
اک پل کے لئے دنیا میں کہیں توہینِ نبی منظور نہیں!
نبی پاک ﷺ سے محبت اور بے پناہ محبت ہمارے ایمان کا لازمی حصہ ہے ۔قرآن کریم میں فرمایا گیا:اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُِسِھِمْ۔( الاحزاب:۶)’’ایمان والوں کے لئے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں۔‘‘اسی طرح نبی کریمﷺ کاارشادمبارک ہے:وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْن۔(بخاری ،حدیث نمبر:۱۴)کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی ا س وقت تک مؤمن کامل نہیں بن سکتا جب تک کہ اس کے دل میں اس کے والد ،اس کی اولاد ،اور دنیا کے تمام لوگوں سے میر ی محبت زیادہ نہ ہوجائے۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں کہیں نہ کہیں اپنے نبی سے محبت کی چنگاری دبی رہتی ہے ،اس لئے اگر کہیں کوئی نبی کی شان میں گستاخی یا بے ادبی کردے یا نامناسب جملہ یاکلمہ اپنی زبان سے نکال دے تو پھر وہ دبی ہوئی چنگار ی بھڑکنے لگتی ہے ،اور اس کو بے چین وبے قرار کردیتی ہے ۔نبی ﷺ سے محبت کی لافانی ادائیں اس روئے زمین پر حضرات ِ صحابہ کرام ؓ نے پیش فرمائی ہیں ،اور امت کو بتایا کہ کس طرح دل وجان نبی ﷺ کی عزت وحرمت پر نچھاور کئے جاتے ہیں۔حضرت زید بن دثنہ ؓ دشمنوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے ،جب ان کو قتل کرنے کے لئے لے جانے لگے اس وقت ابوسفیان نے ان سے پوچھا کہ اے زید! میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ سچ بتاؤ کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ تم اپنے بیوی بچوں کے پاس رہو اور تمہاری جگہ تمہارے نبی ہو؟حضر ت زید نے تڑپ کر کہا: اللہ کی قسم !مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میں اپنے اہل میں رہوں اور میرے آقا ﷺکو کانٹا چبھے۔ یہ سن کر ابو سفیان نے کہا کہ میں نے کہیں نہیں دیکھا کہ کسی سے اتنی محبت کی جاتی ہو جتنا مسلمان اپنے رسول ﷺ سے کرتے ہیں ۔( اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ:۲/۱۳۵)
تھوڑا آگے بڑھ کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ صحابہ کرام ؓ کے بعد افراد ِ امت کے دلوں میں کیسے نبی پاک ﷺ کی محبت موجزن تھی ۔لکھا ہے کہ :سلطان محمودپر اپنے تقوی اور کسر ِ نفسی کی وجہ سے حب ِ رسول ﷺ کا بڑاغلبہ رہا۔وہ اپنی زبان پر رسول اللہ ﷺ کا اسم ِ مبارک لانے میں حددرجہ احترام کرتا۔ان کے ایک مصاحب کا نام ’’محمد‘‘ تھا،وہ اس کو ہمیشہ اسی نام سے پکاراکرتے تھے۔ایک روز انہوں نے اس کو تاج الدین کہہ کر پکارا،وہ آیا اور شاہی حکم کی تعمیل کرکے گھر چلا گیا،تو تین دن تک سلطان کی خدمت میں حاضر نہ ہوا،سلطان نے جب اس کو بلابھیجااور اس سے غیر حاضری کا سبب دریافت کیا۔تواس نے عرض کیاکہ : آپ مجھے ہمیشہ محمد نام سے پکاراکرتے تھے ،اس روز خلافِ عادت مجھے تاج الدین کہہ کر پکاراگیا تو میں سمجھا کہ مجھ سے کوئی بدگمانی پیدا ہوگئی ہے ،اس لئے اپنی صورت نہیں دکھائی اور تین روز میں نے بڑی بے چینی اور بے قراری سے گزارے ،سلطان نے اس کو یہ کہہ کر اطمینا ن دلا یا کہ میں تم سے بد گمان نہیں ہوں ،لیکن جب میں نے تم کو تاج الدین کہہ کر پکارا تھا س وقت میں باوضو نہیں تھا ،مجھے شرم آئی کہ محمد کا نام بے وضو لوں۔( تاریخ فرشتہ۱:/۷۴بحوالہ خزینہ:۱۷۰)
