اسلامیاتمفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

صرف عبادات ہی دین نہیں ؟

ہماری غلط سوچ، دین کے تعلق سے صحیح عدمِ واقفیت، مسلم معاشرے کے ذہن ودماغ پر مغربی تہذیب اور اس کے غلط اثرات کے چھاجانے، مزید برآ ںہماری کسل مندی، سست روی، دین بیزاری، دنیائے دنیئہ کی اندھی ہوس اور تڑپ نے ہمیں یہ باورکرایا ہے کہ دین محض عبادات کا نام ہے، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج یہی چیزیں عبادت واطاعت اور احکامِ خداوندی کی بجاآوری تصور کئے جاتے ہیں، معاشرت، معاملت اور اخلاقیات ان تمام شعبہائے حیات کو دین کی فہرست سے بالکل خارج کردیا گیا ہے،ان تمام شعبہ جات اور ان سے متعلق شرعی احکامات کی پاسداری، ان سے ضروری لگاؤ، وابستگی اور ان کا خاص اہتمام یہ دین کے مخصوص لوگوں کا کام تصور کیا جاتا ہے، جو جبہ،قبہ، شرعی داڑھی اور اسلامی لباس وہیئت کے حامل ہوں، یہی افراد ان تمام شعبہ جات کی مکمل رعایت کا اہتمام کریں، اور اس حوالے سے کسی قسم کی کمی یا کوتاہی پر وہی لعنت وملامت اور پوچھ گچھ کے مستحق ٹہریں، بقیہ دنیا دار طبقہ جس نے اسلامی معاشرت کالبادہ اپنے اوپر سے بالکل نکال پھینک دیا ہے۔ حالانکہ وہ بھی بزعم خود مسلمانی کے دعویدار ہیں۔
محض دنیا کے سازوسامان اوراس کی حقیر اور چند روزہ پونجی کے اکھٹا کرنے کو اپنا مطمح نظر اور خلاصۂ حیات بنایا ہوا ہے، خواہ ان کی معاشرت، لوگوں کے ساتھ برتاؤ، بڑوں چھوٹوں کی رعایت انکے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام ،پاس پڑوس، گھربار کے ساتھ ان کا رویہ کس قدر اذیت رساں اور تکلیف دہ کیوں نہ ہو وہ معاملات میں کس قدر کذب بیانی، دروغ گوئی، دھوکہ دہی، دغابازی، جھوٹ،ملاوٹ، چوری چکاری سے کیوں نہ کام لیں، یہ چیزیں ان کے حق میں معیوب اس وجہ سے نہیں گردانی جاتیں اور وہ خود اس حوالے سے اپنے لئے یوں سندِجواز فراہم کرلیتے ہیں کہ ہم تو ’’عامی‘‘ ہیں، حالانکہ یہ تصور بالکل غلط ہے کہ دین کا مخصوص طبقہ ہی ان شعبہ جات کا اہتمام والتزام کرے یا محض عبادت کا نام دین ہے، معاشرت، معاملت اور اخلاقیات سے اس کا کوئی واسطہ نہیں، بلکہ ان تمام شعبہ جات کو شرعی ڈھنگ ورنگ کے ساتھ ادا کرنا بجائے خود دین شمار ہوتا ہے، اس کیلئے بس تھوڑے سے طریقۂ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے، اس میں تھوڑی سی دقت ضرور ہوگی، بظاہر دنیوی نقصان بھی نظر آئے گا، کہیں اپنے نفس کے خلاف امور بھی درپیش ہوں گے، مگر ان شعبہ جات کو دینی رنگ وآہنگ عطا کرنے کا دوہرا فائدہ یہ ہوگا کہ دنیا بھی بن جائے گی، آخرت بھی سنور جائے گی اور عزت ووقار اور مقبولیت والی زندگی بھی نصیب ہوگی۔
دین کی اس فراخ دلانہ تقسیم کی مثال کسی اللہ والے نے یوں بیان کی ہے کہ ہمارا مطمح نظریہ ہوکہ ہر شعبہ سے متعلق شخص کو اس کا دین دیں، کسی کو اس کے پیشے سے الگ نہ کیا جائے، بلکہ اس کے متعلقہ پیشے کو ہی دینی رنگ میں رنگ دیا جائے، پائیلٹ کو پائیلٹ کا دین دیں، کاشت کار کو کاشت کار کادین اور تاجر کو تجارت کا دین، غرضیکہ دین یہ ہے کہ ہر شخص دیگر فرائض کے اہتمام کے ساتھ اس شعبہ سے متعلق شرعی احکامات کی پاسداری کرے، اس طرح اس کا یہ پیشہ اختیار کرنا اور اس کیلئے جدوجہد اور کوشش کرنا یہ تمام چیزیں سَرا سَر دین بن جائیں گی۔
