سیاسی و سماجیمفتی محمد صادق حسین قاسمی

خداکرے کہ جوانی تری رہے بے داغ!

موجودہ دنیامیں بے حیائی بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے ،نت نئے آلات کی ایجاداورانٹرنیٹ وغیرہ نے بے حیائی کو پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔دجالی طاقتیں اس وقت نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بے راہ رو کرنے اور بے حیائی کا عادی بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔مغربی تہذیب نے حیا کی عظمت واہمیت کو پامال کررکھا ہے۔بے حیائی کو فروغ دینے اور نوجوانوں کے اندر جوہر ِ حیاکوختم کرنے کے لئے جہاں بہت سارے طریقے اختیار کئے گئے ان ہی میں سے ایک ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ یعنی ’’یوم ِ محبت ‘‘ بھی ہے۔جو فروری کی ۱۴ تاریخ کو منایاجاتا ہے۔ویلنٹائن ڈے اظہارِ محبت کے دن کے طور پر منایاجاتا ہے اور اس میں کھلے عام لڑکا اور لڑکی کی جانب سے محبت کا اظہار ہوتا ہے اور اس کے لئے رائج طریقوں کو اختیار کیاجاتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں مختلف قسم کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں جواس دن کے وجود میں آنے اور اظہار ِ محبت کے لئے یادگار بننے کا ذریعہ بنے۔جن میں سے صرف ایک واقعہ یہاں نقل کرتے ہیں ؛سترھویںصدی عیسوی میںروم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ایک راہبہ کی محبت میں مبتلا ہوگیا ،چوں کہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا ،اس لئے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا کہ ۱۴ فرورؤی کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ جسمانی تعلقات بھی قائم کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جا ئے گا۔راہبہ نے اس پر یقین کرلیا اور دونوں سب کچھ کر گزرے ۔کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموما ہوا کرتا ہے یعنی ان دونوں کو قتل کردیا گیا ۔کچھ عرصے بعد چند لوگوں نے انھیں محبت کا شہید جان کر عقیدت کا اظہار کیا اور ان کی یاد میں یہ دن مناناشروع کردیا۔( ویلنٹائن ڈے :۷)
واقعات جو بھی ہوں لیکن بہرحال یہ دن حیا وپاکیزگی کے لئے نہایت خطرناک ہے،جس معاشرہ میں حیاختم ہوجائے اور جس کے نوجوان بے حیائی و بدکرداری کے عادی ہوجائیں تو پھر وہ معاشرہ زوال وانحطاط کا شکار ہوجاتا ہے،کامیابی وترقی کی راہوں سے بہت دور ہوجاتا ہے،نیک نامی اور اولولعزمی سے اس قوم کے نوجوان محروم ہوجاتے ہیں،ہوس وشہوت جن کا مقصد بن جاتا ہے اور ناجائز طریقے پر زندگی بسر کرنا مشغلہ ہوکررہ جاتا ہے ۔نوجوانوں کو تباہ کرنے اور بالخصوص مسلم نوجوانوں کو شہوت پرستی میں مبتلاکرنے اور ان کے اندرون سے روحانیت واسلامیت کے جذبو ں کو ختم کردینے کے لئے بہت پہلے سے اسلام دشمن طاقتیں محنتیں کرتی آرہی ہیں ،دنیا میں بے حیائی کو پھیلانے کے جہاں ان کے بہت سے دجالی منصوبے ہیں وہیں مسلم نوجوان کو کردار وعمل سے عاری کرنے اور مسلم لڑکیوں کو بے پردہ وبے حیا بنانا بھی مقصد ہے۔