کیسے کیسے لوگ تھے جن کے سینے میں محبت ِ رسول ﷺ کی چنگاریاں موجود تھیں اس کا اندازہ اختر شیرانی کے واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے،واقعہ تفصیلی ہے ہم اختصار کے ساتھ نقل کرتے ہیں :اختر شیرانی اردو کے مشہور شاعر گذرے ہیں ،لاہور کے عرب ہوٹل میں ایک دفعہ کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلاکے ذہین تھے اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی ،نشہ کی حالت میں تھے کہ ہوش تک قائم نہیں تھا،تمام بدن پر رعشہ طاری تھا،حتی کہ الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے ،ادھر ’’انا‘‘ کا شروع سے یہ حال تھا کہ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے تھے ۔بہت سے سوالات ہوتے رہے،اس لڑکھڑائی ہوئی آواز سے فائدہ اٹھا کر ایک ظالم قسم کے کمیونسٹ نے سوال کیا ،’’آپ کا حضرت محمدﷺ کے بارے میں کیا خیال ہے؟۔۔۔۔اللہ اللہ ،ایک شرابی جیسے کوئی برق تڑپی ہو،بلّورکا گلاس اٹھایااور اس کے سر پر دے مارا۔۔۔۔’’بدبخت !ایک عاصی سے سوال کرتا ہے ،ایک سیہ رو سے پوچھتا ہے!ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟‘‘۔۔۔تمام جسم کانپ رہاتھا ،ایکاایکی رونا شروع کیا،گھگی بندھ گئی ۔۔۔’’ایسی حالت میں تم نے یہ نام کیوں لیا،تمہیں جرأت کیسے ہوئی؟گستاخ!بے ادب’’باخدادیوانہ باش ،وبامحمد ہوشیار‘‘اس شریر سوال پر توبہ کرو،تمہارا خبث ِ باطن سمجھتا ہوں‘‘خود قہروغضب کی تصویر ہوگئے،اس نوجوان کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن سے لہو نہیں ،اس نے بات کو موڑنا چاہا،مگر اختر کہاں سنتے تھے،اسے اٹھوایا،پھر خود اٹھ کر چلے گئے ،تمام رات روتے رہے،کہتے تھے۔۔۔۔۔’’یہ لوگ اتنے نڈر ہوگئے ہیں کہ آخری سہار بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں،میں گنہ گار ضرور ہوں لیکن مجھے کافر بنادینا چاہتے ہیں۔(کتابوں کی درسگاہ میں:۳۳)
اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جو ایک مسلمان کا اپنے نبی ﷺ والہانہ محبت کا ثبوت پیش کرتے ہیں،یقینا ایک مسلمان کے لئے محبت ِ رسول ﷺ عظیم سرمایہ ہے،اسی دولت پر کل روزِ محشر نجات کی امید ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر دنیا میں کہیں رسالت مآب ﷺ کی شان اقدس میں کوئی گستاخی یا توہین کی جاتی ہے تو مسلمان سراپا تڑپ اٹھتا ہے اور احتجاج پر کھڑا ہوجاتا ہے۔سوشل میڈیا کے اس دور میں لوگ جو چاہیں کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور من مانی حرکتوں سے گریز نہیں کرتے ۔چناں چہ اکٹوبر کی ۱۹ تاریخ کو ٹوئیٹر پر سنگھی میڈیا کے آئی ٹی سیل نے نبی کریمﷺ کی توہین کی ،جب اس کی خبر امت کے نوجوانوں کو ہوئی تو انھوں نے اپنے نبی پاک ﷺ کی تعریف وتوصیف میں وہ کارنامہ انجام دیا کہ ٹوئیٹر پر جن لوگوں نے توہین کا منصوبہ بنایا ،ان کی کوششیں ناکام ومراد ہوگئیں ،اس پیار ومحبت اور ہوش وعقیدت کے ساتھ ٹوئیٹرپر ملت کے جیالوں اور نبی پاک ﷺ سے بے لوث محبت کرنے والے نوجوان علماء نے وہ ٹرینڈ چلا یا کہ غیر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ،اور غیروں نے خود اپنے لوگوں کی مذمت کی اور پیارے آقاسید نامحمد رسول اللہ ﷺ کی عظمت ِ شان کا اقرار کیا۔اس سلسلہ میں مولانا عمر ین محفوظ رحمانی سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ لکھتے ہیں:ہر قسم کی اشتعال انگیزی سے بچتے ہوئے حضور ﷺ کی شخصیت وسیرت کو بہترین انداز اور اچھے اسلوب میں اس طور پر پیش کیا گیا کہ نہ صرف وہ نفرت انگیزٹرینڈ کا جواب بن گیا بلکہ اسلام کی دعوت اور حضور اکرم ﷺ کے تعارف کا وسیلہ بن گیا۔