سیروتاریخ کے مآخذ و مراجع
آٹھویں صدی ھجری کےمشہورمصنف شاعرابوالفداءمتوفی732ھ نےدرست کہاتھا،جس فرداورقوم کاماضی نہیں اس کا مستقبل بھی نہیں ہے۔ ماضی کی تابناک تاریخ کی روشنی سے ہی حال اور مستقبل کی راھیں متعین کی جاسکتی ہیں۔
اسلامی تاریخ کا شمارعلوم نقلیہ میں ہوتاہے اور اس کا احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا رابطہ اورتعلق ہے۔اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کرجب دنیاکے مختلف خطوں میں پھیلنا شروع ھوا اور امتداد زمانہ کے ساتھ لوگوں کاحافظہ کمزور ھوتا گیا،تو سیرو تاریخ کی تدوین وکتابت کی ضرورت پڑی۔ چنانچہ دوسری صدی ھجری میں احادیث مبارکہ،آپ کی سیرت طیبہ اور آپؐ کے شب وروز کو ضبط و مدون کرنے کی تحریک کا آ غاز ھوا، اگر چہ متقدمین کی اکثر کتابیں محفوظ نہیں رہ سکیں،لیکن جو کتابیں تیسری صدی ھجری یا اس کے بعد کے طبقات میں دستیاب ھوئیں،جوجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ، آپ کے اقوال و افعال، آپ کی مکمل طرز زندگی اوراسلامی تاریخ و واقعات نیز مغازی اور فتوحات پر مشتمل تھیں،وہ اپنے بعد کے طبقات اور دور کے لئے ماخذ بنیں،تاریخی مصادر و مراجع سے جہاں تک ثبوت ملتا ھے،اس سلسلہ میں سب سے پہلےعروہ بن زبیر بن عوام متوفی93ھ، ابان بن عثمان بن عفان متوفی 105ھ،وہب بن منبہ متوفی110ھ، کی احادیث اور سیرکی کتابیں منظر عام پر آئیں، جو سیرت اور اسلامی تاریخ کی تدوین کے لیے محرک بنیں۔
اسی دور میں ابن شہاب زھری متوفی 124ھ،جو سیر و مغازی کے بڑے مؤرخ ہیں، علوم سیرومغازی کو وسیع اورمستند کرنےمیں امام زھری کا نام سرفہرست ھے، اس سلسلے میں اپنے شاگرد موسیٰ بن عقبہ متوفی141ھ،محمدبن اسحٰق متوفی151ھ کو اس کام کے لئے تیار کیا، گویا امام زہری سیر و تاریخ میں اختصاص کے لئے مدینہ منورہ کے ”مدرسۂ تاریخ“ کے مؤسس تھے۔
قدیم عرب اورابتداءاسلام کی تاریخ پڑھنے والوں کو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اسلام کے عہد اول کی زیادہ تر تاریخ سماع اور مشاہدہ پر مبنی ھے۔ اسی وجہ سے اس دورکی یادداشت کو محفوظ اور مدون کرتے وقت مؤرخین نے سند، یعنی نقلِ زبانی کا اھتمام کیا،وھی حفاظ و مشاہدین،تاریخ اور مؤرخ کے درمیان مضبوط واسطہ تھے،بلکہ خبرا ورواقعہ کی صحت کے لئے معیارتھے، یعنی تاریخ کی تدوین و ترتیب اور اس کی حفاظت کے لیے وھی طریقے اور اصول وضع کئے گئے، جو تدوین احادیث کے لئے اس وقت کےائمۂ حدیث اور ائمۂ جرح و تعدیل نے اختیار کر رکھا تھا،تاکہ احادیث کو جمع کرنے والوں کے قلوب، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے احادیث کے اتصال کے سلسلے میں مطمئن ہو جائیں۔ اسی معتمد ومستند طریق کو اسلامی تاریخ نگاری کے لئے بھی ستون بنایاگیا، یہاں تک کہ اکثر تاریخ ان ہی رواۃ حدیث کے حافظہ کی بنیاد پر مرتب کی گئی،جن کی قوت حافظہ،ثقاھت اور استناد کی تصدیق ائمۂ جرح وتعدیل نےکردی ہوتی،جبکہ سیئی الحافظہ، متہم بالکذب،غافل اور گھڑنے والوں سے جس طرح ائمۂ حدیث نے دوری بنارکھی تھی،مؤرخین نے بھی ان کی کسی یادداشت کو تسلیم نہیں کیا، البتہ خبروں کا احاطہ کرنے والوں کو مؤرخ اور احادیث روایت کرنے والوں کو محدث کے نام سے شہرت ملی۔
