شخصیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

ایک پھول جو اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا؛ نوجوان عالم ِ دین مفتی علی صدیقی ندوی کاانتقال

 

موت وحیات کا مالک اللہ ہے۔انسان اپنے اختیار سے نہ دنیا میں آتا ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے دنیا سے جاتا ہے۔موٹ ایک اٹل حقیقت ہے ،جس کا انکار کوئی نہیں کرسکتا،ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور دنیا سے رخصت ہوکر دائمی اور ابدی زندگی کی طرف کوچ کرنا ہے۔یہ دنیا عارضی ہے اور ایک دن فنا ہونے والی ہے اور اس دنیامیں بسنے والا ہر انسان بھی مرنے والا ہے۔لیکن کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جن کا چلے جانابہت ہی زیادہ غم وملال کا باعث ہوتا ہے،اور ان کی یادیں دل وماغ پر نقش ہوجاتی ہیں۔
چناں چہ کل بتاریخ30اپریل2019ء بروز منگل نماز ِ عشاء سے قبل یہ اندوہناک خبر ملی کہ شہر کریم نگر کے جواں سال ،نوفارغ ،ہونہار،باصلاحیت ،نیک مزاج اور خاموش صفت عالم ِ دین مفتی علی صدیقی ندوی کا انتقال ہوچکا ہے۔خبر غیر متوقع تھی اس لئے یقین نہیں آرہا تھا میں نے باربار سوال کیا کہ کس کاانتقال ہوا تو یہی توثیق ہوتی گئی کہ مفتی علی صدیقی اب دنیا میں نہیں رہے۔اس کے بعد دوسرے بھی فون آنے شروع ہوئے اور واٹس ایپ پر یہ خبر بھی آئی کہ مفتی علی صدیقی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے عشاء سے کچھ پہلے دنیا سے رخصت ہوگئے۔تھوڑی دیر کے لئے سکتہ طاری ہوگیا اور دل وماغ پر حیرانی چھاگئی ۔لیکن بہر حال زندگی اور موت کے فیصلوں میں انسان کا اختیار نہیں چلتا بلکہ پروردگار عالم کی مشیت کارفرماہوتی ہے،اسی کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق یہ دنیا چل رہی ہے اور اسی کی حکمت سے کارہائے جہاں انجام پاتے ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالی فرمایا:ولن یؤخر اللہ نفسا اذاجاء اجلھا واللہ خبیر بماتعملون۔(المنفقون:۱۱)’’اورجب کسی کا معین وقت آجائے گا تو اللہ اُسے ہر گزمہلت نہیں دے گا،اور جو کچھ تم کرتے ہو ،اللہ اُس سے پوری طرح باخبرہے۔‘‘
عشاء کی نماز پڑھا کر ہم مفتی علی صدیقی کے گھر پہنچے ،چاروں طرف خلق ِ خد ا کا ہجوم تھا ،ہم نے بھی دیدارکیا اور ہیں پر یہ تفصیل بھی معلوم ہوئی کہ اچانک سینے میں درد محسوس ہوا،جس پر قریبی دواخانہ کو لے جایاگیا،دواخانے کو پہنچنے سے قبل ہی درمیان ہی میں روح پرواز کرگئی اور نہایت پرسکون انداز میں ایک دنیا سے دوسری دنیا منتقل ہوگئے ۔
مفتی علی صدیقی ندوی مجھ سے چھوٹے تھے ،اور فراغت بھی بالکل نئی تھی،پہلے سے کوئی باضابطہ ملاقاتیں تو نہیں تھیں،البتہ ادھر چار،پانچ سالوںسے علیک سلیک کا سلسلہ شروع ہوا،معلوم ہواکہ وہ ندوۃ العلماء میں زیر تعلیم ہیں۔ پھردوسال قبل ہی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنوسے فراغت ہوئی،اور اسی سال کے شروع میں وہ رشتہ ٔ ازدواج سے بھی منسلک ہوئے۔پاکیزہ اخلاق،خاموش مزاج،نیک صفت ،قابل ،لائق عالم دین تھے،شہر میںجامعہ صدیقہ فیض العلم میں عالمیت کی تدریسی خدمات سے وابستہ تھے اور مختلف مقامات پر خطابات بھی کرلیاکرتے تھے۔