اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

فتوے کی شرعی حیثیت !

’’فتوے ‘‘کا انسانی زندگی اور اسلامی معاشرے سے گہرا ربط وتعلق ہے،فقہ و فتاوی میں حیات انسانی کے شب وروزاوردینی و دنیوی معاملات کے حوالے سے نہ صرف کامل رہبری ورہنمائی ملتی ہے؛بلکہ اس سے سماج کو حرکت وحرارت بھی نصیب ہو تی ہے،انہی فتاوی کے ذریعہ کہنہ مشق و نبض شناس مفتیان کرام ملت کو درپیش مسائل کا مناسب حل بتاتے ہیں اورتشنہ لب سائلین کو آب زلال فراہم کرتے ہیں۔مگر یہ نہایت افسوناک صورت حال ہے کہ آج امت مسلمہ میں اس مہتم بالشان، ناگزیر اور نازک ترین دینی شعبہ کے حوالے سے یہ کہہ کر گمراہی پھیلانے کی ناپاک سازشیں عروج پر ہیں کہ اسلام میںفتوی کی کوئی حیثیت نہیں،یہ فلاں ادارے کی ذاتی رائے ہے،اس پر عمل کرنا ہر ایک کے لیے لازم نہیں ہے ۔بعض سہولت پسندحلقوں کی جانب سے امت کو یہ پیغام دینے کی کوشش ہورہی ہے کہ فتوی قرآن و حدیث سے ہٹ کر کوئی الگ چیز ہے،جو واجب العمل نہیں،مزید یہ کہ فتوی مفتی کی اپنی نجی رائے ہے جس کو درخور اعتناء سمجھنے کی ضرورت نہیں ۔آج ایک طرف اسلام مخالف طاقتیں‘ سازشی میڈیا کے ذریعہ بہت سے فتاوی کو لے کر شور وغوغا کر رہی ہیں،تودوسری طرف نادان دوستوں کی بھی ایک مختصر جماعت ہے جو فتاوی کے اعتبار و استناد کو مجروح کرنے کی سعی نامشکور میں لگی ہوئی ہے ۔
اسلام ایک آفاقی دین اور شریعت محمدیہ ایک دائمی دستورہے؛جودورِ حاضر تو کیا رہتی دنیا تک نہیں بدلا جاسکتا، دورِ جدید کے اہم تقاضوں کے عنوان سے یانت نئی تحقیقات کا خوش نمالیبل لگاکر بنیادی مسائل اور فتاوی میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی، عہدِ حاضر ہو یا مستقبل بعید اسلام کے بنیادی مسائل میں ترمیم کی مطلق گنجائش نہیں، جو لوگ جدید دور کے حوالے سے اسلامی احکامات کو بدلنے کی بات کرتے ہیں وہ اسلام کی ابدیت اور اس کی حقانیت سے ناواقف ہیں یا پھر دین بیزاراور مذہب مخالف ہیں ۔مختصر یہ کہ کچھ لوگ دین کے اس اہم ستون کو جس کی بنیاد خود نبی اکرم ﷺنے رکھی منہدم کرنے اور امت مسلمہ کے قلب و دماغ سے اس کی عظمت ووقعت کو نکالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
فتوی اور سوشل میڈیا:
یہ حقیقت ہے کہ ہر ایجاد اپنے ساتھ کچھ فوائد اور کچھ مضرات لاتی ہے۔انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کی ایجاد نے جہاں گلوبل ولیج بنانے،ابلاغ و ترسیل کو آسان کرنے اور انسانوں کو ایک دوسرے سے مربوط رکھنے میں کلیدی رول اداکیا ہے، وہیں بے محل اظہار خیال کی آزادی ،انتشار وفتنہ پردازی وغیرہ میں بھی وافرحصہ ڈالاہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ کسی بھی ادارے سے جاری ہونے والے فتوے کے من مانی مطالب اخذ کیے جاتے ہیں،اسے کالعدم بتلاکر عوام کو تشویش میں مبتلا کیا جاتاہے اور پرسکون ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