ناچ گانا،شراب وشباب،فیشن پرستی اس کے پیچھے چھپے مقاصد کوبیان کرتے ہوئے ایک موقع پر ایک بڑے پوپ نے خصوصی مجلس میں کہاتھا کہ:شراب کا جام اور مغنیہ ( گانے والی ) اور فاحشہ عورت ،امت محمدیہ کو تہ وبالا کرنے کا اتنا بڑاکام کرسکتے ہیں جو کام ایک ہزار توپیں نہیں کرسکتیں ۔اس لئے اس قوم کو مادہ او رشہوت کی دنیا میں غرق کردو۔‘‘اور پوپ زویمرنے قدس میں پادریوں کی ایک مجلس میں کہاتھاکہ:’’تم نے مسلمانوں کے ملک میں ایسے لوگ پیداکردئیے ہیں جن کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔اور واقعی مسلمانوں کی نئی پود ویسی ہی بن گئی ہے جیسا استعمار نے چاہاکہ انہیں مقدسات کا نہ کوئی خیال ہے نہ توجہ،راحت پسند اور سست بن گئے ،ان کا مطمح نظر دنیا کی شہوت ولذت ہی بن کر رہ گیا ہے ۔اگر وہ پڑھتے ہیں تو شہوت رانی کے لئے اوراگر مال جمع کرتے ہیں تو عیاشی کے لئے ۔اگرکسی بلند منصب پر بھی پہنچ جائیں گے تو شہوت ولذت کے لئے ہر چیز قربان کردیں گے۔(نوجوان تباہی کے دہانے پر:۴۹۵)
اسلام نے پاکیزہ زندگی گزارنے اور حیاواخلاق سے آراستہ ہونے کی تعلیم دی ہے ،بے حیائی اور بدکاری سے بچنے کا اہتمام سے حکم دیا ہے،ان تمام راستوں پر بھی پابندی عائد کردی ہے جہاں سے بے حیائی کے داخل ہونے کے امکانات رہتے ہیں،ان طریقوں سے بھی بچنے کاسختی سے پابند بنایا ہے جس سے بے حیائی پھیلتی ہواور معاشرہ پراگندہ ہوتاہو۔حیاکا بہترین تصور اور نہایت پاکیزہ تعلیمات یہ اسلام کی دین ہے۔دنیا میں بسنے والی دیگر قوموں کے پاس حیاکا وہ نظام نہیں ہے جو اسلام نے مسلمانوں کا عطاکیا ہے ۔
اسلام میں حیا ء پر بہت زور دیا گیا ،اور حیا والی تعلیمات کو بڑے اہتمام سے بیان کیا اور جو چیزیں بے حیائی کو فروغ دینی والی ہوں گی اور جو لوگ بے حیائی کو پھیلانے کی کوشش کریں گے ان کے لئے سخت وعیدیں بیان کیں ہیں ۔حیا کو انسان کا قیمتی زیور قرار دیا گیا ،حیاانسان کے نیک اور پاکباز اور سعادت مندہونے کی علامت ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ہر دین کی ( خاص ) عادت ہوتی ہے اور اسلام کی عادت حیا ہے ۔( ابن ماجہ:۴۱۷۹) آپ ﷺ کا ایک ارشاد گرامی ہے :حیا کا نتیجہ خیر ہے اور حیا ساری کی ساری خیر ہے ۔( بخاری:۵۶۷۹)ایک ارشاد ہے : حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے ۔( بیہقی :)آ پ ﷺ نے فرمایا : حیا ایمان میں سے ہے اور ایمان( یعنی اہل ایمان ) جنت میں ہیں ۔اور بے حیائی بد ی میں سے ہے اور بدی ( والے ) جہنمی ہیں ۔( ترمذی :۱۹۲۸)آپ ﷺ کا ایک ارشاد ہے کہ:بے حیائی جب کسی میں ہوتی ہے تو اسے عیب دا ربنائے گی ۔اور حیا جب بھی کسی چیز میں ہوگی تو اسے مزین اور خوبصورت ہی کرے گی۔( ترمذی:۱۸۹۳)اور ایک اہم ترین ارشاد کہ : حیا ایمان کا ( اہم ترین ) شعبہ ہے (بخاری:۹)آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو۔( بخاری:۳۲۴۸)ان ارشادات میں بڑی تاکید کے ساتھ آپ ﷺ نے حیا کی تعلیم دی اور حیا کے ساتھ مزین ہونے کا حکم دیا۔اور جولوگ بے حیائی کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کے بارے میں قرآن کریم میں سخت وعید بیان فرمائی کہ:یاد رکھو جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیا ئی پھیلے ،ان کے لئے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے ۔( النور:۱۹)
