اسلامیات

شہاد ت ِ حسین ؓ کا پیغام

سیدنا حضرت حسین ؓ کی شہادت تاریخ کاایک الم ناک سانحہ ہے ،جس کو امت کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔کربلا کی سرزمین پر نبی ﷺ کے مبارک اور بابرکت خاندان کا مقدس ترین لہو بہااور خانوادہ ٔ نبوت کے چشم وچراغ حضرت حسین ؓ اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ جام ِ شہادت نوش فرماکر مقصد ِ زندگی کا ناقابل ِ فراموش سبق دے گئے۔بقول امام الہند مولانا ابوالکلا م آزادؒ ’’خلفاے راشدین کے عہد کے بعد جس واقعہ نے اسلام کی دینی ،سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے وہ ان کی شہادت کا عظیم واقعہ ہے ۔بغیر کسی مبالغہ کے کہاجاسکتا ہے کہ دنیا کے کسی الم ناک حادثہ پر نسل ِ انسانی کے اس قدر آنسو نہ بہے ہوں گے ،جس قدر اس حادثہ پر بہے ہیں،تیرہ سو برس کے اندر تیرہ سو محرم گذرچکے ہیں اور ہر محرم اس حادثہ کی یاد تازہ کرتا رہا ہے۔‘‘
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قدر عظیم شہادت کے باوجود آج ملت نے آپؓ کی قربانیوں اور مقصود ِ شہادت کوفراموش کردیا ،اور صرف محرم کے مہینے میں چند دنوں کے لئے تذکرہ ٔ شہادت کو بیان کرنا اور اس واقعہ کو ذکر کرنا کافی سمجھ لیا ہے۔دین کے لئے اور نبوی تعلیمات کے لئے جو ناقابل ِ فراموش کارنامہ حضرت حسین ؓ اور آپ کے مبارک خاندان نے انجام دیا اس کو نظر انداز کردیا ۔ہمیں چاہیے کہ ہم شہادت ِ حسین ؓ کے مقصود کو سمجھیں ،اس سے پیغام حاصل کریں اور تیرہ وتاریک زندگیوں کو روشن ومنور کریں۔
سیدنا حسین ؓ کی شہادت زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں کیاسبق اور پیغام دیتی ہے اس کو حضر ت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:’’جگرگوشہ ٔ رسول ﷺ سید شباب اہل الجنۃ حضرت حسین ؓ کی دردناک مظلومانہ شہادت پر تو زمین وآسمان روئے،جنات روئے،جنگل کے جانور متاثرہوئے،انسان اور پھر مسلمان توایساکون ہے جو اس کا درد محسوس نہ کرے۔یاکسی زمانہ میں بھول جائے،لیکن شہید ِ کربلاؓ کی روح مقدس درد وغم کا رسمی مظاہرہ کرنے والوں کی بجائے ان لوگوں کو ڈھونڈتی ہے جو ان کے درد کے شریک اور مقصد کے ساتھی ہوں،ان کی خاموش مگر زندہ ٔ جاوید زبان ِ مبارک مسلمانوں کو ہمیشہ اس مقصد ِعظیم کی دعوت دیتی رہتی ہے جس کے لئے حضرت حسین ؓ بے چین ہوکر مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کوفہ جانے کے لئے مجبور تھے اور جس کے لئے اپنے سامنے اپنی اولاد اور اپنے اہل ِ بیت کو قربان کرکے خود قربان ہوگئے۔واقعہ ٔ شہادت کو اول سے آخر تک دیکھئے۔حضرت حسین ؓ کے خطوط اور خطبات کو غور سے پڑھئے۔آپ کو معلوم ہوگا کہ مقصد یہ تھا:٭کتاب وسنت کے قانو ن کو صحیح طور پر رواج دینا۔٭اسلام کے نظام ِ عدل کو از سرنو قائم کرنا۔٭اسلام میں خلافت ِ نبوت کے بجائے ملوکیت وآمریت کی بدعت کے مقابلہ میں مسلسل جہاد۔٭حق کے مقابلہ میں زور وزرکی نمائشوں سے مرعوب نہ ہونا۔٭حق کے لئے اپنا جان ومال اور اولاد سب قربان کردینا۔٭خوف وہراس اور مصیبت ومشقت میں نہ گھبرانااور ہروقت اللہ تعالی کویادرکھنااور اسی پر توکل اور ہرحال میں اللہ تعالی کا شکر اداکرنا۔ہے کوئی جگر گوشہ ٔ رسول ﷺ ،مظلوم ِ کربلا ،شہید ِجوروفاکی اس پکار کوسنے اوران کے مشن کو ان کے نقشِ قدم پر انجام دینے کے لئے تیار ہو،ان کے اخلاق فاضلہ اور اعمالِ حسنہ کی پیروی کو اپنی زندگی کامقصد ٹھہرائے۔۔۔(شہید ِ کربلا:۷)