تجارت اور کسب حلال کی اہمیت: تجارت بھی اگر احکام شرعیہ کی پابندی اور اصولِ تجارت کی رعایت واہتمام کے ساتھ ہو تو بجائے خود یہ پیشۂ تجارت کسب حلال کی سعی وکوشش کی تحت سراسر دین بن جائے گا، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ا نے کسبِ حلال کو بھی دیگر فرائض اسلام (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج) کی طرح ایک فریضہ قرار دیا ہے، فرماتے ہیں’’رزق حلال کی تلاش وجستجو بھی دیگر فرائض اسلام کی طرح ایک فریضہ ہے‘‘۔(مشکوٰۃ ۲۴۲)ایک دفعہ نبی کریم ا سے دریافت کیا گیا کہ کونسی کمائی اچھی ہے، فرمایا ’’آدمی کی اپنے ہاتھ کی کمائی، اور ہر مقبول خریدوفروخت یعنی جس میں خرید وفروخت کے تمام احکامات کی پاسداری کی گئی ہو، دھوکہ دہی، کھوٹ اور خیانت وغیرہ کا اس میں دخل نہ ہو‘‘۔(مشکوٰۃ ۲۴۲)کسب حلال کی اسی اہمیت اور مال حرام کے نقصان کے پیش نظر نبی کریم ا نے فرمایا’’جو جسم حرام غذا سے پرورش پاتا ہے وہ جنت میں نہیں جائے گا‘‘۔(مشکوٰۃ ۲۴۳)ابن عمرص فرماتے ہیں کہ جس شخص نے ایک کپڑا دس درہم میں خریدا ہو اور اس میں ایک درہم حرام بھی شامل ہو جب تک وہ شخص یہ کپڑا زیب تن کئے ہوئے ہوتا ہے ، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی، پھر فرماتے ہیں: اگر میں نے حضور اکرما کایہ ارشاد نہ سنا ہوتو میرے دونوں کان بہرے ہوں۔(مشکوٰۃ ۲۴۳)اس روایت سے بھی اسلام میں کسب حلال کی اہمیت اور اس کی عبادت کی قبولیت میں تاثیر بخوبی سمجھ میں آتی ہے۔ایک موقع سے نبی کریم ا نے سچے امانت دار اور احکام شرعیہ کے پاسدار تاجر کی فضیلت اور اس کے پیشہ تجارت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا: ’’سچا،امانت دار تاجر کا شمار، انبیائ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔(مشکوٰۃ ۲۴۳)اسی بارے میں مزید فرماتے ہیں: تجار کا شمار روزِ محشر فجّار میں ہوگا، سوائے ان تاجروں کے جو پاکیزگی اختیار کرتے ہوں، حسن معاملت اور سچائی کو اپناتے ہوں۔(مشکوٰۃ ۲۴۴)دراصل ان روایات کے ذکر سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ کسبِ حلال کیلئے پیشۂ تجارت کا اپنانا اگر تمام حلال وحرام کی امور کی رعایت اور دیگر فرائض کے اہتمام کے ساتھ ہو جیسا کہ مذکورہ بالاآخری حدیث خصوصاً اس بات کی نشاندہی کرتی ہے یہ تجارت بھی عبادت شمار ہوگی۔
نکاح اور حسنِ معاشرت بھی عبادت ہے:نکاح بھی اگر عفاف وپاکیزگی اور حصولِ اولاد کی نیت سے کیا جائے، بوقت نکاح شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ بے جار سوم ورواج سے بچاجائے، اور بعدِ نکاح، نکاح کے حقوق، اہل وعیال کے ساتھ حسنِ معاشرت اور حسنِ سلوک کا معاملہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر فرائض خداوندی میں بھی کسی قسم کا خلل واقع نہ ہو تو یہ عملِ نکاح اور عائلی زندگی اور اس کی تمام جدوجہد مکمل عبادت بن جائے گی۔اسی وجہ سے نبی کریم ا نے نکاح کو نصفِ ایمان کی تکمیل کا ذریعہ فرمایا اور نصفِ باقی (یعنی دیگر احکامِ خداوندی کی بجا آوری) کے بارے میں اللہ عزوجل سے ڈرنے کی تاکید کی۔(مشکوٰۃ ۲۶۸)مطلب یہ ہے تمام احکام شرعیہ کی پابندی واہتمام کے ساتھ یہ عمل نکاح اور اس کے ساتھ اس کے بعد والی تمام عائلی زندگی بھی عبادت کے دائرہ میں آجائے گی۔