شخصیات

کاندھلہ کاروشن چراغ

کاتبِ تقدیر ہی بہتر جانتا ہے کہ ہندی مسلمانوں کے نصیبہ میں اورکیا کیا لکھا ہے جدھر دیکھئیے ہر محاذ پر پسماندگی یا پھر محرومیوں کے بے شمار عنوانات ہیں ان کی مشکلات میں ہرصبح وشام اضافہ ہی دیکھنے میں آتا ہے بلکہ یہ مشکلات اس وقت اورگہری ہوجاتی ہیں جب ان سے نپٹنے کا صورپھونکنے اور بدعقیدہ ماحول میں صراطِ مستقیم کی وضاحت کرنے والے خاصانِ خدا بھی ہم سے روٹھنیلگ جائیں۔
27/رمضان المبارک 1440ھجری مطابق 2/جون 2019عیسوی بروز اتوار شام شام ہوتے یہ خبروحشت اثر سوشل میڈیا اور برقی ذرائع سے دنیابھرمیں پھیل گئی کہ مفسرقرآن اور شیخِ طریقت حضرت مولانامفتی افتخارالحسن کاندھلوی بھی منزلِ فردوس کو سدھارگئے ہیں بندہ نے اس خیال سے کہ خداکرے یہ خبرغلط ہو اپنے بعض رفقا سے تذکرہ کیا توانہوں نے بھی گلوگیر آواز میں تصدیق کردی تب دل نے بے ساختہ کہا کہ آہ موت وحیات کا یہ فلسفہ بھی کس قدرعجیب ہے

عمربھرزیست کے ہمراہ اجل جاتی ہے
تاک میں رہتی ہے یک لخت نگل جاتی ہے

حضرت مولاناافتخارالحسن کاندھلوی کی وفات حسرت آیات نہ صرف ہمارے دیارِ علم ودانش کیلئے بڑاحادثہ ہے بلکہ ان کے سانح? رحلت سے تصوف وروحانیت اورتحقیق ونکتہ سنجی کا ایک عالی شان ستون زمین پر آرہا، وہ ہمارے اس عہد میں اپنے اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر تھے ان کے چہرے بشرے سے ایک روشن ضمیر عالمِ دین کاتصورابھرتا تھا درحقیقت وہ عامل کامل بلندپایہ مفسر اورباتوفیق خادمِ دین وملت تھے، مصدرفیاض نے انھیں ایسے عظیم دینی وجاہتوں والے خاندان کا نسبی وفکری وارث بنایا تھا جہاں کئی صدیاں علم وکمالات کے سایہ میں گذری، علم عمل اور اخلاق کی خوشبو نے جس کے دیوارودرکومعطرکئے رکھا،
کاندھلہ کایہ خانوادہ شاید ہندوستان کے ان معدودِ چندخاندانوں میں نمایاں شناخت کاحامل رہا ہے جہاں یکتائے روزگار افاضل واعیان نے جنم لیا اورہندوستان کے تہذیبی وروحانی اورعلمی اثاثے کوروشن جہت عطاکی، یہاں کی سرزمین سے منسوب بہت سے نام ہیں جن کے تقوی وطہارت کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں اور واقعی وہ اپنے اپنے زمانہ میں کرداروعمل کے نمائندہ اشخاص تھے حضرت مولاناافتخارالحسن صاحب اسی سلسلۃ الذھب کی روشن کڑی تھے ان کے تعلیمی مراحل مظاہرعلوم سہارنپور میں طے ہوئے جہاں سے انہوں نے سندِ فراغ بھی پائی جبکہ تصوف وسلوک میں قطبِ زماں حضرت مولاناشاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہ ان کے شیخ ومربی تھے جواپنے اس چہیتے مرید کو صوفی جی کے نام سے پکارتے تھے بعدازاں انہوں نے مولاناکاندھلوی کو خرق? خلافت سے بھی نوازا۔
مولاناافتخارالحسن مظاہری رحمہ اللہ نے درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد علم وتحقیق کی بساط بچھائی،بعض مدارس میں علمی اشتغال بصورت تدریس جاری رہااورتحقیقات کے سمندرمیں غوطہ زنی کامزاج بناکرموتی رولنے کا بیڑہ اٹھایا اللہ نے انھیں تفسیر کے میدان میں خاصانوازاتھا وہ ایک ایک آیت کی تفسیر میں گھنٹوں نکاتی گفتگو کرلیتے تھے نصف صدی سے زائدعرصہ تک ان کے تفسیری دروس شوق کے کانوں سے سنے گئے۔حضرت مولاناکی زندگی کے ماہ وسال خدمتِ دین وادب ہی میں گذرے انھیں دین کے سارے ہی شعبوں سے پیار تھا مدارس مساجدتنظیمات اورتبلیغی مراکز کے کاموں کو وہ نہ صرف سراہتے تھے بلکہ عملا سارے ہی ابواب خیر سے ان کا رشتہ رہا آج جبکہ دعوت وتبلیغ کی تعبیروتشریح کے ذیل میں عقائد سے متصادم نظریات پنپ رہے ہیں بلکہ ابلاغِ دین کے نام پر ہرکہ ومہ تحریف کی جرأتِ بے جاکررہا ہے حضرت مولاناکی رحلت پذیری کا احساس زیادہ شدت سے ابھررہا ہے کہ بساغنیمت یہ وہ ذات گرامی تھی جس نے جماعتِ تبلیغ کے خیرالقرون کاجلو? جہاں آرا دیکھا تھا اسی لئے وہ جماعتی احباب کو اعتدال وتسلف اور مکمل دین کی عظمت کا سبق دیاکرتے تھے
تعلیم تدریس تذکیر تصنیف تبلیغ اورتربیت کے شعبوں میں ان کے کارہائے نمایاں حضرت مولانا کی بامقصداورمتحرک زندگی کے روشن عنوانات ہیں، افسوس کہ ہمہ جہت صفات کامجموعہ اور بیشمارخوبیوں سے آراستہ انسان ہم سے بچھڑگیا اناللہ واناالیہ راجعون اللہ حضرت مولاناکے درجات بلند فرمائے زلات سے درگذرکرے اور لواحقین کو صبروہمت سے نوازے، یہ بھی حضرت کے کمالِ تربیت کا نتیجہ اور خوش اثر ہے کہ محقق العصر محترم مولانانورالحسن راشد صاحب مدظلہم آپ کے علمی وقلمی وارث اورسلسلہ فیض کو متعدی کرنے والے زمانہ شناس ولدصالح ہیں۔
حضرت مولاناکے انتقال پر دین وسیاست سماج وادب اور دیگر شعبہائیحیات سے وابستہ سرکردہ افراد نے اپنے تأسف کااظہارکرتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کے روحِ رواں حضرت مولانامفتی خالدسیف اللہ نقشبندی دامت برکاتہم نے بھی آپ کے خلف الرشید حضرت مولانانورالحسن راشد کاندھلوی سے بذریعہ ٹیلی فون لندن سے تعزیت فرمائی اور اپنے گہرے صدمہ کااظہار کیا انہوں نے اپنے تعزیتی کلمات میں بجافرمایاکہ مخدوم العالم حضرت مولاناافتخارالحسن صاحب علم وعمل کے جامع ایک مربی صفات روحانی پیشوا تھے جن کے فیضانِ علم ومعرفت سیہزاروں بندگان خدا نے استفادہ کیا رب کریم انھیں فردوس بریں میں جگہ دے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×