سیاسی و سماجیمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

سیلاب کی ہلاکت خیزی اور ہماری ذمہ داری

اس وقت ملک کی جنوبی پٹی تاریخ کے بھیانک ترین سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔کرناٹک، تلنگانہ، جنوبی مغربی اڈیشہ اور کیرالامیں پیر کی دوپہر سے موسلا دھار بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے ریاست تلنگانہ کے اکثر اضلاع اور ریاست آندھرا پریش کے وشاکھاپٹنم‘ مشرقی گوداوری‘ویزاگ کے علاوہ کئی اضلاع میں ریڈ الرٹ جاری کرتے ہوئے عوام کو گھروں سے نہ نکلنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اخباری ذرائع کے مطابق کہاجارہاہے کہ شہر حیدرآباد میں اس طرح کی بارش 1903 میں ہوئی تھی، پچھلے دو تین یوم سے مسلسل ہونے والی شدید بارش نے117سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے؛ جس کے سبب لاکھوں روپے کی املاک اور فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔سینکڑوں رہائشی علاقے زیر آب آکرویران ہوچکے ہیں،جبکہ پانی میں ڈوبے ہوئے ہزاروں مکان طوفانِ نوح کا منظر پیش کر رہے ہیں۔متعدد افراد لاپتہ ہیں،جن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا، سائنس کے اس ترقی یافتہ دور میں جدید ایجادات و ذرائع بھی یہ معلوم کرنے سے قاصر ہیں کہ وہ کہاں ہیں؟ زندہ ہیں یا خدانخواستہ سیلاب کی نذر ہوگئے؟کئی خاندان ایسے ہیں جو اپنے مکان کی چھتوں پر بسیرا کئے، بھوکے پیاسے، ہاتھ پھیلائے امداد کے لئے فریادی ہیں۔ انسانی بے بسی اور بے کسی کا یہ عالم ہے کہ ایک جمِ غفیر کی موجودگی میں کوئی انسان غوطے کھا رہا ہے، ڈوب رہا ہے، زندگی بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے، مدد کے لئے چلارہا ہے؛ لیکن چاہنے کے باوجود کوئی اسے بچا لینے پر قادر نہیں۔رابطے یوں منقطع ہیںکہ اکثر کو اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کی کچھ خبر نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں؟آلاتِ رسل و رسال ناکام اورذرائع آمدورفت متاثرہوچکے ہیں۔
یہ وہ تمام شواہد ہیں‘ جو حق تعالی کی حاکمیت، اُس کی الوہیت، وربوبیت اور اُسی کے قادرِ مطلق و ملجا و ماویٰ ہونے پر دلالت کررہے ہیں۔۔۔ایک مسلمان کواگرچہ یہ سب کچھ بتلانے کی ضرورت نہیں، تاہم کتنے لوگ  ہیں کہ جنہیں آج بھی، اس نازک ترین صورتِ حال کے باوجود، خدا یاد آ رہا ہے؟آج بھی جو لوگ سیلاب کی نظروں سے اوجھل ہیں، اُن کی عیاشیوںمیں رائی کے دانے برابربھی فرق نہیں آیا۔جبکہ اس کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں میں، اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد کرنے والوں کے ساتھ ساتھ، ایسے تماش بیں بھی موجود ہیں، جو آفت زدگان کی بے چارگی پرویڈیو سازی اور تصویرکشی میں مصروف ہیں،گویا ان کی مظلومیت پر آنسو بہانے اور ان کی حالت زار دیکھ کر عبرت پکڑنے کی بجائے، انہیں سامانِ تفریح سمجھے قہقہے لگا رہے ہیں۔۔۔حالانکہ قرآن مجید میں ا س جیسی آزمائش   کے وقت رجوع الی اللہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے،ارشاد باری ہے:”قیامت کے بڑے عذاب کے سوا ہم انہیں عذابِ دنیا کا مزہ بھی چکھائیں گے، کہ شاید (اس عذاب کو دیکھ کر ہی ہماری طرف) لوٹ آئیں”(سورہ ٔسجدہ) اسی طرح سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایاکہ قدرتی آفتیں پہلی امتوں کی طرح اس امت میں بھی آئیں گی اور اللہ تعالی کی ناراضگی کا اظہار ہوں گی۔ اس لیے سیلاب ، آندھی اور طوفان کے ظاہری اسباب پرضرور نظر کی جائے اور ان کے حوالے سے تحفظ کی تدابیر بھی ضرور اختیار کی جائیں؛ لیکن اس کے ساتھ بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کے باطنی اسباب اور روحانی عوامل کی طرف بھی توجہ دی جائے اور ان کو دور کرنے کے لیے بھی محنت وجدوجہد کی جائے۔ بخاری شریف میںحضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؓ نے فرمایا کہ جب کسی قوم پرخدا کا عمومی عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کا شکار ہوتے ہیں۔ البتہ قیامت کے دن سب لوگ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔
سیلاب کی اس سنگین صورت حال سے نمٹنے اور ان تشویش ناک حالات پر قابو پانے کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ اس حوالے سے چند اہم معروضات پیش خدمت ہیں۔