بلکہ اس سے آگے بڑھ کر آپ ا نے شوہر اور بیوی کے درمیان وظیفۂ زوجیت کی ادائیگی کو بھی (جب کہ وہ دونوں اس سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل خواہی ہوتے ہیں) صدقہ کے مانند عبادت قرار دیا ہے۔ نبی کریم ا کا ارشاد گرامی ہے:’’ہر تسبیح (سبحان اللّٰہ) صدقہ ہے، ہر تکبیر (اللّٰہ اکبر) صدقہ ہے، ہر تحمید (الحمداللّٰہ) صدقہ ہے، ہر تہلیل(لا الٰہ الا اللّٰہ) صدقہ ہے ہر امربالمعروف اور نہی عن المنکر صدقہ ہے، اور تمہارا اپنی بیوی کے ساتھ وظیفۂ زوجیت میں مشغولی بھی صدقہ ہے، صحابہؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر کوئی اس سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کا ارادہ رکھتا ہو تو کیا یہ بھی باعث اجر ہوگا، آپ ا نے فرمایا: یہ بتاؤ اگر یہ شخص اپنی اس ضرورت کی تکمیل حرام جگہ (اجنبیہ) سے کرتا تو یہ کیا اس کیلئے گناہ کا باعث نہ ہوتا؟ ایسے ہی جب اس نے حلال جگہ سے اپنی اس خواہش کی تکمیل کی ہے تو یہ اس کیلئے باعث اجر ہوگا۔(مشکوٰۃ ۱۶۸)
غرضیکہ نکاح بھی اگر اس سے عفاف اور پاکیزگی اور نیک اولاد کا حصول مقصود ہو اور یہ عمل نکاح دیگر فرائض کی ادائیگی کیلئے حارج نہ بنے تو یہ خود عبادت بن جائے گا، غریق رحمت فرمائے ہمارے امام اعظم امام ابوحنیفہ کو کہ انہوں نے عمل نکاح کو مسنون قرار دے کر دیگر نفلی عبادت کی مشغولی سے بہتر، نکاح اور اس کے متعلقات کی مشغولی کو بتلایا ہے اور اس طرح انہوں نے عبادت کاایک بڑا پہلو بھی عمل نکاح میں تلاش کرلیا ہے۔
حسن اخلاق بھی دین کا ایک شعبہ ہے:حسن اخلاق، لوگوں کے ساتھ محبت ومروت، احسان وسلوک، دوسروں کے دکھ درد میں شرکت، ہمدردی وغم خواری، ہر ایک کے مقام ومرتبہ کا پاس ولحاظ اور اس کے مناسب حال ان کا احترام یہ اوصاف بجائے خود سراسر دین ہیں، اس کے مقابل دوسروں کیلئے اذیت وتکلیف کاباعث ہونا، دوسروں سے اعراض، اپنائیت اور خودپسندی کے خول میں اپنے آپ کو بند کرلینا، لوگوں کے مقام ومرتبہ سے ناواقفیت اور اس کا عدمِ لحاظ یہ قابلِ مذمت وملامت اوصاف ہیں، ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں اچھا باور نہیں کیا جاتا۔
امام غزالی ؒ نے احیاء العلوم میں اخلاقِ فاضلہ اور رذیلہ میں منجملہ ان کا بھی ذکر فرمایا ہے، باہم اچھی طرح رہنا، عمدہ کام کرنا، پہلو کا ملائم رکھنا، خیرات دینا، کھانا کھلانا، سلام کا کرنا اور سلام کرنے والے کے سلام کا جواب دینا، مسلمان بیمار کو پوچھنا، نیک یا بد مسلمان کے جنازے کے ہمراہ جانا، اور جس شخص کے ہمسایہ میں رہے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر، اس کے ساتھ اچھی طرح رہنا، لوگوں میں صلح کرانا،جو دو کرم اور چشم پوشی کو اختیار کرنا، سلام میں ابتداء کرنا، غصہ پی جانا، بوڑھے مسلمان کی عزت کرنا، دعوت قبول کرنا، دوسروں کی دعوت کرنا، معاف کرنا، ان اوصاف کو اپنانے کی تاکید کی ہے جن سے باز رہنے کی تاکید کی ہے،وہ کھیل اور باطل غنا اور آلات لہوولعب سے دور رہنا، ہر کینہ اور عیب کی بات اور غیبت اور جھوٹ اور بخل اور زیادتی، کنجوسی اور جفا اور دغا اور فریب اور چغلی اور آپس میں بگاڑ ڈالنا ،اور قرابت کو توڑنا ، اور بد خلقی اور تکبراور شیخی اور اترانا او ر بڑائی مارنا اور فحش کہنا اور فحش سننا اور کینہ اور حسد اور بدفالی اور سرکشی اور حد سے گذرنا اور ظلم کرنا۔ (مختصر مذاق العارفین :جلد دوم :۲۱۷)