سیدنا حسین ؓ نے انسانوں کو سبق دیا کہ جان جاتی ہے جائے لیکن خداکے حضور حاضر ہونے اور وظیفہ ٔ بندگی کو اداکرنے میں کوتاہی نہ کی جائے ،چناں چہ آپ ؓ نے لڑائی کے خونریز معرکہ میں بھی ادائیگی ٔ نماز کا اہتمام فرمایا۔لکھا ہے کہ :حضرت حسین ؓ کے اکثر رفقاشہیدہوچکے تھے،اور دشمن کے دستے حضرت حسین ؓ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ابوشمامہ صائدی نے عرض کیا کہ میری جان آپ پر قربان ہو،میں چاہتاہوں کہ آپ کے سامنے قتل کیا جاؤں،لیکن یہ دل یہ چاہتا ہے کہ ظہر کا وقت ہوچکا ہے ،یہ نماز اداکرکے پروردگار کے سامنے جاؤں،حضرت حسین ؓ نے بہ آواز بلند فرمایاکہ جنگ ملتوی کرو،یہاں تک کہ ہم نماز پڑھ لیں،ایسی گھمسان جنگ میں کون سنتا تھا،طرفین سے قتل وقتال جاری تھا ،اور ابوشمامہ اسی حالت میں شہید ہوگئے ،اس کے بعد حضرت حسین ؓ نے اپنے چند اصحاب کے ساتھ نمازِ ظہر صلوۃ الخوف کے مطابق ادافرمائی۔( شہید کربلا:۸۱)
حضرت مولانا نافع صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ :حضرت حسین ؓ کی طرف سے اس مشکل اور شدیدمصیبت کے وقت میں بھی عبادت خداوندی کا پورا اہتمام پوری طرح ملحوظ رکھا گیااور نمازوں کو ضائع ہونے سے ہر مرحلہ پر بچا یا اور ان کو اداکرنے کے لئے پوری پوری سعی کی۔مؤرخین نے واقعہ کربلا کے کئی مراحل ذکر کئے ہیں ان میں ایک موقع پر ذکر کرتے ہیں کہ:سیدنا حسین ؓ اور ان کے ساتھیوں نے کربلا کے میدان میں رات گزاری اور ان کی صورت حال یہ تھی کہ یہ حضرات نماز پڑھ رہے تھے اور استغفار کررہے تھے اور اپنی جگہ دعائیں مانگ رہے تھے اور زاری او ر عاجزی میں مشغول تھے اور مقابل اسپ سواران ا ن کو گھیرے میں لے کر نگرانی کرتے ہوئے آس پاس گھوم رہے تھے۔۔۔۔۔ایسے شدید مراحل میں فرائض خداوندی ادافرماکر ائمہ کرام نے اپنے کردار سے واضح کردیا کہ اسلام میں نماز ایسا فریضہ ہے جو کسی وقت اور کسی مرحلہ میں معاف نہیں ہوسکتا۔اہل اسلام کو ا س سے عبرت ونصیحت حاصل کرنی چاہیے۔( فوائد نافعہ:۲/۲۵۹)
آج حضرت حسین ؓ کے ماننے والوں اور چاہنے والوں کو دیکھیں کہ ان کے یہاں نماز کی ادائیگی کاکس درجہ اہتمام ہے ؟اللہ تعالی نے آسانی اور سہولت کے ساتھ مسجدوں کو آباد کرنے اور نماز وں کو اداکرنے کے مواقع میسر فرمائے ہیں لیکن اس ذمہ داری کو اداکرنے میں ہم کتنے غافل ہیں؟
حضرت حسین ؓ نے کربلا میں مختلف موقعوں پر خطبات بھی دئیے ،لوگوں کو آگاہ بھی کیااور مقصد ِ حقیقی سے روشناس بھی کروایا۔حقیقت یہ ہے کہ کربلا کے میدان میں حضرت حسین ؓ ہوں ،یا مسجد ِ نبوی کے محراب میں حضرت عمرؓ ،مدینہ کی گلیوں میں حضرت عثمان ؓ ہوں،یا احد کے میدان میں حضرت حمزہ ؓ ہوں یا اس کے علاوہ دیگر بہت سے مواقع میں جان وتن لٹانے والے صحابہ کرام ؓکی الم انگیز اور دردناک شہادت کے واقعات یہ سب ہمیں سبق اور پیغام دیتے ہیں کہ دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لئے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں،نبی ﷺ کے کلمہ کو بلند کرنے اور انسانیت تک ابدی کامیابی کے پیغام کو پہنچانے کے لئے خود کو نچھاورکرنا پڑتا ہے۔