سیاسی و سماجی

حدود میں رہو زمانہ اوقات میں رہے گا

            دورِ حاضر میں اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو مسخ کرنے اور دنیا سے بالخصوص سرزمین ہندوستان سےدین اسلام کو ناپید کرنے کی جو ناکام کوشش و سازش رچی جارہی ہے وہ ہم سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے، یہ بات واضح کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے، جس کی حفاظت کا ذمہ خود رب ذوالجلال نے لیا ہو اس کو اللہ کے حفظ وامان سے چھیننا بالکل محال ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے، {انانحن نزلناالذکر واناله لحافظون} (سورۃ الحجر ٩)اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے قرآن پاک کو اپنے حفظ و امان میں رکھا ہے ،جب قرآن کریم اللہ کے حفظ و امان میں آگیا تو لامحالہ دین بھی اللہ کے حفظ و امان میں آچکا، کیونکہ دین اسلام قرآن ہی میں مضمر ہے، الغرض موجودہ سرکاری حکومت نے ہندوستان کو ہندو راشٹر ملک بناکر جمہوریت کا قتل کرنے کے لیے نئی نئی تدابیر اختیار کررہی ہے، کبھی طلاق ثلاثہ کی بل کو پاس کروا کر تو کبھی NPR. NRC. CAA. کے ذریعے سے ہو، ہر طرف جمہوریت کے نام پر مختلف قوموں مختلف تنظیموں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اگر ہم لوگ پرامن احتجاج بھی کرتے ہیں تو بھی ہمیں بد نام کیا جارہا ہے، مگر وہ پولیس محکمہ( یعنی جو ملک کے محافظین) کے ساتھ مل کر بھی قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے ہیں تب بھی کوئی چرچا نہیں ہورہا ہے.
  ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
  وہ قتل بھی کرتے ہیں تو  چرچا نہیں ہوتا
           ہمیں ان پُر خطر حالات پر گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، مسلمان کبھی پیٹھ دکھاتا نہیں، مسلمان کبھی بزدل ہوتا نہیں، حالات کا آنا تو ایک ناگزیر امر ہے، انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین اور اولیاء اللہ پر بھی حالات آئے، بس ہمیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے نبیوں نے ان حالات کے موقع پر کیا کیا؟ جس کی وجہ سے کامیابی ان کے قدم چومی، ہمیں بھی انہی کے نقش قدم پر چلنا ہے، مایوس نہیں ہونا ہے، ہمارا کارساز صرف اور صرف اللہ تعالی ہے، حالات کے موقع پر انبیاء علیہم السلام کا ایمان کبھی خطرے میں نہیں پڑا، بس اللہ پر کامل یقین تھا، کامل بھروسہ تھا، تو یہی وجہ تھی کہ اللہ تبارک و تعالی کی مدد ہر قدم پر ان کے ساتھ تھی، چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام پر غیروں کی طرف سے حالات نہیں آئے، بس اپنوں نے ہی تکلیف پہنچائی تھی، خود ان کے سگے بھائی ان کے خلاف کھڑے ہوگئے تھے، سب نے مشورہ کرکے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک گہرے کنویں میں ڈال دیا، مگر اس اندھیرے اور گہرے کنویں میں بھی انہوں نے اللہ کو نہیں بھولا، تو پھر اللہ کی ایسی مدد آئی کہ ایک دن وہ آیاکہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے بادشاہ بن گئے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے خدا کا کرشمہ یہ ہوا کہ جو ان کے مخالفین تھے (اپنے سگے بھائی) قدموں میں آ کر گر گئے۔
کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی دربدر
 غم عاشقی تیرا شکریہ میں کہاں کہاں سے گزر گیا
کبھی راستوں میں تنہا  کبھی  ہوں برود صحرا
 میں جنوں کا ہمسفر ہوں میرا کوئی گھر نہیں ہے
       حضرت موسی علیہ السلام نے مشکل ترین حالات میں بھی اللہ پر توکل کیا، جب فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کا پیچھا کر رہا تھا، تو انہوں نے مع اپنے قوم کے دریائے نیل تک پہنچ گئے، ایسے موقع پر آگے بڑھیں گے تو ڈوب کر ہلاک ہو جائیں گے، پیچھے ہٹیں گے تو قتل کر دیے جائیں گے، ایسے مشکل وقت میں بھی انہوں نے اللہ کو یاد کیا تو اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کے لیے دریا میں راستے بنا دیے اور وہ اطمینان کے ساتھ گزر گئے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود نے آگ میں ڈالنے کا ارادہ کیا، حتی کہ آگ میں پھینک دیئے گئے، مگر انہوں نے ایسے وقت میں بھی نمرود ملعون کی طرف متوجہ نہیں ہوئے، بس اللہ کو یاد کیا تو اللہ نے آپ کے لئے آگ کو گل گلزار بنا دیا۔
       آج بھی ہو جو براہیم  سا  ایماں  پیدا
       تو آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
حرف آخر
        خوف کرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں، آج بھی وہ مدد آسکتی ہے، جس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے ظالم بھائیوں سے اور حضرت موسی علیہ السلام کو ملعون فرعون کے لشکر سے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دہکتی ہوئی آگ سے نجات دلائی، وہ خدا ازل سے ہے اور ابد تک موجود رہے گا، بس کسی اور کی طرف متوجہ اور آہ و بکا کئے بغیر اپنے پچھلے گناہوں سے ندامت کرتے ہوئے اللہ کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے، اپنے بازوے انکساری کو دربار ایزدی میں جھکا دینا ہے، اور پوری طرح اللہ کی طرف متوجہ ہوکر توکل علی اللہ کے لئے مجتمع ہونا ہے، پھر دیکھیں ضرور بالضرور اللہ کی مدد ہمارے ساتھ رہے گی،،۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×