صحابۂ کرام ؓ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر دارالعلوم دیوبندکے فتاوی کو لے کر جاری بحث ومباحثے کے تعلق سے وضاحت کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی(مہتمم دارالعلوم دیوبند)نے کہا:دارالعلوم دیوبند کے دارالافتا کا معمول یہ ہے کہ وہ ازخود کوئی فتوی جاری نہیں کرتا جو لوگ اپنے کسی عمل کے بارے میں شرعی حکم یا مسئلہ جاننا چاہتے ہیں وہ ایک سوال نامہ (استفتاء)مفتیانِ کرام کے سامنے پیش کرتے ہیں اس کے بعد شریعت اسلامی کی روشنی میں مفتیانِ کرام اس کا جواب دیتے ہیں، اسی جواب کا نام عرف عام میں فتوی ہے۔ فتوی بھی ہرعالم نہیں دے سکتا اس کے لیے مشاق مفتی ہونا ضروری ہے، البتہ حاصل کیے گئے فتوے پر عمل کرنا یا نہ کرنا انسان کے ایمانی جذبے اور دینی غیرت وحمیت پر انحصار کرتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہرمومن شریعت اسلامی کے مطابق زندگی گذارے اور بہتر سے بہتر سامانِ آخرت تیار کرے ؛ لیکن اگر کوئی اپنی مرضی سے فتوے پر عمل نہ کرنا چاہے تو دنیوی دستور کے اعتبار سے وہ آزاد ہے، فتوی نافذ کرنے کے سلسلے میں دارالعلوم دیوبند کے پاس کوئی قوتِ نافذہ نہیں ہے، دارالافتا کا کام محض شرعی مسئلہ بتادینا ہے عمل کرنا یا نہ کرنا مستفتی کی مرضی پر موقوف ہے، جیسے فتوی دیا جاتا ہے کہ شراب، جوا، سودخوری، چوری، زنا وغیرہ حرام ہیں، اس کے باوجود بہت سے مسلمان ان گناہوں میں ملوث رہتے ہیں۔ شریعت سے کوئی انحراف کرتا ہے تو بلاشبہ یہ اس کا اپنا ذاتی عمل ہے۔
افتاء کسے کہتے ہیں :
افتاء کے لغوی معنی کسی امر کو واضح کرنے کے ہیں ،ڈاکٹر شیخ حسین ملاح نے فتوی کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی ہے ’’پیش آمدہ واقعات کے بارے میں دریافت کرنے والے کو دلیل شرعی کے ذریعہ اللہ تعالی کے حکم کے بارے میں خبر دینا۔ (کتاب الفتاوی)
قرآن مجید میں افتا ء اور استفتا ء کے الفاظ مجموعی طور پر گیارہ جگہ استعمال ہوئے ہیں ،اورذخیرہ احادیث میں تو یہ لفظ متعدد جگہ آیاہے، تمام مصنفین نے فتوی کو شریعت کا حکم قرار دیا ہے۔افتا ء کی ذمہ داری بہت ہی نازک ذمہ داری ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے فتوی کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے ،جیساکہ ارشاد خداوندی ہے: قلِ اللہ یفتِیکم فِی الکلالۃِ (النسا ء )گویا اللہ تعالی کی ذات خود مفتی ہے ، پھر اللہ تعالی نے اپنے منشا ء کی تشریح و توضیح اپنے نبی محمدالرسول اللہ ﷺکے حوالے فرمائی۔افتاء کا منصب علمی سلسلوں میں سب سے زیادہ مشکل، دقیق اور اہم ترین سمجھا گیا ہے، فقہ کی لاکھوں متماثل جزئیات اور ان کے متعلقہ احکام میں تھوڑے تھوڑے فرق سے حکم کا تفاوت محسوس کرنا عمیق علم کو متقاضی ہے،جو ہر عالم ؛بلکہ ہر مدرس کے بھی بس کی بات نہیں، جب تک فقہ سے کامل مناسبت ،ذہن وذکا میں خاص قسم کی صلاحیت اورقلب میں مادئہ تفقہ نہ ہو؛اس لئے مدارس دینیہ میں افتا ء کے لئے شخصیت کا انتخاب نہایت پیچیدہ مسئلہ سمجھا گیا ہے، جو کافی غوروفکر اور سوچ وبچار کے بعد ہی حل ہوتا ہے اور پھر بھی تجربات کا محتاج رہتا ہے۔