اسلام نے ان نوجوانوں کی ستائش فرمائی کہ جو حیاوکردارکے ساتھ زندگی گزارتے ہیں ،رب سے ڈرتے ہوئے جیتے ہیں اور اس کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے رہتے ہیں ۔قیامت کے دن جہاں سارے انسان پریشانی کے عالم میں ہوں گے،انسان اپنے اعمال کے لحاظ سختیوں اور تکلیفوں سے دوچار ہوگا،اور کوئی سایہ عرش کے سایہ کے علاوہ نہیں ہوگا،اس سخت ترین دن میں جن خوش نصیبوں کو عرش ِ الہی کا سایہ نصیب ہوگا ان میں ایک وہ نوجوان بھی ہوگا جس نے پاکیزہ زندگی گزاری ہوگی ،نوجوانی ہی سے عبادت کا خوگر رہا ہوگا۔چناں چہ نبی کریمﷺ کے ارشاد مبارک کے الفاظ ہیں:سبعۃ یظلھم اللہ فی ظلہ لاظل الاظلہ۔۔۔شاب نشأ فی عبادۃ ربہ۔(بخاری:)آپﷺ نے فرمایا کہ سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالی اس دن عرش کا سایہ عطا فرمائے گا جس دن عرشِ الہی کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔۔۔(ان میں ایک) وہ نوجوان بھی ہوگا جس نے اپنے رب کی عبادت میں پرورش پائی ہے۔‘‘
جوانی کوغنیمت جاننے اور اس کی قدر ومنزلت کو سمجھتے ہوئے صحیح مقصد میں استعمال کرنا یہ ایک اہم ذمہ داری ہے ،جوانی کو غنیمت جاننے کی ترغیب دیتے ہوئے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اغتنم خمسا قبل خمس : شبابک قبل ھرمک ۔۔۔۔۔( المستدرک:۷۹۱۴)کہ پانچ چیزوں کوپانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔(جن میں سے ایک )اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ۔
جوانی کیسے گزاری تھی ،کن مشاغل میں صرف کی تھی ،کل میدان ِ محشر میں اس کا بھی سوال ہوگا،ضائع کرنے اور فضول ولایعنی چیزوں میں بربادکرنے والے اور جوانی کو معصیت ونافرمانی میں بسرکرنے والوں کے لئے یہ گویا ایک چونکا دینے والا پیغام ہے کہ وہ جوانی کو لہو ولعب اور من چاہی انداز میں استعمال کرنے سے بچیں ۔اس سلسلہ میں نبی کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے :لاتزال قدما ابن اٰدم یوم القیامۃ عند ربہ حتی یسال عن خمس:عن عمرہ فیما افناہ، وعن شبا بہ فیما ابلاہ ۔(ترمذی:۲۳۵۳)قیامت کے دن اللہ تعالی کے دربار میں بنی آدم کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتے جب تک کہ پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے گا : (۱) اس کی عمر کے متعلق کہ اپنی عمر کو کہاں فنا کیا ؟(۲)اس کی جوانی کے بارے میں کہ اس کو کس چیز میں گنوایا ؟
حیاوپاکدامنی اور خوف ِ خداکا کیساعظیم انعام اللہ تعالی عطا فرماتا ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگائیے :مدینہ منورہ میں ایک عابد وزاہد نوجوان رہتا تھا،اس نے مسجد کو ہی اپنا مسکن بنایاتھا،اکثر مسجد میں ہی رہتا تھاتاکہ صحابہ کرام ؓ کی زبان سے تازہ تازہ احادیث کی سماعت نصیب ہو۔