یہی پوری اسلامی تاریخ کی ایک سچی حقیقت ہے کہ اسلام کے لئے ہر مومن کو آزمایاجائے گا،ہر مسلمان کو پرکھا جائے گا۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُتْرَکُوْا اَنْ یَقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاوَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ۔(العنکبوت:۲۔۳)’’کیالوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اُنہیں یونہی چھوڑدیا جائے گاکہ بس وہ یہ کہہ دیں کہ:’’ہم ایمان لے آئے‘‘اوراُن کو آزمایانہ جائے؟حالانکہ ہم نے اُن سب کی آزمائش کی ہے جو ان سے پہلے گزرچکے ہیں۔لہذا اللہ ضرور معلوم کرکے رہے گا کہ کون ہیں جنہوں نے سچائی سے کام لیا ہے،اور وہ یہ بھی معلوم کرکے رہے گا کہ کون جھوٹے ہیں۔‘‘ایک جگہ ارشاد فرمایا:وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِنَ الْخَوْف وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔( البقرۃ:۱۵۵)’’اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور،( کبھی) خوف سے،اور(کبھی)بھوک سے ،اور( کبھی )مال وجان اور پھلوں میںکمی کرکے۔اورجولوگ(ایسے حالات میں)صبر سے کام لیں اُن کوخوشخبری سنادو۔‘‘نبی کریم ﷺ نے فرمایا:یَأْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ اَلصَّابِرُ فِیْھِمْ عَلٰی دِیْنِہٖ کَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ۔(ترمذی:۲۱۹۱)یعنی لوگوں پر ایک زمانہ آئے گاجس میں اپنے دین پرثابت قدم رہنے والے کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی شخص آگ کے انگاروں سے مٹھی بھرلے۔‘‘
اسلام اللہ تعالی کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے ،اسی اسلام کی بنیاد پردین ودنیا کی کامیابی اور نجات ہے،اگر دامن ِ اسلام چھوٹ گیایا تعلیماتِ نبوی سے ہماری زندگیاں دور ہوگئیں تو نقصان اور خسارہ اٹھانا پڑے گا۔اسلام کی بقا اور اس کی حفاظت کے لئے مختلف انداز میں قربانی دینے کی ضرورت پڑتی ہے ۔کبھی خواہشات کی قربانیاں ،کبھی رسم ورواج کی قربانیاں،کبھی حرام وناجائز کی قربانیاں ،تبھی جاکر اسلام کی لذ ت اور اس کی حلاوت نصیب ہوگی ۔اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج مسلمان دین کے معاملہ میں نہایت درجہ سست اور لاپرواہ ہوچکے ہیں ،غفلت اور عدم ِ توجہ ہر دن بڑھتے ہی جارہی ہے،سنت وشریعت کی تعلیمات سے دوری میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔صحابہ کرام ؓ کی قربانیوں ،شہدائِ اسلام کی شہادتوں سے غافل ہوکر اپنی زندگی میں مست مگن ہیں۔نوجوان طبقہ خواہشات کو پورا کرنے میں اپنی ذمہ داریوں اور فرض ِ منصبی سے بالکل ناواقف ہوکر زندگی گزاررہا ہے۔انہوں نے شہادتِ حسین ؓ کے مقصد کو بھلادیا،اہل ِ بیت کی عظیم قربانیوں کو فراموش کردیا،صحابہ کرام ؓ کی جدوجہد کو نظر انداز کردیااور سب سے بڑھ کر اپنے آقاومحسن سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے دردوکڑھن اور ان کی فکروں کو بالائے طاق رکھ دیا اور غلط راستوں پر چلنے کے عادی ہوچکے ہیں۔اسلامی تاریخ کی یہ عظیم شہادتیں ہمیں یہی سبق دیتی ہیں کہ ہم بھی اپنے مقصدِ زندگی کو یادرکھیں ،دین کی سربلندی کا جذبہ ،اشاعت ِ اسلام کی تمنا،احیائے سنت کا ولولہ ہمارے بھی دلوں میں ہونا چاہیے اور اسی فکر ودرد میں ہمارے بھی شب وروز گزرنے چاہیے۔
یہ شہادت گہہ ِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×