اسلامیات

ملک کی تمام قوموں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے: عارف بالله شاہ جمال الرحمن صاحب مفتاحی کا بودہن میں فکر انگیز خطاب

مدرسہ روضۃ العلوم بودہن ضلع نظام آباد میں آج مولانا شاہ جمال الرحمان صاحب مفتاحی نے علماء کرام کی ایک خصوصی نشست سے خطاب کرتے ہوے فرمایا کہ آج پوری ملت اسلامیہ کو عموما اور وارثین انبیاء علماء کو خصوصا اسوہ نبوی پر عمل پیرا ہونے اور صفات نبوی اپنانے کی ضرورت ہے نبی اکرم کے وہ صفات جو نبوت کے ملنے سے پہلے تھے اسی کو اگر اپنالیا جاے تو سارے حالات کا مداوا بآسانی ہوجاے گا آج ہمارے اوپر جو خوف وہراس کے بادل منڈلارہے ہیں وہ یکسر ختم ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ہم ان صفات نبوی کو اپنالیں جو حضرت خدیجہ نے پہلی وحی کے نزول کے وقت اللہ کے نبی کے سامنے بیان کی تھیں
آپ صلہ رحمی کرتے ہیں  اور بوجھل لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں  مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں  اور معدوم یعنی بے سہارا لوگوں کے لیے کمائی کرتے ہیں  اور حق وخیر کے کاموں میں مددکرتے ہیں  مذکورہ صفات وہ ہیں جن کو گہرائ کے ساتھ دیکھا جائے تو تین چیزیں اس میں قدرے مشترک ملتی ہیں جو ان اخلاق حسنہ کا لب لباب اور اصل الاصول ہے
(1)طویل المدت رفاقت اور عرصہ دراز 15/سالہ وقفہ اپنے شوہر کے ساتھ گذارنے کے بعدایک بیوی کی زبان سے اپنے شوہر کی یہ صفات بیان ہورہی جس سے معلوم ہوتا ہیکہ وہ کس قدر اعلی کردار اور بلند اخلاق والے تھے چونکہ کوئ اپنا اپنوں کے بارہ میں یہ گواہی دینا کوی معمولی بات نہیں ہے
(2)بلالحاظ مذہب وملت بلاتفریق مسلک ومشرب ہر کسی کی محض انسانیت کی بنیاد پر خدمت کرنا یقینا اس عمل سے دوسرے لوگ حق کی جانب مائل ہوں گے اور یہی وہ عمل ہے جو مخالف کو بھی آپ کا موافق بنادے گا
(3)ان صفات سے متصف یونے والا ہر شخص دوسرے لوگوں کو متاثر کرے گا چونکہ ان افعال ہی میں اللہ تعالی نے یہ تاثیر رکھی ہے
اللہ کے نبی نے ان اخلاق کو نبوت کے ملنے سے پہلے ہی اپنایا تھا اور اسی اخلاق کے ہم اصلی امین اور حقدار ہیں اسی بناء پر ہمکو وارثین انبیاء کا لقب دیا گیا لیکن افسوس کہ آج ہم نے ان تمام چیزوں کو یکسر فراموش کردیا جس کی وجہ سے آج ذلیل وخوار ہورہے ہیں
مسلمانوں کو چاییے کہ وہ بلا غرض ہر کسی کا کام کریں جبتک غرض وابستہ رہے گی اخلاص نہیں آسکتاہے
مولانا نے فرمایا کہ اغراض کہ دوقسمیں ہیں
(1)مادی اغراض جیسے یہ کام کرلوں گا تو مال ملے گا مکان ملے دولت ملے گی کوئی پیسہ مل جاے گا وغیرہ (2)معنوی اغراض جیسے یہ کام کرلوں گا تو عزت مل جاے گی شہرت مل جائے گی چرچا ہوجاے گا
اور یہ دوسری والی غرض انتہای خطرناک ہے جس کو خودپسندی اور عجب کا نام دیا گیا ہے
اعجاب المرء بنفسہ
اللہ کے نبی نے اس کوسخت ترین مہلکات میں سےبتلایاہے اسی کو حب جاہ کہتے ہیں ایک ہوتا ہے حب باہ جو وقت اورعمر کے ساتھ کمزور پڑجاتا ہے لیکن حب جاہ ایک ایساروگ اور بیماری ہے جو وقت اور عمر کے اعتبار سے بڑھتا ہی رہتا ہے انسان کے اندر سب سے اخیر میں آنے والی صفت اخلاص ہے اور سب سے دیر میں جانے والی صفت وہ انانیت ہے جس کو حب جاہ کہتے ہیں یہ انسان سے جلدی نہیں جاتی ہے اسی لیے اللہ کے نبی نے ارشاد فرمایا کہ دوبھوکے بھیڑیوں کو اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جاے تو وہ اتنا نقصان نہیں پہونچائیں گے جتنا نقصان انسان کے دین کو اس اندر کے بھیڑیے سے پہونچتا ہے ایک مال کی محبت دوسرے جاہ کی محبت تو معلوم ہوا کہ جاہ انانیت اور معنوی غرض انسان کے لیےسم قاتل ہے ہمارا معاملہ بھی عجب ہے کہ حضور نے جس چیز کی کوئی قیمت نہیں بتلای ہم اس کو قیمتی سمجھ بیٹھے ہیں دنیا کی اور مال کی کوئ قیمت اللی اور اس کے نبی کے پاس نہیں ہے لیکن ہم لوگوں نے اسی کو سب سے زیادہ قیمتی سمجھ لیا ہے حالانکہ ہمارا علم نفسانی ہے اور حضور کا علم ربانی علم ہے وہ ربانی علم کے ذریعہ بتلاتے ہیں کہ دنیا کہ مال ومتاع کی کوئ قیمت نہیں لیکن ہم لوگ اس کو سمجھنے میں غلطی کررہے ہیں