چنانچہ مشہور سیرت نگارمحمد بن اسحق متوفی152ھ کی”سیرت ابن اسحق“سب سے پہلے منظر عام پر آئی،جو سیر ومغازی میں اولین مآخذ ہے۔ابوبکر محمدبن اسحق بن یسار مدنی قریشی85ھ میں مدینہ منورہ میں پیداہوئے اور154ھ میں مدینہ منورہ ھی میں ان کا انتقال ہوا۔وہ پہلے اسلامی مؤرخ ومحدث ہیں،جنہوں نے ابن شہاب زھری متوفی 124ھ اور یزید بن حبیب متوفی 128ھ کی پیروی کرتے ہوئے سیرت لکھی۔ اسی سیرت کو بنیاد بناکر ابن ھشام متوفی 218ھ،امام طبری متوفی 310ھ اور ابن کثیر متوفی 774ھ نے تاریخ مرتب کی ہے۔محمدنے اپنے والد اسحق سے عہد شباب میں ہی احادیث روایت کی ہیں اور اسی زمانہ میں مدینہ منورہ کے کبار محدثین ،جو پہلی یادوسری صدی ھجری کے روایت حدیث کے سلسلہ میں مرجع الخلائق تھے،مثلاً قاسم بن محمدبن ابوبکر صدیق متوفی 107ھ،ابان بن عثمان بن عفان متوفی105ھ،محمدبن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب متوفی 114ھ، نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر متوفی117ھ،سعیدابن المسیب متوفی 94ھ،محمدبن مسلم بن شہاب زھری متوفی 124ھ سے احادیث روایت کی،جبکہ سعیدالمقبری متوفی125 ھ اور اعرج متوفی 117 ھ سے بیشتر روایات کا سماع کیا اور اس وقت زبانی مصادر سے جس قدر احادیث دستیاب تھیں ،ان کو جمع فرمایا۔ابن اسحق نے روایات کو جمع کرنے میں صحت واستناد کو بنیاد نہ بناتے ہوئے زیادہ سے زیادہ روایات جمع کرنے کو ترجیح دی،ان کے بارے میں آتاکہ ہے کہ انہوں نے صحابی جلیل حضرت انس بن مالک ؓ متوفی179ھ،سید التابعین سعید ابن المسیب متوفی 94ھ، جو ان کے مشہور شیوخ میں تھے، عبدالرحمن بن ھرمز متوفی 117ھ، عمروبن شعیب متوفی118ھ محمدبن ابراھیم تیمی متوفی 120ھ ابو جعفرالباقر متوفی 114ھ،عبداللہ بن ابی بکر بن حزم متوفی 135ھ، محمد بن المنکدر متوفی 130ھ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مدینہ منورہ میں گذار کرجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اداھوئی اور اس وقت کے متداول ذرائع سے احادیث شریفہ کو اپنے شیوخ واساتذہ سے سن کر جمع فرمایا۔جب وہ 151ھ میں مدینہ منورہ سے اسکندر یہ،پھر کوفہ، اس کے بعد بغداد میں قیام پذیرہوئے تواس وقت کے عباسی خلیفہ ابوجعفرمنصور متوفی158ھ کی درخواست پرسیر ت کی کتاب لکھی، جو کتب سیر و مغازی کے لئے شجرۂ طوبیٰ ثابت ہوئی۔ چنانچہ امام شافعی متوفی204ھ کہتے ہیں ”جسے مغازی میں دسترس حاصل کرنا ہووہ ابن اسحق سے بے نیاز نہیں ہوسکتا“، امام زھری فرماتے ہیں ”جسے مغازی پڑھنا،جانناہو،اسے ابن اسحق کو لازم پکڑناچاہئے“، ابن اسحق نے اپنی کتاب میں تین ادوار کو لیاہے، اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت،بعثت رسول پہلی ہجری تک،مغازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔یہ پہلے مؤرخ ہیں جنہوں نے مغازی کو مکمل تصنیف کے ذریعہ امت کے سامنے پیش کیا۔ امام ذہبی متوفی748ھ کہتے ہیں ”مغازی میں ابن اسحق ایک پہچان اور شناخت ہیں“، سیرت ابن اسحق تصنیف وتالیف اورسیرت نگاری سے لے کر تاریخ نگاری کی دنیائے علم میں روشنی بن کر چمکی۔