اس کا ایک بوڑھا باپ تھا ،جب یہ نوجوان عشا کی نماز سے فارغ ہوجاتا تو اپنے بوڑھے باپ کے پاس چلاجاتا،راستہ میں ایک عورت کا گھر پڑتاتھا،وہ عورت اس نوجوان پر فریفتہ ہوگئی ،ایک دن وہ نوجوان وہاں سے گذررہاتھاتو وہ عورت بہکانے لگی حتی کہ وہ نوجوان اس کے پیچھے لگ گیا،جب وہ گھر میں داخل ہونے لگا تو اسے اللہ تعالی کا یہ فرمان یا دآگیاکہ:ان الذین اتقوااذامستھم طئیف من الشیطن تذکروافاذاھم مبصرون۔(الاعراف:۲۰۱)’’جن لوگوں نے تقوی اختیار کیا ہے ،اُنہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آکر چھوتا ہے تووہ (اللہ کو) یادکرلیتے ہیں،چنانچہ اچانک اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔‘‘ اس آیت کے یاد آتے ہی وہ فوراً بے ہوش ہوکر گرگیا،اسی حالت میں اس کے والد کے پاس لے جایا گیا،نوجوان اسی حالت بے ہوشی میں رہا یہاں تک کہ رات کا تہائی حصہ گذرگیا،پھر جب اسے ہوش آیاتو اس کے باپ نے پوچھا کہ کیاہواتھا؟اس نوجوان نے سارا واقعہ سنایا،باپ نے اس کو کہا کہ اے بیٹے !تونے کونسی آیت پڑھی تھی؟اس نے وہ آیت پڑھی تو پھر بے ہوش ہوگیا،جب گھر کے تمام افراد اور آس پاس کے لوگ جمع ہوئے اور اس کو ہلایا تو دیکھا کہ وہ مرا ہوا ہے۔چنانچہ اس کو غسل دے کر رات کے وقت دفن کردیا۔صبح ہوئی تو حضرت عمرؓ کو اس واقعہ خبر پہنچی تو اس نوجوان کے باپ کے پاس آئے،تعزیت کی پھر اس نوجوان کی قبر پر گئے اور چلا کر کہا کہ اے فلاں!ولمن خاف مقام ربہ جنتن۔(الرحمن:۴۶)جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے ،اس کے لئے دو باغ ہیں۔‘‘اس نوجوان نے قبر سے جواب دیا کہ اے عمرؓ!مجھے میرے رب نے جنت میں دوباغ دے دئیے ہیں۔(حضرت عمر کے سو قصے:۲۴،الدرالمنثور:۱۴/۱۳۸)
عبرت لینااور نصیحت حاصل کرنا اہم ذمہ داری ہے،اس وقت پوری دنیا میں بے حیائی کا سیلاب ِ بلاخیز ہے ،ہر سمت سے دل ونگاہ کو پراگندہ کرنے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں،شراب وشباب کے نشے میں مقصد ِ زندگی سے غافل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،ترقی اور جدت کے نام پر،فیشن اور ماڈرنزم کے عنوان پر تہذیب وثقافت ،حیا وکردار کا جنازہ نکالنے میں مصروف ہے ،ایسے میں ایک مومن اور مسلمان نوجوان لڑکے اور لڑکی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے تمام حیاواخلاق کو پامال کرنے والے دن اور طریقوں کو کچل ڈالیں،پاکیزہ تہذیب اور حیاوالاکلچر عام کرنے والے بنیں ،انسان دشمنوں اور تہذیب کے لٹیروں کے حربوں کو ناکام بنائیں،نہ صرف یوم ِ عاشقاںیا ویلنٹائن ڈے کا بیکاٹ کریں بلکہ ہمیشہ کے لئے بے حیائی وبدکرداری کو پھیلانے والے طور وطریقوں سے دور رہیں اور اپنے حلقہ ٔ احباب ودوستوں کو دوررکھنے کی کوشش کریں۔اگرچہ چاروں طرف گناہوں کی دعوت دینے والے نظارے ہیں،اور بے حیائی اور بدکاری کو فروغ دینے والے وسائل موجود ہیں لیکن اس کے باجود ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حیا کے علم بردار بنیں،پاکیزگی وطہارت ،اخلاق وشرافت ،تہذیب وثقافت کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں ،ان شاء اللہ پروردگار ِ عالم دوجہاں میں سرخرووکامیاب کرے گا۔
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خداکرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×