اسلامیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

اعتدال : امت ِمسلمہ کا خصوصی امتیاز

’’اعتدال‘‘ دین محمدی کا امتیازہے،امت ِ محمدیہ کوجوشرف وعزت سے نوازا گیااس کی ایک وجہ اس امت کا راہ ِ اعتدال پر قائم ہوناہے۔کسی بھی چیزمیں نہ کمی کی جائے اور نہ زیادتی بلکہ درمیانی راہ اختیار کرنا ہی اعتدال کہلاتا ہے۔اللہ تعالی نے دنیاکے نظام میں بھی اعتدال ہی کو رکھا ہے اور جب کبھی کوئی چیزاعتدال سے ہٹ جاتی ہے تو پھر وہ انسانوں کے لئے ہلاکت اور نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔اگر ہم اس کو دیکھناچاہیں تو ایک طائرانہ نظر کائنات کے نظام پر ڈال سکتے ہیں۔ پانی انسان کی ضرورت ہے اگر وہ میسر نہ ہوتو انسان پیاسا مرجائے ،پانی سے انسانوں کی بہت ساری ضرورتیں پوری ہوتی ہیں ،لیکن اگر یہی پانی اپنے دائرہ سے نکل کر ،تالاب ،دریاؤں اور سمندروں کی حدوں کو پار کرکے بستیوں میں داخل ہوجائے تو شہر کے شہر ڈوب جاتے ہیں اور تباہ ہوجاتے ہیں ،بارش سے کھیت وکھلیان سیراب ہوتے ہیںلیکن بارش اگر اپنی مقدار سے زیادہ ہوجائے تو پھر سیلاب وطوفان کی شکل میں بستیوں کو غرق کردیتی ہے۔ہوا کے چلنے سے ماحول وموسم میں خوشگواری پیداہوتی ہیں لیکن یہی ہوائیں جب تیز وتند ہوجائیں تو اتھل پتھل مچاکررکھ دیتی ہیںاور نظام کو تہ وبالا کردیتی ہیں ،غذا سے انسانی جسم کو قوت وطاقت ملتی ہے اور توانائی حاصل ہوتی ہے لیکن اگر غذاکے سلسلہ میں بے اعتدالی اپنائے اور جو چاہے کھانا شروع کردے ،جب چاہے کھانا شروع کردے تو پھر انسانی صحت کے لئے نقصان کاسبب بن جاتی ہے۔غرض یہ کہ اسی طرح کی بہت ساری چیزیں ہیں دنیا کی جو اگرنظام ِ اعتدال سے باہر ہوجائیں تو رحمت کے بجائے زحمت ،راحت کے بجائے مصیبت میں تبدیل ہوجاتی ہیں،آپ اگر جائزہ لینا شروع کردیں تو ہر چیز میں یہ نظام کارفرمانظر آئے گا۔اسی لئے حکیم وخبیر پرودگار نے دنیا کے نظام کو بھی اسی پر قائم فرمایا ہے۔اور انسانوں کو اعتدال والی تعلیمات سے نوازا ہے ۔دنیا میں جن قوموں نے اعتدال کے راستہ کو چھوڑا وہ گمراہ ہوئے اور عذاب ِ الہی کا شکار بنے ۔قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ اللہ تعالی نے اُن کے حالات وواقعات کو بیان فرمایا کہ جن لوگوں نے بے اعتدالی اختیارکی اور افراط وتفریط کاشکار ہوکر مردود وملعون قرارپائے۔
قرآن کریم میں اس امت کی خصوصیت کوبیان کرتے ہوئے فرمایاگیا:وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْاشُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا۔( البقرہ:۱۲۳)’’اور(مسلمانو!)اس طرح ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو،اور رسول تم پر گواہ بنے۔‘‘آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع ؒ لکھتے ہیںکہ:امت محمدیہ علی صاحبہاالصلوۃ والسلام کی جو فضیلت آیت مذکورہ میں بتلائی گئی ’’ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا‘‘یعنی ہم نے تمھیں ایک معتدل امت بنائی ہے ،یہ بولنے اور لکھنے میں تو ایک لفظ ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے کسی قوم یا شخص میں جتنے کمالات اس دنیا میں ہوسکتے ہیں ان سب کے لئے حاوی اورجامع ہے۔