ابن اسحق کے بعد تیسری صدی ھجری میں ہی محمد بن عمر الواقدی متوفی 207 ھ کی”السیرۃ“اور ”کتاب المغازی“ سیرت ومغازی کے لئے مآخذ کے طور پر متعارف ہوئیں،سیرت نبوی اور مغازی میں واقدی کی ثقاہت پر اہل علم کا اتفاق ہے۔واقدی تاریخی واقعات و حقائق کی تحقیق و جستجو اور جغرافیہ کی تعیین میں ابن اسحق سے بھی فائق تھے۔ انہوں نے حجاز و شام کے اپنے زمانہ کے صغار تابعین، امام اوزاعی متوفی 157ھ،ہشام بن الغاز متوفی153ھ،ثور بن یزید متوفی153ھ،معاویہ بن صالح متوفی 185ھ،معمر بن راشد متوفی 153ھ،ابن ابی ذئب متوفی 159ھ،ابو سفیان الثوری متوفی 161ھ،ابو بکر بن ابی سبرہ متوفی 162ھ جیسے اساطین علم شیوخ سے حدیث،سیرت،مغازی اور تاریخ کے علوم کو حاصل کیا۔واقدی قرآن کریم، قضا، فقہ و فتاوی اور نحو کے بھی بڑے عالم تھے،واقدی اپنے علم و فضل کے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں گیہوں کی تجارت کرتے تھے، اسی زمانہ میں امام مالک متوفی 179ھ سے بھی حدیث میں اکتساب فیض کیا، البتہ سیر و مغازی اور تاریخ میں ان کےسب سے مشہور استاذ و شیخ ابو معشر السندی متوفی 170ھ ھیں۔امام واقدی کے شاگردوں میں ابوبکر بن ابی شیبہ متوفی 235ھ،ابو بکر محمد بن اسحق الصغانی متوفی 152ھ، واقدی کے کاتب محمد بن سعد متوفی 230ھ، ابو حسان الحسن بن عثمان الزیادی متوفی 242ھ،احمد بن رجاء الفریابی متوفی 112ھ،محمد بن یحیٰ الأزدی متوفی 243ھ، سلیمان الشاذکونی متوفی 234ھ، احمد بن الخلیل البرجلانی متوفی 277ھ، ابو عبید القاسم بن سلام متوفی 224ھ اور امام شافعی متوفی 204ھ جیسے بلند پایہ اصحاب علم و فضل کے نام ملتے ہیں۔
امام واقدی کثیر التصانیف تھے، ابن ندیم متوفی 384ھ نے ”کتاب الفہرست“ میں ان کی تقریبا چالیس کتابوں کا ذکر کیا ہے،جن میں اکثر سیر و مغازی اور تاریخ پر ہیں،اگر چہ ان میں اکثر نایاب ہیں،البتہ”کتاب السیرۃ“ اور”کتاب المغازی“ ان کی آخری تصانیف میں ہیں، جو اپنے بعد کے طبقۂ مؤرخین میں دستیاب ہو کر”سیرت ابن اسحق“ کی طرح ماخذ کے طور پر مشہور ہوئیں، واقدی نے ”کتاب المغازی“میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور پہلی اور دوسری ھجری کے غزوات و فتوحات کو تاریخ کے ساتھ بیان کیا ہے،ابن اسحق نے جن غزوات و واقعات کا ذکر بغیر تاریخ کے کیا ھے،مثلا غزوۂ بنی قینقاع، غزوۂ دومۃ الجندل، واقعۂ قتل کعب بن اشرف،غزوۂ ذات السلاسل،سریۂ علی بن ابی طالب برائے یمن جیسے متعدد واقعات اور غزوات و سرایا کوتاریخ کے ساتھ بیان کرتے ہوئے، واقدی نے کتاب المغازی کو مزید مستند اور مفید بنا دیا ہے۔