حضور اکرم ﷺشخصیت وتعارف پر مشتمل جوابی ٹرینڈ کا یہ فائدہ کیسا خوش آئند اور مسرور کن ہے کہ ہمارے غیر مسلم بھائیوں اور بہنوں نے بھی اس کی پذیرائی کی ،اور اپنی خوشی اور تاثرکا اظہارکیا۔نمونے کے طور پر چند انگریزی اور ہندی ٹویٹس کے ترجمے دئیے جارہے ہیں جن کو پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ غیر مسلم بھائیوں اور بہنوں پر اس کا کیا اثر ہوا؟آدتیہ مینن لکھتے ہیں :ہندوتوا عناصر کی طرف سے محمدﷺ کی شان میں گستاخانہ ٹیگ چلائے گئے ،لیکن مسلمانوں نے اس کا مثبت
طریقے سے جوا ب دیا ،نفرت کرنے والوں کے لئے بہترین جواب اخلاق ہیں،جس کے لئے آپﷺ کھڑے ہوئے ہیں۔سنگھ مترا لکھتی ہیں :ہندوتوابریگیڈ!جب آپ مشتعل ہوتے ہوتو نفرت پھیلاتے ہو،آج تم نے مسلمانوں کو مشتعل کیا لیکن انھوں نے محبت کو پھیلادیا،انہوں نے ظاہر کردیا کہ اسلام امن پسند ہے۔آریہ سریواستو کا کہنا ہے :بی جے پی آئی ٹی سیل کا شکریہ !ایک غیر مسلم ہونے کی حیثیت سے میں محمد ﷺ کا کوئی بھی خوبصورت پیغام نہیں جاسکتا تھا،اگر آپ مجھے نہ اکساتے۔یہاں آپ کے لئے ایک پیغام ہے’’اللہ رحیم ہے ان لوگوں کے لئے جودوسروں پر رحم کرتے ہیں۔پوجا ناگر کا یہ تاثر اور مشورہ بھی پڑھ لیجیے؛پیغمبرصاحب ؐپر اعتراض کرنے والے لوگوں کو میرا مشورہ ہے کہ اگر آپ انسان بن کر ان کی سوانح ایک بار بھی پڑھ لیں گے تو نفرت کرنا بھول جائیں گے۔(ہم سنگھی میڈیا کے شکرگذار ہیں :مضمون سے ماخوذ)
بہرحال نبی پاک ﷺ کی ذات مبارک ساری انسانیت کے لئے رحمت ہے ،آپﷺ کی تعلیمات ساری انسانیت کے لئے ہے،آپ ساری انسانیت کے نبی اور خاتم النبیین ہیں۔ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے نبی ﷺ سے محبت کریں ،ان کے اخلاق وکردار کو اپنائیں ،ان کی مبارک سیرت کو زندگی کا حصہ بنائیں،اندھیروں میں بھٹکتی انسانیت کو ان کی تعلیمات کی روشنی میں لانے کی فکر کریں،اپنی خداد اد صلاحیت کو صحیح استعمال کرکے ان کی سیرت کو عام کرنے کی کوشش کریں،بالخصوص نوجوان اپنی زندگی کو سمجھیں ،فضول اور لایعنی چیزوں سے باز آجائیں اور اسوہ ٔ رسول ﷺ کے مطابق خود کو ڈھال کر سارے عالم میں تعلیمات ِ نبیﷺ کے علمبردار بن جائیں ،بلاشبہ انسانیت پیاسی ہے ،اور دنیا کی نگاہیں منتظر ہیں کہ کوئی آئے توسہی جو انہیں صحیح راستہ دکھائے،دلوں کا سکون نصیب ہوجائے ،اس کے لئے ہمیں کمر بستہ ہونا ضروری ہے،اپنے اپنے میدان میں رہتے ہوئے خاموش انداز میں سیرت ِ رسول ﷺ کو اخلاق وکردار کے پاکیز ہ و خوبصورت جوہر سے آراستہ ہوکر پیش کرناہے۔ہم بتائیں کہ ہم وہ مسلمان ہے جو نبی ﷺ سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں اور ان کی ذات ِ بابرکت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرسکتے ہیں،تم نے ہمارے نبی ﷺ کو نہیں جانا ،ان کے لاتعداد احسانات کا اندازہ تمہیں نہیں ،ان کی بے پناہ محبتوں کا تمہیں علم نہیں ،انسانیت کے لئے ان کے دکھ ودرد کو تم نے سمجھا نہیں ،آؤ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبیﷺ کیسے ہیں۔۔۔۔
اک پل کے لئے دنیا میں کہیں توہین ِ نبی منظور نہیں
آقاؐکے سپاہی زندہ ہیں ،آقاؐ کے فدائی زندہ ہیں
زندہ ہیںخدام ِ دین ِ مبیں ،توہین ِ نبی منظور نہیں