اس میں امت محمدیہ کو’’ امت وسط ‘‘یعنی معتدل امت فرماکر یہ بتلادیا کہ انسان کا جوہر ِ شرافت وفضیلت ان میں بدرجہ ٔکمال موجود ہے۔اورجس غرض کے لئے یہ آسمان وزمین کا سارانظام ہے اور جس کے لئے انبیاء کرام ؑ اور آسمانی کتابیں بھیجی گئی ہیں ،یہ امت اس میں ساری امتوں سے ممتاز اور افضل ہے۔‘‘(معارف القرآن:۱/۳۶۸)
ہر مسلمان نماز میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتا ہے جس میں صراط ِ مستقیم کی دعامانگنے کا حکم دیا گیااور جو لوگ راہ ِ اعتدال سے ہٹ کر افراط وتفریط کا شکار ہوگئے ان کے طریقے سے بچنے کی التجا اللہ تعالی سے کرتا ہے۔چناں چہ فرمایاگیا:اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَالضَّالِّیْنَ۔(الفاتحہ:۷،۶)’’ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطافرمایااُن لوگوں کے راستے کی جن پرتونے انعام کیا ہے ۔نہ کہ اُن لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے۔،اورنہ اُن کے راستے کی جوبھٹکے ہوئے ہیں۔‘‘علامہ یوسف القرضاوی مدظلہ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیںکہ:’’صرف اسلام ہی ’’اعتدال‘‘کی اس امتیازی خصوصیت کا حامل ہے۔تفسیر ماثورمیں ’’مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ ‘‘ کی مثال کے طور پر یہود اور’’ضَآلِّیْنَ‘‘ کی مثال کے طورپر نصاری کا تذکرہ کیاگیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سارے مسائل میں یہود ونصاری افراط وتفریط کا شکاررہے ہیں۔یہودنے انبیاکو قتل کیاتو نصاری نے نبی کوخدا کابیٹا بنادیا۔یہودیوں نے تحریم میں افراط کیاتو نصرانیوں نے تحلیل میں۔۔۔مسلمانوں کو اسلام کی ہدایت ہے کہ وہ فریقین کی انتہاپسندی سے اجتناب کریں ،اس ’’معتدل منہج ‘‘ یا’’صراطِ مستقیم‘‘پر کاربند رہیں جس پر وہ تمام مقبولان ِبارگاہ ِ خداوندی کاربندرہے جن سے اللہ راضی ہوا ،اور جن پر اس کے انعامات ہوئے ،یعنی انبیاء،صدیقین ،شہدااور صالحین۔‘‘(اسلام کا نظریہ ٔ اعتدال اوراس کے اہم عناصر:۱۸)
عقائد ،عبادات،معاملات،معاشرت ہرچیز میں اسلام نے اعتدال کی تعلیم دی ہے۔نبی کریم ﷺ عبادات میں اعتدال کی تعلیم دیتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے فرمایاجب نبی ﷺ کو یہ معلوم ہوا کہ یہ ساری رات عبادت کرتے ہیں اور ہر دن روزہ رکھتے ہیں،آپ نے فرمایا ایسا مت کرو،کبھی روزہ رکھواورکبھی نہ رکھو،نماز پڑھواور سوؤ بھی ،کیوں کہ تم پر تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے ،تمہاری جان کا بھی حق ہے ،اور تمہاری بیوی کا بھی حق ہے۔( بخاری:۶۱۳۴)اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے ،دوستی کرنے ،معاشرت اختیارکرنے ،ہر چیز میں اسلام نے اعتدال کی تعلیمات دی ہیں۔