واقدی اپنے منفرد اسلوب نگارش اور تحقیق و تدقیق واقعات کی وجہ سے بعد کے مؤرخین اور سیر و مغازی کی کتابوں کے لئے ایک مثال ہیں، ان سے پہلے کسی اور مؤرخ اور مراجع میں ایساتحقیقی اندازنہیں ملتا ہے۔خطیب بغدادی متوفی462ھ،کہتے ہیں ”واقدی کسی واقعہ کو اس وقت تک نہیں لکھتے جب تک کہ اس جگہ کا معائنہ نہ کر لیتے“، امام ذھبی متوفی748ھ، لکھتے ہیں ”سیر و مغازی اور تاریخ میں واقدی ممتاز حافظہ کے مالک تھے“، ابن سعد،واقدی کے شاگرداور کاتب تھے اور کاتب الواقدی کے نام سے ان کو شہرت ملی،ابن سعد کی”طبقات الکبیر“ میں مغازی اور واقعات کی اصل سند ،واقدی ھی ھیں، امام طبری متوفی 310ھ نے تاریخ طبری میں جگہ جگہ واقدی کے اقتباسات اور حوالے دیے ہیں۔
ابن الکلبی متوفی 204ھ، واقدی کے دور کے ھی بڑے مؤرخ،انساب اور اخبار عرب کے بڑے عالم تھے،ان کے بعد کے مؤرخین، انساب میں ابن الکلبی کے عیال ھیں،علماء اور مؤرخین نے ان کو محمد بن سعد،محمد بن جریر طبری اور امام مسعودی متوفی346ھ کے ہم پلہ بتایا ہے۔ یاقوت الحموی متوفی 622ھ نے اپنی کتاب”معجم الأدباء“ میں جزیرۃ العرب کی تقسیم اورعلم انساب میں ابن الکلبی پر اعتماد کیا ھے،اسی طرح ابن عبد البر متوفی 463ھ نے اپنی کتاب ”الاستیعاب“ اور امام ذہبی نے واقعات و انساب میں ابن الکلبی پر اعتماد کیا ہے، نیز ابن الاثیر متوفی 630ھ نے اپنی کتاب ”الکامل فی التاریخ“ میں اسلام سے پہلے اور اس کے بعد کے واقعات وسوانح اور واقعات کے سلسلے میں ابن الکلبی کو معیار بتا یا ہے،یعنی علم انساب کے سلسلے میں امام بخاری متوفی 256ھ، امام احمد بن حنبل متوفی241ھ، ابن قتیبہ متوفی 276ھ اور بلاذری متوفی 279ھ سمیت تمام محدثین اور مؤرخین نے ان پر اعتماد کیا ہے۔
تیسری صدی ہجری کے نامورمؤرخ ابومحمد عبدالملک بن ھشام بن ایوب الحمیری البصری متوفی 218ھ کی مشہور زمانہ تصنیف اور سیرت رسول اکرم کا بنیادی مآخذ”سیرت ابن ہشام“ منظر عام پر آئی،جس میں اکثر روایات انہوں نے اپنے شیخ واستاذ زیاد بن عبداللہ البکائی متوفی 183ھ کے واسطے سے کی ہیں۔،ابن ہشام نے سیرت ابن اسحق کے ا ندرپائے جانے والے اسرائیلی واقعات واشعار، جن سے اس زمانہ کے کبار اہل علم واقف نہ تھے، یا ان سے سند یافتہ نہیں تھے اور نہ ہی سیرت نبوی سے متعلق تھے، انہیں حذف کر کے اسے مزید محقق اور مستند بنا دیا، اسی طرح شیخ بکائی سے جوروایات مروی ہیں، ان میں صحت کے اعتبارسے جو مستند تھیں، انہیں انتہائی امانت اور دقت نظر کے ساتھ الگ الگ کیا اور روایات کو لینے میں اسی منہج پر اعتماد کیا، جو علم وامانت کے اعتبارسے مضبوط تھا۔ابن ھشام نے صرف روایات کو جمع ہی نہیں کیا، بلکہ ان کی منطقی ترتیب بھی دی، شخصیات،مثلاً انبیاء کرام علیہم السلام کا جہاں بھی ذکر ہے،ان کی تاریخ اور جائے پیدائش کا بھی ذکر کیا۔ابن ہشام نے ابن لہیعہ متوفی 74ھ کی کتاب”اخبار ِ مصر“پربطور ماخذاعتماد کیا۔ ابن لہیعہ دیار مصر کے بڑے عالم تھے، جس طرح اس زمانہ میں امام مالک بن انس متوفی 179ھ مدینہ منورہ کے، امام اوزاعی متوفی 157ھ شام کے، معمربن راشد متوفی 153ھ یمن کے،شعبہ متوفی 160ھ اور امام ثوری متوفی 161ھ عراق کے اور ابراہیم بن طہمان متوفی 163ھ خراسان کے بڑے عالم تھے۔ ابن ھشام نے جغرافیائی معلومات بھی بہم پہونچائیں، اسانید کو ذکر کرتے ہوئے انہوں نے باربار حدثنا اور حدثنی کے الفاظ بیان کئے ہیں،جن سے ان کے کمال احتیاط کا اندازہ ہوتاہے۔ سیرت ابن ہشام کی متعدد مرتبہ تلخیص اور اس کی شروحات لکھی گئیں، ان میں ابوالقاسم سہیلی متوفی 805ھ کی مشہور تصنیف "الروض الانف” بھی ہے،جو دنیائے علم وتاریخ کے لئے قیمتی سرمایہ ہے،سیرت ابن ہشام دنیابھر میں اپنے اصل مآخذ سیرت ابن اسحق سے زیادہ متعارف ہوئی، سیرت مبارکہ کے ماخذ میں اس کتاب کو سب سے زیادہ شہرت اور اعتماد حاصل ہے۔
اسی دور میں تدوین تاریخ کا دائرہ وسیع ھوااورتاریخ ایک مستقل علم بن کر لوگوں کے ذہنوں میں مرتسم ہوا،نیز تاریخ نے خالص امور دین کی حدود سے نکل کر اپنا مستقل وجود بنالیا،تو حقیقی تاریخی موادکا ذکر ہی کافی سمجھاجانے لگا،البتہ تاریخی حقائق و واقعات کو قرطاس و قلم میں لانے کے لئے ان مصادر ومراجع کا ذکر ضروری قرار دیا گیا، جن کا اتصال پہلی یادوسری صدی ھجری کے مآخذ سے ہو۔
چنانچہ تیسری صدی ھجری میں جب عباسی خلافت منقسم ہوکر دنیاکے مختلف علاقوں اور ریاستوں میں پھیل گئی،اس کے اسباب اور تاریخی حیثیت کو بیان کرنے کے لئے عبدالرحمن بن الحکم متوفی 257ھ کی کتاب ”فتوح مصر والمغرب“ منظر عام پر آئی۔
تیسری صدی ھجری اور عہد عباسی کے بڑے مؤرخ،شاعراور علم انساب کے ماھر، البلاذری متوفی279ھ کی ”فتوح البلدان“بھی اہم ترین تصنیفات میں ھے،عربی زبان میں تاریخ کی یہ قدیم ترین کتاب ھے،جو بلاذری کے ”البلدان الکبیر“ کاا ختصار ہے، اس میں انہوں نے اسلام کے عہد اول سے ھی غزوات اور مسلمانوں کے مفتوحہ اسلامی ممالک کا تذکرہ کیا ہے۔
عباسی دور خلافت اور تیسری صدی ھجری میں نامور مسلم جغرافیائی مؤرخ کے طور پر الیعقوبی متوفی 284ھ کو شناخت حاصل ہوئی، ”تاریخ یعقوبی“ اور ”کتاب البلدان“ ان کے بڑے علمی کارناموں میں سے ھیں، انہوں نے اس میں زمانۂ جاہلیت کے قبائل اور 285ھ تک کی تاریخ اسلام لکھی ہے،جس میں بغداد جیسے اسلامی ممالک کے بڑے بڑے شہروں کی تاریخ تفصیل سے ہے۔ یعقوبی نے آرمینیا اور خراسان میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گذارا ،جب کہ مغرب، مصر اور ہندوستان کا بھی سفر کیا۔
چوتھی صدی ھجری کے مشہور مؤرخ، مفسر اور فقیہ محمد بن جریر الطبری متوفی310ھ کی”تاریخ الامم والملوک“ جو”تاریخ طبری“ کے نام سے مشہور ھے، ذخیرۂ تاریخ کے لئے مرجع اور مصدر کی حیثیت سے منظر عام پر آئی، احکام قرآن، قرات قرآن کریم اور حلال و حرام اور دیگر موضوعات پرامام طبری کی متعدد تصانیف ہیں، البتہ ”جامع البیان فی تاویل القرآن“جو تفسیر طبری کے نام سے مشہور ہے،اور ”تاریخ طبری“نے غیر معمو لی شہرت حاصل کی، امام نووی متوفی676ھ فرماتے ہیں ”امت کا اس پر اتفاق ہے کہ طبری کے مثل کوئی تصنیف نہیں ہے“،خطیب بغدادی کہتے ہیں ”ان کے مثل ہماری آنکھوں نے کم دیکھا ہوگا“،ابن خلکان متوفی 481ھ نے طبری کو عالم مجتہد، ثقہ، صاحب فقید المثال تصانیف،تفسیر و فقہ کے امام اور تاریخ کی پہچان ماناہے۔