فتوی ارتقا کے مختلف منازل میں :
دورِ رسالت مآب میں رسول اکرم ﷺ خود مفتی الثقلین اور منصبِ افتاء پر فائز تھے، آپ وحی کے ذریعہ اللہ تعالی کی طرف سے فتوی دیا کرتے تھے۔ آپ کے فتاوی (احادیث)کا مجموعہ ، شریعتِ اسلامیہ کا دوسرابڑا ماخذ ہے۔ ہر مسلمان کے لیے اس پر عمل ضروری ہے اور اس سے سرِ مو انحراف کی اجازت نہیں۔آپ نے فتاوی کے ذریعہ عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاقیات و آداب وغیرہ میں رہ نمائی کی ہے؛جو رہتی دنیاتک انسانیت کے لیے مشعلِ راہ اورخضر طریق ہے۔
آپ کے عہدِ مسعودمیں کوئی دوسرا فتوی دینے والا نہیں تھا؛ البتہ آپ کبھی کبھی کسی صحابی کو کسی دور دراز علاقہ میں مفتی بنا کر بھیجتے تو وہ منصب افتا ء و قضا پر فائز ہوتے اور لوگوں کی رہ نمائی کرتے، جیساکہ حضرت معاذ بن جبلؓ کو آپ نے یمن کا قاضی بناکر بھیجااور انھیں قرآن و حدیث اور قیاس و اجتہاد کے ذریعہ فتوی دینے کی اجازت مرحمت فرمائی۔آپ کے بعد فتوی کی ذمہ داری کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے سنبھالا اور احسن طریقے سے انجام دیا۔ حضرات صحابہ کرام میں جو فتوی دیا کرتے تھے، ان کی مجموعی تعداد ایک سوتیس سے بھی زائد ہے ، جن میں مرد بھی شامل ہیں اور عورتیں بھی؛ البتہ زیادہ فتوی دینے والے سات صحابہ تھے: حضرت عمر فاروق ، حضرت علی ، حضرت عائشہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت ، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین۔یہ وہ حضرات ہیں جواجتہاد واستنباط میں معروف تھے، جنہیںفقہ و نظر میںبلند مقام حاصل تھاجیساکہ مورخ ابن سعد نے الطبقات الکبری میں ایک مستقل باب ‘‘ذکر من کان یفتی بالمدینہ و یقتدی بہ من اصحاب رسول اللہ ﷺ’’ قائم فرمایا، جس میں مجتہدین صحابہ رضی اللہ عنہم کو نام بہ نام گنوایا۔اسی طرح خلفائے راشدین میں حضرت عمر بن الخطاب اور حضرت علی سے بھی بکثرت فتاوی مروی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجۃ اللہ البالغۃمیں رقم طراز ہیں:فصارت قضایاہ و فتاواہ متبعۃ فی مشارق الارض و مغاربھا۔ چنانچہ حضرت عمر کے فیصلوں اور فتووں کی اسلامی قلمرو کے مشرق و مغرب میںہر طرف پیروی کی جاتی تھی۔اس کے بعد تعلیم و تربیت اور فقہ و فتوی کا سلسلہ حضرات صحابہ کے شاگردوں نے سنبھالا اور دل و جان سے اس کی حفاظت کر کے اگلی نسلوں تک منتقل کیا۔ صحابہ کرام کے زمانے میں متعددفتوحات ہوئیں ، اسی وجہ سے وہ دور دراز علاقوں میں پھیل گئے؛چناں چہ ہر جگہ ان کے شاگرد تیار ہوئے۔