ہجری سال ِنوکا پیغام
ماہ ِ ذی الحجہ پر اسلامی سال مکمل ہوتا ہے اور ماہ ِ محرم الحرام سے اسلامی نئے سال کی شروعات ہوتی ہے۔عام طور پرمسلمانوں اور بالخصوص نوجوانوں کو اس کا علم نہیں رہتا ہے۔عیسوی سال کی شروعا ت پر تو خوب جشن وچراغاں کیا جاتا ہے ،اور بہت دھوم دھام سے سال ِ نو کا آغاز کیا جاتا ہے ،لیکن اسلامی کیلنڈ ر کی شروعات کب ہوتی ہے ؟کس طرح اسلامی کیلنڈر کاآغاز ہواان باتوں سے لاعلم وبے خبر ہوتے ہیں۔جب کہ ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ہم اپنی اسلامی تاریخ سے واقف رہیں اور اسلامی ماہ وسال کانہ صرف علم رکھیں بلکہ ان کو استعمال کرنے کی بھی پوری فکر وکوشش کریں ۔آئیے بہت مختصر جائزہ اسلامی کیلنڈر اور اس کے آغاز کا لیتے ہیں۔
جب اسلام کا دامن دنیا میں پھیلنے لگا،اور دوردراز کے علاقوں میں پرچم ِ اسلام لہرانے لگا،تو اسی طرح عمال و حکام مختلف شہروں سے خلیفۂ وقت اور امیر المؤمنین حضرت عمر ؓ سے بہت سے امور میں خط و کتابت بھی کرتے،اور دیگر حال واحوال کی اطلاعات بھی پہونچاتے۔اور جب حضرت عمرؓ کی خلافت کو شروع ہوئے ڈھائی سال کی مدت گذر چکی تو ایک مرتبہ سیدنا عمر ؓ کے پاس ایک چک آیا جس پرصر ف شعبان کا مہینہ لکھا ہوا تھا،جب آپ کے سامنے وہ پیش ہو ا تو آپ نے فرمایا کہ شعبان سے مراد کون سا گذرا ہوا،موجودہ یا آنے والا؟اس واقعہ کے بعد آپؓ نے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا تاکہ اس مسئلہ کا کچھ حل نکا لا جائے ۔آپ نے صحابہ کے مجمع میں فرمایا کہ ہمیں کس سن سے تاریخ کا آغازکرنا چاہیئے ؟اور پھر مشاورت شروع ہو ئی تو مختلف صحابہ نے الگ الگ رائے پیش کی۔کسی کہا کہ اہل ِ روم کی تاریخ پر شروع کریں ،کہا کہ یہ تو بہت طویل ہوجائے گی کیوں کہ وہ تو ذوالقرنین سے اپنی تاریخ لکھتے ہیں۔کسی نے اہل ِ فارس کی متابعت کے لئے کہا۔بالآخر حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ اس دن سے اسلامی سن آغاز کیا جائے جس دن رسول اللہﷺ نے شرک کی سرزمین کو چھوڑایعنی ہجرت سے۔حضرت عمر ؓ نے اس رائے کو قبول فرمایا اور سب نے اس پر اتفاق بھی کرلیا،اس طرح سن اسلامی کا آغاز ہجرتِ رسول اللہ ﷺ سے کیا گیا۔(امیر المؤمنین عمر بن الخطاب :۶۱ لابن الجوزی ؒ)اور ماہِ محرم الحرام سے سال کی ابتداء طے پائی کیوں کہ محرم سے ہجرت کی تیاری شروع ہوچکی تھی۔
سن ہجری کا قیام ،اور مسلمانوں کو اپنی تاریخ سے وابستہ رکھنے میں حضرت عمر ؓ کا یہ بھی ایک کارنامہ ہے کہ آپ کی فراست نے اس کو حل کردیا،اور اللہ تعالی نے آپ کو جہاں اور سارے اہم امور کو طے کرنے کا خاص ملکہ عطا کیا تھا،اسی ذوق اورمزاج سے ایک ایسی تاریخ سے جوڑ دیا جو ہر قدم پر ایمان والے کو دعوت ِ فکر و عمل دیتی ہے،قربانیوں کی بنیاد پر تعمیر کی گئی اسلام کی اس حسین عمارت کے بقاء و تحفظ،اور ایثار فداکاری کے جذبۂ فراواں کے ساتھ سینچے گئے اس گلشن ِ اسلام کی حفاظت کا انمول سبق دیتی ہے۔اور اس تاریخ کا ہر ماہ بے شمار عبرتوں کے پیغام کے ساتھ جلوہ فگن ہوتاہے،خدا جانے کن کن فکروں اور امیدوں کے ساتھ نبی ﷺ کے ان جیالوں نے آنی والی نسلوں کو اسلامی تاریخ مہیا کرنے کے لئے ہجرت کے واقعہ کو خاص کر اپنایا؟بلاشبہ اسلامی ماہ وسال سے وابستگی کی بنیاد پر یہ امت اپنے اسلاف واکابر کی قربانیوں سے واقف رہے گی،اور اعمال افعال سے منسلک رہے گی،ورنہ تاریخ کے روشن باب،اور دلآویز واقعات کی حسین روداد دوسروں کی تہذیب و ثقافت میں دب کر رہ جائے گی۔اب جب کہ اسلامی سال کا آغاز ہوگیا، اس لئے ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے اسلامی سال کو بھی اپنی تاریخوں میں استعمال کریں۔