اس لےء دوستو اس دنیا میں انسانیت کے کام آنا سیکھو مذہب اور مسلک کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض انسانیت کی بنیاد پر ہر ایک کے ساتھ صلہ رحمی کرنا مجبوروں اور بے کسو ں کی مدد کرنا مہامنوں کہ ضیافت کرنے میں کوئ فرق وامتیاز نہ کرنااور بیواؤں کے لیے ان کے کھانے پینے کا انتظام کرنا اور سچای وحق اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدداورتعاون کرنا سیکھو یہی حضور علیہ السلام کے اخلاق وکردار تھے جب تک مسلمان ان اوصاف کو نہیں اپنائیں گے اس وقت تک وہ کامیاب نہیں ہوسکتے چونکہ انسانیت سے بڑھ کر کوئ مذہب نہیں ہوتا ہے انسانیت کو چھوڑ کر کیا ہندو کیا مسلمان کچھ نہیں ہے آج ضرورت اس بات کی ہیکہ اقوام ملک کے ساتھ اتحاد پیداکیاجاے ان کے ساتھ رواداری کامعاملہ کیا جاے سب مسلکی اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر اتحادی قوت بنای جاے تو ہی ہم حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں اللہ پاک نے انسان کے ہاتھ کا بھی نظام اس طرح بنایا کہ اگر ایک ایک انگلی کو دیکھا جائے تو اس سے کوی کام نہیں کرسکتے لیکن جب یہ پانچ کہ پانچ ایک ساتھل جاتی ہیں تو اس میں طاقت وقوت اور جان پیدا ہوجاتی ہے جس کے ذریعہ سے ہم مقابلہ کرسکتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ ان پانچ میں سے ہر ایک کو جھکنا پڑے گا خواہ بڑی انگلی ہوں کہ چھوٹی  موٹی ہوں کہ باریک اگر جھکیں گے تو ملیں گے اور ملیں گے تو متحد ہوجائیں گے کسی کہنے والے نے اچھی بات کہی ہے کہ  سمندرمیں توقطرہ بھی سمندر ہے  بڑی شی ہے اصل سے وابستگی  ایک قطرہ ہی کیوں نہ ہوں اگر وہ سمندر میں ہے تو وہ بھی سمندر ہی کہلاتا ہے چونکہ وہ متحد ہے دوسرےقطروں کے ساتھ اور اگر وہ الگ ہوجاے تو اس کی حیثیت محض ایک قطرہ کی ہی رہ جاے گی جو اکیلا کچھ کام نہیں کرسکتاہے ا سلےء اتحادی قوت بنانا ضروری حالات سے ہم مسلمانوں کو گھبرانے کی کوئ ضرورت نہیں ہے یہ حالات صرف مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لےء ہے بھگانے کے لےء نہیں دنیا کہ کوئ بھی طاقت مسلمانوں کو اس ملک سے نہیں نکال سکتی ہے اللہ تعالی کا ایک نظر آنے والا نظام ہوتا ہے اور ایک نہ نظر آنےوالا نظام ہوتاہے ظاہر میں تو لگ رہا ہیکہ ہم بھگانا چاہتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ہم کو جمانے کی محنت ہورہی ہے حضرت موسی علیہ السلام کو مصر سے بظاہر نکالاگیا لیکن حقیت میں موسی علیہ السلام ہی کو مصر میں جمایا گیا اور فرعون کو نیست ونابودکرکے نکال دیاگیا ۔
مکہ المکرمہ سے نبی علیہ السلام صحابہ اور ایمان والوں کو نکالاگیا مگر حقیقت میں انہی کو جمایاگیا اس لیے یہ حالات صرف ہم کو ڈرانے کے لےء ہے مگر ہم ڈرنا چھوڑدیں تو وہ خود ڈرنا شروع ہوجائیں گے ضرورت اس بات کی ہیکہ ہم اپنا کام محدود نہ رکھیں بلکہ اپنوں اور پرایوں سب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنئیں ہر ایک کے کام میں آئیں انسانیت سب بڑا مذہب ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×