کے سفر میں) زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو؛کیونکہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے ۔ (سورۃ البقرہ )یعنی دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا شریعت اسلامیہ کے خلاف نہیں ہے لیکن سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ یعنی اللہ کا خوف ہے ۔
قربانی: قربانی کرنا(راہ خدا میں جانورذبح کرنا)بھی ایک ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے ،اور اس اہم عبادت کا مقصد بھی تقوی ہے ؛جیساکہ فرمان خداوندی ہے :ہرگز نہ تو)اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے ۔(الحج )
معلوم ہوا کہ قربانی کا بظاہر مقصد جانور ذبح کرنا ہے مگر اس کی اصل روح تقویٰ اور اخلاص کی آبیاری ہوتی ہے ۔
ان سب عبادات میںغورکرنے سے معلوم ہوگیاکہ اللہ تعالی نے تقوی ہی کو معیار بتلایاہے ۔
روزے کی دوسری حکمت یہ بیان فرمائی:تاکہ تم روزوں کی گنتی پوری کرو !یعنی روزے پورے رکھواور ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی بزرگی اور عظمت کے گن گاؤ: اس لئے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی تاکہ تم اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ۔
گو یا روزے میں یہ حکمت بھی پوشیدہ ہے کہ ہم خداوند کریم کی قدر و منزلت پہچانیں اور اس کی ان نعمتوں کا، جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں، شکر بجا لائیں اور ظاہر ہے یہ چیز بھی رضا و خوشنودیٔ الٰہی کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے قربت کا ایک ذریعہ ہے ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم تمام کو تقویٰ والی زندگی گذارنے اور روزے کا مقصدحاصل کرنے کی ت

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×