دوسری صدی ہجری فقہ و فتاوی اور اجتہاد و استنباط کے لحاظ سے سب سے زریں دور کہلانے کی مستحق ہے ، جس میں ایسے ائمہ مجتہدین پیدا ہوئے جنہوں نے فقہ و فتاوی کا نہایت ہی نمایاں کار نامہ انجام دیا ، اور ایک بڑے گروہ نے ان کی اتباع و پیروی اور اقتداو تقلید کا راستہ اختیار کیا ، انہیں میں امام ابوحنیفہ ، امام مالک امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، اہل سنت کے چاروں ائمہ مجتہدین ہیں جن کی فقہ کو امت کے سواد اعظم نے اپنی چشم محبت کا سرمہ بنایا ، پھر امام اہل شام امام عبد الرحمن اوزاعی اور امام اہل مصر امام لیث بن سعد ، محمد بن عبد الرحمن ابن ابی لیلی قاضی کوفہ ، اور فقیہ سفیان ثوری وغیرہ بھی اسی دور کے فقہا ء اور ارباب افتا ء میں سے ہیں۔
ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے زوال اور برطانوی آبادکاروں کے تسلط کے بعد فتوی کا کام دینی مدارس کی طرف منتقل ہوگیا اوراب یہ کام دینی مدارس کے ذریعہ ہی انجام پارہا ہے۔ دینی مدارس نے فقہ و فتوی کی اس عظیم ذمہ داری کونہات احسن طریقے سے انجام دیا،خاص کر دار العلوم دیوبند کا دار الافتاء اپنی قدامت ، تسلسل،علمی وتحقیقی ذوق اور مرجعیت کے اعتبار سے ملک کا سب سے ممتاز دار الافتا ء شمارکیاجاتاہے ، اور یہاں سے جتنی بڑی تعداد میں فتاوی صادر ہوئے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں اس کی شاید ہی کوئی نظیر ہو ۔
موجودہ دور میں فتوے کی ضرورت:
موجودہ دور میں فتوی کی معنویت وافادیت اور اس کی اہمیت وضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے،گلوبلائزیشن اور جدید انکشافات کے اس دور میں تجارت و ملازمت اور صنعت و حرفت کی نئی نئی شکلوں نے جنم لیا ہے،میڈیکل سائنس کی حیران کن تحقیقات نے علاج ومعالجہ اور تحفظِ انسانیت کے لیے نئی نئی ایجادات پیش کی ہیں،انسان سیاروںپر اپنی آبادی بسانے لگا ہے،پھر آئے دن نت نئے فتنوں کی بہتات اوراہل حق سے منحرف فرقوں کی دسیسہ کاریوں نے امت کو منتشر و مشوش کردیا ہے۔ اس صورتِ حال میں فقہ و فتاوی ایسی لابدی ضرورت ہے ؛جس سے کوئی مفر نہیں،ایک شخص اپنے آپ کومسلمان بھی کہے،یعنی وہ ایک مکمل نظامِ حیات کا پابند بھی ہو اور اسے اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں فتوی کی ضرورت پیش نہ آئے، ایساممکن ہی نہیں؛بلکہ عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق و اعمال میں سیکڑوں ایسے مواقع آتے ہیں،جہاں اسے فتوی کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے اور یقینی طور پر وہ فقہائے عظام اور مفتیانِ کرام کی رہبری کا محتاج ہوتا ہے،ہر شخص کو اپنی منہمک زندگی میں اس قدر مہلت کہاں کہ وہ یکسر قرآن و حدیث کا مطالعہ کرے اور وقت کے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرے۔ایسے میں کسی تجربے کار مفتی اور ماہر علوم شریعت سے مسئلہ دریافت کرنا ایک ناگزیر امر ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×