مذکور ہ بالا اوصاف حمیدہ کا اختیار کرنا اور اوصاف رذیلہ سے اپنی زندگی کو منزہ اور مصفّٰی کرنا یہ خود عبادت ہے ،شرعاًان کی رعایت اور ان کاپاس ولحاظ ضروری ہے ،یہ بھی دین کاجزولازمی ہے۔انھیں مکارم اخلاق کی اسلام میں اہمیت وقدر کو اجاگرکرتے ہو ئے حضورِ اکرم انے ارشاد فرمایا :’’انسان حسنِ اخلاق کے ذریعے رات کے تہجد گذار اور دن کے روزہ دار کے مقام کو حاصل کرلیتا ہے ۔(ابوداؤد ،مشکوۃ :۴۳۲)اسکے ساتھ مساویٔ اخلاق کے نقصانات بھی سن لیجئے کہ بد اخلاق ، معاملہ کا غیر درست، بدخوشخص باوجود کثرت عبادت کے روزِمحشر جہنم کا مستحق ٹھہرایا جائے گا ۔
ایک دفعہ نبی ٔ کریم انے فرمایا : تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟صحابہ نے عرض کیا: مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم ودینار نہ ہوں اور نہ کوئی سازوسامان ، آپ انے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز ،روزہ ،زکوۃ(دوسری مقبول عبادتیں)لیکر آئے گا ،مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی ، کسی پر تہمت لگائی ہوگی ،کسی کا مال کھایا ہوگا ،کسی کا خون بہایا ہوگا ، اور کسی کو مارا پیٹا ہوگا ،تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر )نیکیاں دی جائیں گی ،ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے ( اس کے حق کے بقدر)نیکیاں دی جائیں گی ،پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے ا سکی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کئے ہوں گے )ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیئے جائیں گے اور اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم ،باب تحریم الظلم،رقم :۶۵۷۹)
الغرض اس تحریر کے ذریعے اس بات کی نشان دہی مقصود ہے کہ آج یہ ذہن بن گیا ہے کہ محض عبادات ہی دین ہیں ،نماز ،روزہ ، ہوسکے تو زکوۃ اور حج کا اہتمام کرلو ،نجات کیلئے یہی کافی ہیں ،معاشرت ، معاملت اور اخلاق حمیدہ کا دین سے کوئی رشتہ اور تعلق نہیں،(اگر چہ عبادات کی طرف توجہ دینے والے مسلمانوں کی تعداد بھی بہت کم ہے )یہی وجہ ہے کہ معاملات کی درستگی ، معاشرتی اور عائلی زندگی کے حقوق کی ادائیگی ، اخلاقِ فاضلہ سے اپنی زندگی کو آراستہ کرنا اور اخلاق ذمیمہ سے بچاؤکی تدابیر بالکل ہی نہیں کی جاتیں،حالانکہ یہی چیزیں عبادات اور ایمانیات کے مکملات میں سے ہیں ،ورنہ ان چیزوں کے اہتمام کے بغیر نہ ایمان کی تکمیل ہوسکتی ہے اور نہ ہی ہماری عبادات شرفِ قبولیت سے سرفراز ہوسکتے ہیں ، مزید عبادات کا معاملہ یہ بھی ہے کہ یہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں ، اس میں کسی قسم کی کمی ، کوتاہی ہوجائے تو حق جل مجدہٗ چشم پوشی فرمادیں ، اپنی رحمت کاملہ اور اپنی بے پایاں کرم ونوازش سے اس کی معافی تلافی فرمادیں، عین ممکن ہے ،لیکن دین کے مذکورہ بالا شعبے یہ حق الناس سے تعلق رکھتے ہیں ، اور حقوق العباد کا معاملہ یہ ہے صاحبِ حق دنیا میں معاف کردے یا اس کی معافی مانگ لی جائے تو ٹھیک ہے ، ورنہ روزِقیامت ہر شخص کا حق صاحبِ حق کو دلوایا جائے گا ، اور ان حقوق کی ادائیگی ہی میں مذکورہ بالاحدیث کے مطابق اس شخص کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی۔