1) ہمارا سب سے پہلا فریضہ ہے کہ ہم توبہ و استغفار کریں،اپنے جرائم اور بدعملیوں کا احساس اجاگر کریں، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش کریں، امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا اہتمام کریں، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوںکو پھیلانے کی محنت کا عہد کریں، اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں۔ترمذی شریف میں حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا : خدا کی قسم! تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ضرور سر انجام دیتے رہنا، ورنہ تم پراللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہوگا، پھر تم دعائیں کرو گے تو تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔اسی طرح ابو داؤد شریف میں سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمﷺنے فرمایا:جب لوگ معاشرہ میں منکرات یعنی نافرمانی کے اعمال کو دیکھیںاور انہیں تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں اور جب کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کاہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ سب پر خدا کا عذاب آجائے۔

2) دوسری چیز ہمیں ہر حال میں اللہ تعالی سے عافیت طلب کرناچاہیے۔عافیت سب سے بڑی نعمت ہے،عافیت کا مطلب بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا محمدمنظور نعمانی ؒ لکھتے ہیں:’’عافیت کا مطلب ہے تمام دنیوی واخروی اور ظاہری وباطنی آفات و بلیات سے سلامتی اور تحفظ۔جو شخص اللہ تعالی سے عافیت کی دعا مانگتا ہے وہ برملا اس بات کا اعتراف اور اظہار کرتا ہے کہ اللہ کی حفاظت اور کرم کے بغیر وہ زندہ اور سلامت نہیں رہ سکتا،اور کسی چھوٹی یا بڑی مصیبت اور تکلیف سے اپنے کو نہیں بچا سکتا۔پس ایسی دعا اپنی کامل عاجزی وبے بسی اور سراپا محتاجی کا مظاہرہ ہے اور یہی کمالِ عبدیت ہے۔اس لئے عافیت کی دعا اللہ تعالی کو سب دعاؤں سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘(معارف الحدیث:۵/۹۱۱)ایک موقع پر نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: تم میں سے جس کے لئے دعاکا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے۔اور اللہ کو سوالوں اور دعاؤںمیں سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندہ اُ س سے عافیت کی دعاکرے،یعنی کوئی دعااللہ تعالی کو اس سے زیادہ محبوب نہیں۔‘‘(ترمذی)اسی طرح حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ:ایک صاحب آئے اور نبی کریمﷺ سے پوچھا کہ کون سی دعا افضل ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے پروردگار سے دین ودنیاکے معاملہ میں عافیت مانگو۔وہ دوسرے دن آئے اور یہی سوال کیا،آپ ﷺ نے یہی جواب دیا،پھرتیسرے دن آئے اور یہی سوال کیا،آپﷺ نے یہی جواب دیا اور فرمایاکہ:اگر تجھے دنیاوآخرت میں عافیت نصیب ہوجائے تو کامیاب ہوگیا۔(ترمذی)

3)تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں کہ یہ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ راقم السطور خود جزوی طور پر سیلاب کے متاثرین میں شامل ہے اور اپنی آنکھوں سے تباہی کے خوفناک مناظر دیکھ رہا ہے،کئی ایک خاندان اور ہزاروںافراد ہماری مدد اور توجہ کے مستحق ہیں۔ اگرچہ مختلف رفاہی تنظیموں کی جانب سے امدادی سرگرمیاں وسیع پیمانے پر جاری ہیں؛لیکن اصل ضرورت سے بہت کم ہیں اور ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقتی مسئلہ نہیں ہے اس کے لیے لمبا زمانہ درکار ہے اور غیرمعمولی محنت وقربانی کی ضرورت ہے۔
یاد رکھیں! آفاتِ سماویہ کا یہ موقع ہم مسلمانوں کے لئے دعوتی نقطۂ نظر سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دراصل غیر مسلم بھائیو ں کے سامنے اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرنے کازریں موقع ہے۔ ہم اپنے عمل کے ذریعہ برادران وطن کو بتاسکتے ہیں کہ اسلام انسانیت اور اخوت و بھائی چارگی کا مذہب ہے۔ فرقہ پرستی کے اس تاریک ماحول میںہمیں قومی یکجہتی، انسانی ہمدردی اور آپسی خلوص و محبت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ گزشتہ برسوں میں جب چینائی میں سیلاب نے تباہی مچائی تھی تو وہاں کے مسلمانوں نے غیرمسلم متاثرین کے ساتھ مثالی برتاؤ کیا تھا ،جس کے اچھے اور مثبت اثرات مرتب ہوئے تھے۔ سیلاب سے متاثر غیر مسلم بھائیوں نے فرقہ پرستوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مسلمانوں کی انسانی ہمدردی کی تعریف کی تھی۔

4)اس کے ساتھ ہی سیلاب میں جاں بحق ہونے والے خواتین وحضرات کے لیے دعائے مغفرت کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ چونکہ وہ لوگ اچانک اورحادثاتی موت کا شکار ہوئے ہیں؛ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق وہ شہداء میں شامل ہیں۔نیز اچانک اور ناگہانی موت کے متعلق سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:اچانک کی موت مومن کے لیے آسانی وتخفیف کا سبب ہے اور کافر کے لیے حسرت و افسوس کاباعث ہے۔(مصنف عبدالرزاق)لہذا ان کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا بھی ہم پر ان کا حق ہے اور ہمیں اپنی دعاؤںمیں انہیں یاد رکھنا چاہیے۔

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×