تاریخ طبری بھی اپنے بعد کے دور کے لئے نہ صرف مثالی ہے، بلکہ بڑے مؤرخین نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تاریخ نگاری کی کوشش کی ہے۔
چوتھی صدی ھجری کے مشہور مؤرخ محمد بن سعدمتوفی 320ھ کی "طبقات الکبیر“کو بھی سیر و تاریخ اور سوانح کے لئے مرجع کی حیثیت حاصل ہے، اگر چہ ان کے استاذ، واقدی کی اس موضوع پر ”کتاب الطبقات“ کا ذکر ملتا ہے،لیکن یہ کتاب دستیاب نہ ہو سکی، البتہ ابن سعد نے اس سے استفادہ کیا ہے، طبقات اور سوانح پر یہ پہلی کتاب ہے، جس میں انہوں نے مدینہ منورہ کے علما،اہل فقہ و فتاوی، قرّاء اور جمع قرآن کریم پر مامور حضرات صحابہ کرامؓ کا سوانحی خاکہ پیش کیا ہے،ان کے علاوہ تابعین،تبع تابعین،فقہاء اور علماء کاذکر حسب مرتبہ و درجات کیا ہے، اس میں انہوں نے تقریبا4,725ناموں کا احاطہ کیا ہے۔یہ کتاب قدیم ترین ان ماخذ کتابوں میں ہے ،جس میں مصنف نے رواۃ حدیث کی ثقاہت و ضعف اور جرح و تعدیل کے سلسلے میں کلام کیا ہے۔ابن سعد نے ناموں کی تقدیم و تاخیر کے سلسلے میں قدیم الاسلام اور جدید الاسلام کے پیمانے کو روا رکھا ہے۔
چوتھی صدی ہجری میں ھی ابوالحسن علی بن حسین بن علی متوفی 346ھ جو امام مسعودی کے نام سے مشہور ہیں،ان کی شہرت یافتہ کتابیں ”مروج المذہب“ اور ”معادن الجوہر“ منظر عام پر آئیں۔مسعودی نے اس میں چین،ھندوستان ترک اور یورپی تاریخ کا احاطہ کیاہے۔ انہوں نے اسلامی اورغیر اسلامی مشرقی ممالک کا سفر کرکے، وہاں سے متعلق خبریں،تاریخ اورقیمتی معلومات، جو ایک طرف جغرافیائی اعتبار سے صحیح تھیں اور دوسری طرف تاریخی اعتبارسے مستند بھی، ان کو جمع کیا۔مؤرخین کو یقین ہے کہ ان کے بعد ہی ہندوستان،چین اور ترک کی تاریخ نگاری میں غلطیاں ہوئی ہیں۔کندی متوفی 350ھ کی کتاب ”الولاۃ“ بھی اسی عہد کی ایک اہم ترین کتاب ہے۔
پانچویں صدی ھجری کے مشہور مؤرخ احمد بن علی بن ثا بت متوفی462ھ جو خطیب بغدادی کے نام سے مشہور ہیں،ان کی معرکۃ الآرا ء کتاب ”تاریخ بغداد“ سے تاریخی دنیا میں گراں قدر اضافہ ھوا، جس میں تقریبا پانچ ہزار محدثین کرام کی مکمل سوانح درج ہے، انہوں نے اس میں ایسی انتیس کتابوں کا بھی ذکر کیا ہے،جس کا احاطہ ابن ندیم نے ”کتاب الفہرست“ میں نہیں کیا۔ اس لئے تاریخ بغداد کو اسلامی تاریخ کے لئے بڑا علمی خزانہ اور بنیادی ماخذ بتایا گیا ہے، اس وقت کے ہم عصر علماء نے ان کے بارے میں کہا ہے کہ” تاریخ بغداد کے علاوہ خطیب بغدادی کا کوئی اور علمی کارنامہ نہ ہوتا تو کافی تھا“، اس کتاب سے ان کے تبحر علمی، وسیع تاریخی معلومات اور متعدد علوم و فنون پر دسترس کا اندازہ ہوتا ہے۔
