اسلامیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

شبِ برأت؛ بخش دو گر خطا کرے کوئی

شب ِ برأت مقدس اور بابرکت رات ہے،بخشش اور معافی کی رات ہے۔شب ِ برأت کے آنے کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے ،کیوں کہ ایک تو شب ِ برأت ان راتوں میں سے ایک ہے جس میں مسلمان عبادت وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں اور رات جاگ کر اعمال کو انجام دیتے ہیں ،دوسرے یہ کہ شب ِ برأت کے بعد سے رمضان المبارک کی آمد کی تیاریاں زوروں پر شروع ہوجاتی ہے،شب ِ برأت کے بعد ہی سے رمضان المبارک کے استقبال کی فکروں میں اضافہ ہوجاتا ہے،بچوں ،بڑوں ،مرد وںاورعورتوںمیں شوق وجذبہ پیداہوجاتا ہے،گویاشب ِ برأت رمضان المبارک کے آغاز کی تمہید ہے۔
لیکن اس وقت شب ِ برأت کی آمدایسے حالات میں ہورہی ہے کہ پوری دنیا کورونا وائرس کے قہر سے دوچار ہے اور ملک بھرمیں اس سے حفاظت کے لئے لاک ڈاؤن چل رہا ہے ،مسلمان مسجدوں میں جاکر نماز اداکرنے سے قاصرہیں،اجتماع اور ایک جگہ جمع ہونے سے روکنے کے لئے مسجدوں میں حاضری پر بھی پابندی لگادی گئی ہے،اسی حالت میں دو جمعے بھی گزرگئے،ہر روز،اور ہرنماز کے وقت وہ لوگ خاص کر تڑپ جاتے ہیں جن کو سکون مسجدوں میں حاضر ہونے کے بعد ملتا تھا،جوخانہ ٔ خدامیں جاکر فریضہ ٔ بندگی کو اداکرتے تھے،آج مسجدیں سونی پڑی ہوئی ہیں،اذانوں کی آوازیں اگر کہیں سے کان میں پڑجاتی ہیں تو دل مچل جاتا ہے ،طبیعت میں بے قراری پیداہوجاتی ہے کہ خدایا وہ وقت بھی جلد واپس عنایت فرمادیجیے کہ مسجدوںکوحاضر ہوسکیں۔اب مسلمانوں کو مسجدوں کی اہمیت بھی سمجھ میں آرہی ہے اور اجتماعی انداز میں فریضہ کواداکرنے کی قدر بھی معلوم ہورہی ہے۔جب کے اس سے پہلے خدا کا در کھلارہتا او ر حی علی الصلوۃ کی صداکانوں میں گو نجتی تھی لیکن توجہ نہیں دی جاتی ،لاپرواہی اور غفلت سے نمازوں سے کنارہ کشی اختیار کی جاتی تھی اور جان بوجھ کر مسجدوں کے سامنے سے گزرجاتے تھے لیکن اندر داخل ہونے کے لئے تیار نہیں تھے۔اور آج دل بے چین ہے کہ کب مسجد میں جائیں ؟کب دروازے کھلیں؟اور کب روح ودل کو شاد کریں؟
کورونا وائرس نے دنیا کی حقیقت کو واضح کردیا،انسانی حکومتوں کے بے بسی کو ظاہر کردیا،اور قادر ِ مطلق کی قدرت وبادشاہت کو عیاں کردیا۔بڑے بڑے ملک ،ترقی یافتہ شہر ،ہر طرح سے اپنی قابلیت اور مہارت پر ناز کرنے والے بھی بے بس پڑے ہوئے ہیں ،ان کی تمام تر قوت وطاقت سمٹ کر رہ گئی ہے ،انہیں کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے،وہ اپنوں کو مرتا ہوادیکھ کر اور اپنوں کو مبتلا ہوادیکھ گھٹ رہے ہیں ۔پوری دنیا سہی ہوئی ہے،دنیاکا ظاہری نظام خاموش پڑا ہوا ہے،آمد ورفت بند ہوچکی ہے،سرحدوں پر پابندیاں لگی ہوئی ہیں،کوئی کسی سے ملنے تیار نہیں ہے ،ملاقات کرنے آمادہ نہیں ہے ،لوگ خوف وہراس میں مبتلا ہیں،صحت کی حفاظت ،ملک کی سلامتی اور لوگوں کے تحفظ کے لئے ہر کوئی اور بالخصوص ارباب ِ اقتدار سرگراں وپریشاںہیں۔
ان حالات میں جہاں دل بجھے ہوئے ہیں اور پریشانی کے عالم میں مبتلا ہیں،ایسے میں شب ِ برأت کی عظیم رات کی بھر پور قدر کرنے کی ضرورت ہے،پہلے بھی شب ِ برأت کو مقدور بھر عبادت انجام دینے کی فکر کی جاتی تھی،مسجدوں میں جاکر ،بیانوں کو سن کر لیکن اب نہ مسجد کو جانے کا موقع ہے اور نہ ہی رات کو باہرنکلنے کی اجازت ۔اب گھروں میں ہی رہ کر عبادتوں کو انجام دینے کاوقت ہے۔اپنے وقت کی قدر کریں اور بخشش ومعافی کی اس مقدس رات کو صحیح گزارنے اور پرورگارِ عالم کے سامنے خوب گڑگڑاکر مانگنے کاوقت ہے۔کوتاہیوں پر ندامت کے آنسو بہاکر ،غفلتوں پر جی بھرکے روکر اللہ تعالی کو منانے اوراس کی رحمت کو متوجہ کرنے کا وقت ہے۔زندگی میں بہت سی شب برأتیں گزاردی ہیں ،معلوم نہیں کہ کتنا اہتمام کیا تھا یا نہیں ،کس قدر بندگی ہوئی تھی یا نہیں ؟کتنا دعاؤ ں کا التزام کیا تھا یا نہیں ؟لیکن اس مرتبہ کی اس رات کو اور اس کے بابرکت لمحات کو ضائع ہونے نہ دیں۔