ماہنامہ الاصلاح کی نسبت پر میری ان سے ہر ماہ بات ہوا کرتی تھی،یاکم ازکم واٹس ایپ مسیج کے ذریعہ رابطہ ہوجایا کرتاتھا۔ اور میں بعض مرتبہ کسی متعین موضوع پر لکھنے کی فرمائش کرتا اور وہ مضمون لکھ کر مجھے ارسال کرتے،از خود ٹائپ کرکے ای میل کردیتے،جس کی وجہ سے بڑی سہولت ہوجایاکرتی تھی۔ماہ ِ مئی کے شمار ہ میں ان کا مضمون شامل نہیں ہوسکا،کیوں کہ مدرسہ میں تعلیمی سال کے اختتام کی مصروفیات کی وجہ سے وہ منہمک رہے ،ورنہ گزشتہ ماہ اپریل کے شمارے میں بھی ان کے مضمون ’’صفہ واصحاب ِ صفہ ‘‘کی دوسری وآخری قسط شامل ہے۔ندوی فاضل تھے ، لکھنے کا اچھا سلیقہ تھااور عربی کتابوں سے اپنے مضمون کو مدلل بھی کیاکرتے تھے۔میں نے اس سے قبل ان سے بیت المقدس کے عنوان پر بھی مضمون لکھوایاتھا ، بہت خوب لکھاتھا اور ساتھ میں بیت المقدس کی تاریخ کو بھی بڑے سلیقے سے جمع کیاتھا۔
ان سے میری آخری ملاقات ان کے مدرسہ کے سالانہ مسابقتی انجمن میں ہوئی ،اس کے بعد بھی آمد ورفت میں کہیں ناکہیں نظرآجاتے ۔کس نے سوچا تھا کہ اتنا جلدی یہ رخصت ِ سفر باندھیںگے ،کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ بہت ساری صلاحیتوں کے مالک مفتی علیؒصرف ۲۷ سال کی عمرمیں ہمیں داغ ِ مفارقت دے جائیں گے اور شہر کی فضا کو سوگوار کردیں گے،علمی دنیا کومحروم کردیں گے اور ان سے وابستہ امیدیں اور توقعات بس خواب وخیال ہی کا حصہ رہ جائیں گی۔
یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا کھلا ضرور مگر کھل کر مسکرانہ سکا
وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے اور بہنوں نے اکیلے بھائی تھے،بلاشبہ اہل خانہ کو بے پناہ غم والم ہوگا ۔سارا شہر ان کے انتقال کی خبر سے غمگین تھا،علماء وعوام ہر کوئی ان کی موت سے افسردہ تھے۔یکم مئی2019ء بروز چہارشنبہ دوبجے شہر کے وسیع وعریض میدان ’’سرکس گراؤنڈ ‘‘ میں نماز ِ جنازہ مفتی محمد اعتماد الحق صاحب قاسمی کی امامت میں اداکی گئی ،اور یقینا یہ بھی شہر کا ایک تاریخی جنازہ تھا کہ ایک کم عمر وجواں سال عالم ِ دین کی موت پر شہر امڈآیااور بھرپورخراج ِ تحسین پیش کیا،اہل علم کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور عامۃ المسلمین کا بھی بڑا مجمع موجود تھا۔
مفتی علی صدیقی ندوی ؒ کی موت نے ہر کسی کو جھنجھوڑکر رکھ دیااور زندگی کی بے ثباتی ،ا س کی ناپائیداری کی حقیقت کو واضح کردیا ،موت کے یہاں کسی کی تفریق نہیں ہے،عالم وجاہل ،شہری ویہاتی ،مالدار وغریب ،کم عمروسن رسیدہ ،بچہ وبوڑھاکسی کی کوئی تقسیم نہیں ہے ،بلکہ ہر کوئی کبھی بھی موت کا شکار ہوسکتا ہے ،اس وقت کے آنے سے پہلے انسان کو تیار ی کرنا ضروری ہے،او ر موت کا کوئی وقت متعین نہیں ہے،اس لئے ہمہ وقت انسان کو ایسے اعمال کرتے رہنا چاہیے کہ خداکے حضور سرخروہوکر حاضر ہوسکیں۔
شیخ سعدی ؒ نے کتنا اہم پیغام اپنے شعر میں دیا ہے کہ:
خیرے کُن اے فلاں وغنیمت شمار زاں پیشترکہ بانگ براید فلاںنماند
(اے فلاں (اے انسان) کوئی نیکی کرلے،اور اپنی عمر کو غنیمت سمجھ ،اس سے پہلے کہ آواز آئے کہ فلاں نہ رہا۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×