ابن عساکر متوفی 571ھ کی”تاریخ دمشق” جو تقریبا 80جلدوں پر مشتمل ہے،پانچویں صدی ہجری میں منظر عام پر آئی،یہ کتاب تاریخ کی کتابوں میں اب تک سب سے بڑی اور ضخیم تصنیف ہے۔ ابتدائے اسلام سے لے کرمصنف کی وفات 571ھ تک،رواۃکی سوانح، دمشق یا اس کے قریب جو بھی قیام پذیر ہوا، یا دمشق سے ہو کرجو بھی گذرا،سب کی تفصیلات درج ہیں،”تاریخ دمشق“ کا اسلوب ”تاریخ بغداد“ کے مثل ہے، ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس عظیم تصنیف کے لئے عمر کافی نہیں ہے، یعنی مختصر سی عمر میں اس طرح کی بسیط تصنیف امر محال ہے،اس کتاب کو جہاں تاریخی اہمیت حاصل ہے، عربی ادب کے لئے مثال بھی۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور اورساتویں صدی ہجری کے بڑے مؤرخ ابن اثیر متوفی630ھ کی کتاب ”الکامل فی التاریخ“ نے دنیاکو مزید علم تاریخ سے متعارف کرایا، ابن اثیر نے اپنی کتاب میں صرف تاریخی مواد کا ذکر نہیں کیا، بلکہ اس میں ایک ناقد اور باخبر مؤرخ کا کردار اداکیا ہے، اس میں صلیبی جنگوں کا بھی تفصیل سے ذکر ہے۔الکامل کی خصوصیت یہ ہے کہ”تاریخ طبری“ 302ھ میں آ ئی، اس کے بعد تین صدی کے دور میں اگر چہ تاریخ کی بیشتر کتابیں منظر عام پر آئیں،لیکن ابن اثیر کی ”الکامل فی التاریخ“ان میں سب سے منفرد اور جامع ہے۔
آٹھویں صدی ہجری میں رشید الدین فضل اللہ الہمذانی متوفی 718ھ کی ”جامع التواریخ“ شائع ہوئی، اس کی پہلی جلد کاعنوان تاریخ غزنی سے شروع کیاگیاہے، اس میں مغل کی پوری تاریخ لکھی گئی ہے۔
نویں صدی ہجری کے ممتاز و مشہور مؤرخ عبدالرحمن بن خلدون متوفی 808ھ جن کو دنیا ابن خلدون کے نام سے جانتی ہے،ان کی”تاریخ ابن خلدون“ منصۂ شہود پرآئی،ابن خلدون کے نزدیک تاریخ،خبروں اور گردش زمانہ کے احاطہ کا ہی نام نہیں ہے،بلکہ حقائق و اسباب پر نقد و بحث بھی تاریخ ہے، اس پیمانہ کو کسی بھی مؤرخ کے لیے ابن خلدون نے ضروری قرار دیا، اسی وجہ سے ابن خلدون کو دنیا ایسے مؤرخ کے طور پر جانتی ہے، جنہوں نے تاریخ کے موضوع و فلسفہ کو ہمہ جہت گیرائی بخشی، جب کہ مقدمہ ابن خلدون کا ایک الگ امتیاز ہے،اس کتاب کو تاریخی دنیا میں قبولیت عامہ حاصل ہوئی۔
نویں صدی ھجری میں احمدبن علی المقریزی متوفی 845ھ کی تاریخ پر ایک ضخیم کتاب ”المواعظ والاعتباربذکر الخطط والآ ثار“ منظر عام پر آئی،جس میں انہوں نے مصر اور اسلامی مشرقی ممالک کی تاریخ لکھی ہے، مؤرخین کا گمان ہے کہ مقریزی کی تاریخ نگاری کا اسلوب نیا اور ممتاز ہے، جوانہوں نے اپنے استاذابن خلدون سے حاصل کیاتھا،ابن خلدون اور مقریزی کے درمیان گہرا علمی رابطہ تھا، جب کہ نویں صدی ہجری ہی کے بڑے مؤرخ احمدبن علی جو ابن حجر عسقلانی متوفی 852ھ کے نام سے مشہور ہیں، کی کتاب ”انباءالغمر بابناء العمر“منظر عام پر آئی،یہ کتاب اپنے زمانہ کے بنیادی مراجع میں شمار کی جاتی ہے، اس میں انہوں نے حکومتوں اور ان کی سیاست عامہ کی اہم معلومات لکھی ہیں، اسی زمانہ کے بلند پایہ محدث اور مؤرخ ابو محمد بدر الدین عینی متوفی 855ھ کی کتاب”عقدالجمان فی تاریخ اہل الزمان“ نےتالیف ہوکر علمی وتاریخی اثاثوں میں وقیع اضافہ کیا، امام عینی کی یہ کتاب ان کی اہم اور بڑی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔
دسویں صدی ھجری میں عبدالرحمن سخاوی متوفی 901ھ کی کتاب ”الاعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ“ لکھی گئی، اس میں انہوں نے تاریخی روایات کی سندوں میں جرح وتعدیل کے تعلق سے بحث کیاہے، اسی زمانہ کے بڑے مؤرخ محمدبن احمدبن ایاس متوفی 930ھ نے ”بدائع الظہورفی وقائع الدھور“کے نام سے کتاب لکھی، اس میں انہوں نے مصرمیں ابتدائی عثمانی دور کی تاریخ لکھی ہے۔
حاجی خلیفہ متوفی1017ھ،جو گیارہویں صدی ھجری کے مشہور مؤرخ و مصنف ہیں،ان کی مشہور زمانہ کتاب ”کشف الظنون عن اسامی الکتب و الفنون“ منظر عام پر آئی،حاجی خلیفہ مؤرخ عثمانی کے نام سے مشہور ہیں، اس کتاب میں انہوں نے ہزاروں کتابوں کے نام اور ان کے مصنفین کا ذکر کیا ہے، اسلامی تاریخ لکھنے والوں کے لئے یہ کتاب بنیادی ماخذاور انسائکلو پیڈیا ہے، مصنف نے اس کی ترتیب میں تقریبا بیس سال لگائے،اور اس کی پہلی جلد 1046ھ میں منظر عام پر آئی۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اپنے پیش رووں کوپڑھنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تاریخ پڑھی جاتی ہے،کسی مؤمن کی تاریخ کو محفوظ کرنا ،اس کو زندہ رکھنے کے مرادف ہے، اور یہ بھی مسلمات میں ہے کہ تاریخ کا کچھ حصہ پڑھنا،جاننا،مکمل تاریخ سے نا واقف رہنے سے بہتر ہے،اس لئے کہ بعض کا علم، مکمل جہالت سے بہتر ہے، سیر و تاریخ کے تمام مآخذ و مراجع اور مؤرخین کا احاطہ یہاں ممکن نہیں ہے،اور نہ ھی اس تحریر کا یہ مقصد ھے،اس لئے کہ عہد نبوی سے لے کر آج تک آنے والی ہر صدی میں سیر و تاریخ پر متعدد ضخیم کتابیں نئے انداز و اسلوب کے ساتھ امت کے درمیان آتی رہی ہیں،یہاں صرف چند مؤرخین اور ان کی گراں قدر تصنیفات کا ذکر کیا گیا ہے،تا کہ قاری کو ان سطور سے سیر و تاریخ کے مطالعہ کے لئے تحریک اور قوت ملے۔
مذکورہ کتابیں سیر و تاریخ کےلئے مآخذو سرچشمہ اور مینارۂ نور ھیں، ان سےعلم وحکمت کے پھوٹےسوتوں سےھم اپنی علمی پیاس بجھاسکتے مآخذ و مراجع
سیر اعلام النبلاء/امام ذہبی،کتاب السیرۃ و المغازی/عبد الملک بن ہشام،الروض الانف/ابو القاسم سہیلی،تاریخ بغداد/خطیب بغدادی،وفیات الاعیان/ابن خلکان،معجم الادباء/یاقوت الحموی، البدایہ و النہایہ/ابن کثیر،الطبقات الکبریٰ/ابن سعد،تاریخ دمشق/ابن عساکر،کشف الظنون/حاجی خلیفہ،التاریخ و المؤرخون العرب/عبد العزیز سالم،المغازی الاولیٰ و مؤلفوھا/ حسین نصار، الموجز فی مراجع التراجم و البلدان و المصنفات و تعریفات العلوم/محمود محمد الطناجی،الکامل فی التاریخ /ابن کثیر،انباء الغمر بابناء العمر /ابن حجر العسقلانی،انساب الاشراف/البلاذری، تہذیب التہذیب/ابن حجر العسقلانی، الوافی بالوفیات/الصُّفدی، تذکرۃ الحفاظ/امام ذہبی وغیرہ ھیں ۔