اسلامی سال کی شروعا ت جب ہوتی ہے کیاخوب سادگی اور قربانیوں کا سبق دیا جا تا ہے اس کو بھی ملحوظ رکھنا چایئے، اسلامی سال کے آخری مہینہ میں مسلمان قربانی جیسی یادگار اور حج جیسے عظیم فریضہ کی ادائیگی سے فارغ ہوتے ہیں ،اور اسی مہینہ میں نبی کریم ﷺ کے داماد ذو النورین حضرت عثمان غنی ؓکی المناک شہادت کا واقعہ رونماں ہوا،پھر سال کی شروعات ہوئی کہ پہلی ہی تاریخ کو امیر المؤمنین حضرت عمر ؓ کی شہادت پیش آئی ،اسی مہینہ میں نواسہ ٔ رسول ﷺ سیدنا حسین ؓ کی الم انگیز شہادت کا دلخراش حادثہ ہو ا، ایک مسلمان کو اپنے اسلامی سال کی شروعات سے سبق لینا چاہیے اور قربانیوں ،شہادتوں اور ایثار ووفاداریوں سے عبرت حاصل کرنا چاہیے ،ہم مسلمانوں کو وقتی ،عارضی اور مادی خوشیوں کے بجائے نگاہوں کے سامنے دائمی اور لافانی کامیابیوں اور مسرتوں کو رکھنا چاہیے کہ جس کے لئے ہر قربانی دینا اور خواہش کو تج دینا آسان ہوتا ہے ۔نیا سال عبرت اور موعظت کا پیغام ہے کہ اس کے ذریعہ عمر مقرر کے ماہ و سال میں کمی ہوئی ہے ،اور انسان اپنی آخری منزل کی طرف قریب ہورہا ہے اور بہت جلد وہ وقت بھی آجائے گا کہ وہ بھی تاریخ کا ایک حصہ اور ماضی کا ایک جز بن کر رہ جائے گا۔
اسلامی سالِ نو کے ذریعہ ہمیں یہ سبق دیا جاتا ہے کہ صبر و برداشت کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیں، حالات چاہے کتنے بھی کٹھن ہوں،مشکلات چاہے کتنی بھی خطرناک ہوں،اپنے ایمان میں ذرہ برابر کمی آنے نہ دیں۔آپ ﷺ کی مکی زندگی کا اگر ہم جائزہ لیں گے تو اس میں جگہ جگہ ظلم و ستم کے مقابلے میں صبر و تحمل،حالات ومصائب کے مقابلے میں ہمت وجرأت،مایوس کن واقعات کے مقابلے میں کامیابی و کامرانی کے سچے خواب دکھائی دیں گے۔آج ہر جگہ مسلمان ظلم وزیادتی کا شکار ہیں،ان پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کے لئے طرح طرح کی سازشیں رچی جارہی ہیں،ایسے وقت میں ہمارے لیے آپ ﷺ کی مکی زندگی اور ہجرتِ مدینہ کا سب سے بڑا پیغام یہ ہیکہ ہم حالات سے گھبرانے کے بجائے ہمت و حوصلہ کو پروان چڑھائیں،مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے بلند ہمتی کا مظاہرہ کریں،انشاءاللہ جس طرح اللہ تبارک وتعالی نے اُس وقت مسلمانوں کو حالات کی چکّی میں پسنے کے بعد ہجرت کے ذریعہ فتوحات کی نوید سنائی اسی طرح آج بھی اللہ کی قدرت سے اس قسم کی کرشمہ سازی کوئی بعید نہیں۔
اسلامی سالِ نو کا ایک اہم پیغام یہ بھی ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں،باطل قوتوں کے سامنے آہنی دیوار بن جائیں،ہر طرح کے حالات کا متحد ہوکر مقابلہ کریں۔ ہجرت کے بعد نبی اکرم ﷺ نے سب سے پہلے صحابۂ کرام کے درمیان اتحاد کی فکر فرمائی اور مہاجرین اور انصار کو ایک ایسے رشتہ میں جوڑا جو ان کے لئے خونی رشتے سے زیادہ عزیز بن گیا،پھر اس اتحاد کے نتیجے میں جو کامیابیاں ان کے قدم چومیں وہ کسی سے مخفی نہیں،کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ان کا نام سن کر ہی لرزجاتی تھی اور ان کے مضبوط قلعوں میں زلزلہ برپا ہوجاتا تھا۔موجودہ حالات میں اس سے سبق لینے کی سخت ضرورت ہے کہ ہم جب تک اتحاد کا عملی مظاہرہ نہیں کریں گے،اس وقت تک شکست ہمارا مقدر ہوگی،اگر ہم آج بھی اس نسخۂ کیمیا کو اپنالیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمارا بال بھی بیگا کرنے کی ہمت نہیں کرسکتی۔