اور یہ بھی کہ معاملات ، معاشرت اور اخلاقیات ہی دین کے وہ ظاہری شعبے ہیں جو غیروں کے اسلام میں داخل ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں ، چونکہ ہمارا ایمان ہمارے قلب تک محدود ہوتا ہے ، ہماری نماز مسجد کی چہار دیواری میں ہوتی ہے ، ہمارا روزہ ہمارے پیٹ میں ، حج خانۂ کعبہ اور اسکے اطراف کے علاقے میں ، زکوۃ بھی قرآن کے بیان کے مطابق ہم مصارف زکوۃ پر صرف کرتے ہیں، ان تمام چیزوں سے غیروں کو کوئی واسطہ نہیں، ہماری معاشرت، معاملت اور ہمارے اخلاقیات سے ان کو باربار واسطہ پڑتا ہے،اگر ان تمام چیزوں میں شرعی احکام کے مطابق پورے کھرے اترتے ہیں تو وہ ہماری اسلام کی یہ دَین معاشرت ، حسن معاملت اور اخلاقی برتاؤکو دیکھ کر اسلام میں داخل ہوسکتے ہیں ،ہم نے ان شعبہ جات کو پسِ پشت ڈال کر اسلام اور فروغ اسلام کے کاز میں بڑی رکاوٹ پیدا کردی ہے ،ورنہ تاریخ اس قسم کے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے کہ مسلمانوں کے حسن معاشرت ومعاملت اور ان کے اخلاقِ کریمانہ کو دیکھ کر لاکھوں کروڑوں کی تعداد اسلام میں داخل ہوئی ہے ، ہمارے ایمانیات وعبادات کی مثال تو عمارت کی بنیاد کی سی ہے ، تعمیر کی مضبوطی، ٹکاؤواستقرار کی اصل گرچہ بنیاد ہی ہوتی ہے ، لیکن عمارت کا اوپر ی ڈھانچہ ہی لوگوں کی توجہ اورانکے نگاہوں کا مرکز ہوتاہے،ہماری معاشرت ،معاملت اور اخلاقیات کی مثال عبادات کے مقابل تعمیر کے اوپر ڈھانچہ کی سی ہے ،اگر ہماری معاشرت، معاملت اور اخلاقیات کے شعبے درست ہوں گے تو اسلام لوگوں کیلئے لائق توجہ ،باعث کشش ہوجائیگا ،پھر اسلام میں داخلے کا راستہ ہر کس وناکس کیلئے آسان ہوجائے گا ۔
اسی کو حضرت مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں یوں فرمایا:
’’ہم نے اگر ہندوستان کی اصل آبادی کو نظر انداز کیا اور اسلام کا پیغام اس تک نہیں پہنچایا اور اپنے اخلاق وکردا سے ان کے دل نہیں جیتا تو ( اللہ محفوظ رکھے) یہ ملک کسی بھی وقت اسپین بن سکتا ہے۔
اب مسلمانوں کو اس حقیقت کو سمجھ لیناچاہئے کہ اگر سو فیصد مسلمان تہجد گذار بن جائیںاور ہرمسلمان کے ہاتھ میں تسبیح آجائے او رہر مسلمان اشراق وچاشت کا پابند ہوجائے ۔۔۔۔ لیکن ملک کی اکثریت دین سے ناموس ہے اور دلوں میں زہر لئے بیٹھی ہے اور سینے میں انگارے سلگ رہے ہیں، تو خدانخواستہ جس وقت اس ملک میں کوئی بھونچال آئے گا تو ہم اپنی عبادتوں اور نوافل کے ساتھ بے دخل کریئے جائیںگے، اس وقت نوافل تونوافل جو بنیادی چیزیں ہیں وہ بھی نہیں رہیںگی، اس لئے وقت کا تقاضا ہیے کہ ہم اس آبادی کو اسلام سے مانوس کریں ، اسلام کا پیغام گھر گھر پہنچائیں،انہیں بتلائیں کہ اسلام کیا ہے ۔
ہم اپنی طرز زندگی، طر ز عمل ، اخلاق وخوش معاملگی ، دیانتداری اورمیٹھے بول سے ملک کی اکثریت کو مانوس کرنے کی کوشش کریں ۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عبادات کے مانند ہمارے یہ تمام شعبے بھی زندہ ہوجائیں ،اور ہم ان شعبہ جات کو بھی شرعی احکام کے تحت گذارتے ہوئے ان کو بھی سراسر عبادت واطاعت بنالیں ،دنیا وآخرت دونوں جہاں کی سرفرازی اور سربلندی سے ہمکنار ہوجائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×