موجودہ دور میں بہت سارے شعبوں کے اندر بے اعتدالی پائی جارہی ہے،جماعتوں اور تنظیموں کے اندر بے اعتدالی بڑھ رہی ہے۔اور غلو وشدت پسندی پروان چڑھ رہی ہے،بے اعتدالی کا آنا اور غلو کا بڑھنا یہ بہت نقصان دہ ہے۔دینی اور دنیوی اعتبار سے اس کے نتائج خطرناک ہیں۔دین کے مختلف شعبے ہیں اور اللہ تعالی نے مختلف انداز سے کام کرنے کے مواقع رکھے ہیں ۔لہذا کوئی اگر اپنی ہی محنت کو دین سمجھے اور اپنے ہی طریقہ کو آخری تصو ر کرے ،دوسروں کی بے جا تنقیص ،غیر ضروری عیب جوئی میں لگ جائے اور دیگر میدانوں میں دین کے کام کرنے والوں کو معمولی سمجھنے لگے تو یہ سراسربے اعتدالی کا راستہ ہے۔بے اعتدالی کیسے داخل ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں کیا اثرات ظاہر ہوتے ہیں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ نے بڑے ہی جامع اور مؤثر انداز میں بیان کیا ہے کہ :’’عام طور پر دوچیزیں انسان کو راہ ِ اعتدال سے منحرف کردیتی ہیں،محبت اور عداوت ۔محبت انسان سے بصیرت ہی نہیں بصارت بھی چھین لیتی ہے،اور اسے اپنے محبوب کی برائیوں میں بھی بھلائیاں نظر آتی ہیں۔یہی حال نفرت وعداوت کا ہے،دشمن میں رائی جیسی برائی ہوتو وہ پہاڑ محسوس ہوتی ہے،اور پہاڑ جیسی خوبی ہوتو وہ رائی سے بھی حقیر نظر آتی ہے،اسلام سے پہلے جو قومیں گمراہ ہوئی ،ان کی گمراہی کا باعث یہی ہوا۔غلوآمیز محبت،یا انکارونفرت۔اسلام نے اسے اس میں بھی اعتدال کا حکم دیا،دشمن بھی ہوتو اس کی غیبت اور بہتان تراشی سے منع فرمایاگیا،دوست اور مرکز ِ عقیدت ہو تب بھی اس کی تعریف میں غلو اور مبالغے اور تملق وخوشامد کو ناپسند کیا گیا۔‘‘
جس مبار ک دین نے اور جس محسن نبی نے امت کو اعتدال کی تعلیمات سے سرفراز کیا ،امت آج ان تمام تعلیمات کو پس ِ پشت ڈال کر ہر طرح کی بے اعتدالیوں کا شکار بنی ہوئی ہے ،دنیا کے معاملے میں اسراف وفضول خرچی ،شادی بیاہ اور دیگر تقریبا ت میں نمود ونمائش اورپیسوں کی پامالی ،اور دین کے اندر غلو ،شدت پسندی اور بے اعتدالی بڑھتی جارہی ہے ،اسی بے اعتدالی کے نتیجے میں قدم قدم پر اختلافات پیدا ہورہے ہیں ،دوریاں بڑھ رہی ہیں ،اور مسلمان خود آپس میں ایک دوسرے کے لئے خلاف لڑنے ،جھگڑنے ،مارنے کے لئے تیارکھڑاہوا ہے ،اور دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے ،مسلمان خود دشمنوں کو ہنسنے مذاق اڑانے کا موقع دے رہے ہیں۔سخت ضرورت ہے کہ راہ ِ اعتدال کو اپنائیں ،صراط ِ مستقیم پر گامزن ہوں،غلو وشدت پسندی سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے دین کے ہرکام کی قدر کرنے والے بنیں ،ہر ایک کا احترام کرنے والے بنیں اور دنیا کے امور میں بھی اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کریں،مزاج ِ شریعت کو سمجھیں ،نبی ﷺ کی تعلیمات پرکاربند ہوں ،اپنی سوچ ،فکر ،گفتگو،معاملات ،معاشرت ہر چیز میں اعتدال کو اپنانے والے بنیں۔یادرکھیں دنیا میں ایسے ہی لوگ مقبول ہوتے ہیں جن کے فکر ومزاج کے اندر اعتدال ہوتا ہے اورایسے ہی کاموں سے لوگوں کو نفع ہوتاہے جس کی بنیاد اعتدال اور اخلاص پر ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×