شب ِ برأت کی عظمت اور فضیلت کو بھی سمجھئے کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :اللہ تعالی پندرہویں شعبان کی رات میں اپنی تمام مخلوقا ت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ،مشرک اور کینہ رکھنے والے کے سوا مخلوق کی مغفرت فرماتے ہیں ۔( صحیح ابن حبان:۵۷۸۲)حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک رات انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو بستر پر نہ پایا تو پریشان ہوئیں اور تلاش کرتے ہوئے مدینہ کے قبرستان جنت البقیع کی طرف نکل گئیں ،وہاںدیکھا کہ آپ ﷺ موجود ہیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالی شعبان کی درمیانی شب میں آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیںاور بنو کلب ( ایک قبیلہ جو عرب کے تمام قبائل میں سب سے زیادہ بکریاں پالتا تھا)کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔(ترمذی:۶۶۹)حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ: نبی کریم ﷺ نے فرمایا :شعبان کی درمیانی شب اللہ تعالی اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیںاور سوائے کینہ پرور اور خود کشی کرنے والے کے تمام بندوں کو معاف کردیتے ہیں ۔(مسند احمد:۶۴۶۳)حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے ایک پکا رنے والا پکارتا ہے کہ کوئی مغفرت کا طالب ہے کہ میں اس کی مغفرت کردوں ،ہے کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اس کوعطا کردوں ،اس وقت خدا سے جو مانگتا ہے اس کو ملتا ہے سوائے بد کار عورت اور مشرک کے ۔( فضائل الأوقات للبیہقی :۳۱ بیروت )حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جب شعبان کی پندرہویں شب آئے تو رات کو نماز پڑھو اور اگلے دن روزہ رکھو ،کیوں کہ غروب شمس سے لے کر صبح صادق طلوع ہو نے تک اللہ تعالی آسمان دنیا پر رہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ :ہے کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا کہ میں اسے بخش دوں ؟ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اسے رزق دے دوں؟ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں؟کوئی ایسا ہے کوئی ویسا ہے؟؟۔(فضائل الأوقات للبیہقی :۳۱)
کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں تباہی مچی ہوئی ہے،ہم مسلمان ہیں ،ہمارے پاس قرآن وسنت کی مبارک ترین تعلیمات ہیں،بندوں کو نوازنے اور دینے کے لئے اللہ تعالی نے کچھ خاص موقعے رکھے ہیں جن میںدعائیں قبول ہوتی ہیں ،صداؤں کو رائیگاں جانے نہیں دیا جاتا،چناں چہ انہیں مواقع میں ’’شب ِ برأت ‘‘ بھی ہے۔ان حالات میں ہم عبادتوں کے ساتھ رات کو گزاریں ،خوب دعائیں کریں،نجات کے لئے ،بھلائی کے لئے ،عافیت کے لئے اور پوری دنیا کے امن وسکون کے لئے التجائیں کریں۔اس کے بعد رمضان المبار ک کی آمد بھی ہوگی ،اس کو صحیح گزارنے اور باغ وبہار کے ساتھ بسر کرنے کے لئے اللہ تعالی سے حالات کو بہتر بنانے اور وباومصیبت سے چھٹکارا عطاکرنے کے لئے خصوصی طور پر دعاکریں۔
یہ رات احتساب کی رات ہے،توبہ واستغفار کی اور دعا ومناجات کی رات ہے ،مشکل حالات میں اور آزمائش کی ان سخت گھڑیوںمیں ہماری ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ایسی عظیم رات کو بے کاری میں اور فضول چیزوں میں ضائع ہونے نہ دیں۔اس وقت جہاں کورونا کا قہر ہے وہیں اور بھی بہت سے مسائل اور مشکلات ہیں ،شرپسند میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کو ہدف ِ ملامت بنایاجارہاہے،ان پر کے خلاف مستقل مہم چلائی جارہی ہے ،ان تمام کے لئے اللہ تعالی سے رجوع ہونا اور حل طلب کرنا ضروری ہے ،وہ بخشنے والا مہربان رب ہے،اس کی رحمت بے پایاں وبے حساب ہے ،وہ بہانے بناکر دینے والا اور معمولی چیزوں کی قدر کرتے ہوئے بڑے بڑے فیصلے کرنے والا ہے۔ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے:ا ے ابن آدم ! تو نے مجھے پکارا،مجھ سے امید رکھی ،لہذا میں نے جو کچھ بھی تجھ سے سرزد ہوا اسے معاف کردیا،مجھے کوئی پرواہ نہیں۔اے ابن آدم !تیرے گناہ آسمان کے افق تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے معافی کا طلب گار ہو تو میں تجھے معاف کردوں گا اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ،اے ابن آدم ! اگر تو زمین کے برابر خطائیں لے کر آئے گا اور اس حال میں مجھ سے ملاقات کرے گا کہ مجھ سے کسی کوشریک نہ ٹھہرایاہوگا تو میں تجھے زمین کی وسعت کے برابر بخشش عطا کروں گا۔( ترمذی:3491)لہذا حالات اور مشکلات سے مایوسی نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف رجو ع کی ضرورت ہے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں ،کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے،رہروِ منزل ہی نہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×