سیرت و تاریخ

رسول ﷺ کا اسلوب دعوت و تربیت

قرآن مجید نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کواسوۂ حسنہ کی حیثیت سے پیش کیاہے ۔ فرمایا :’ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ‘‘(الاحزاب: ۲۱ )(اور تمہارے لئے اللہ کے رسول ؐ میں بہترین نمونہ ہے )۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت جہاں کئی اعتبار سے اورکئی حیثیتوں سے ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہے ، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ؐ بحیثیت داعی اور معلم ومربی ہمارے لئے سب سے بہترین نمونہ اور عمدہ آئیڈیل ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ میں حکمت و فراست، لوگوں کی ذھنی سطح اور معیار کا خیال اور مزاج و مذاق کی رعایت کے بھر پور نمونے ملتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی نفسیات کا بھی خاص خیال رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں ۔
ذیل میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوب دعوت وتربیت اور دعوت و تبلیغ میں حکمت و فراست اور لوگوں کی نفسیات کی رعایت کے تعلق سے چند نمونے پیش خدمت ہیں :
۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ صحابہؓ کی تعلیم وتربیت کے سلسلے میں مناسب اوقات کاانتظار کیاجائے اور یہ دیکھا جائے کہ کب اور کس وقت یہ نصائح صدق دل سے قبول کرسکتے ہیں ۔عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں ۔ کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، یتخولنابالموعظۃ فی الایام کراھیۃ السامۃ علینا ۔ یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم وعظ و ارشاد میں تخول(وقفہ وقفہ ) سے کام لیتے تھے تاکہ روزآنہ اور ہروقت کی نصیحت سے طبائع اکتانہ جائیں
تعلیم و تربیت کایہ انداز جس کی اہمیت و افادیت کواس دور کے بہت سے تربیتی اداروں نے اپنایاہے اور اس حقیقت کومان لیاہے کہ تعلیم اسی وقت صحیح نتائج پیدا کرسکتی ہے جب طلبہ کی نفسیات کابھی خیال رکھاجائے اور یہ دیکھا جائے کہ کب اور کس وقت ان کا ذھن وقلب حاضر ہے اور اس لائق ہے کہ تعلیم و تربیت کے اصولوں سے صحیح معنوں میں بہرہ مند ہوسکے ۔
۲۔ حکمت وسلیقہ ایک عجیب عمل ہے اس سے مخاطب کے دل میں رغبت پیداہوتی ہے اور قبولیت کی فضا ساز گار ہوتی ہے ، نبی کریم ﷺ مخاطب کی نفسیات کاخاص خیال رکھتے تھے ۔ اور ہر ایک کی تربیت ان کے مزاج کوسامنے رکھ کر فرمایا کرتے تھے ، طبرانی کی روایت ہے کہ قریش کاایک نوجوان جوحیوانیت کے جذبات سے مغلوب تھا آں حضرت ؐ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے زنا کی اجازت مرحمت فرمادیجئے ۔ اس کا کہناتھا کہ حاضرین اس پر لپکے اور اس گستاخی پراس کو خوب ڈانٹا ڈپتا ، آپ ؐ نے یہ دیکھا تو فرمایا۔ اس سے تعرض نہ کرو، اس کو اپنے قریب بلاکر پوچھا :’’اتحبہ لأمّک ‘ ‘ کیاتم اسے اپنی ماں کے لئے پسند کروگے ؟ اس نے جواب دیا بخدا ایسانہیں ہوسکتا اس پر آپ ؐ نے فرمایا ، توکیا چاہوگے کہ تمہاری بیٹی کے ساتھ کوئی شخص یہ سلوک روا رکھے ؟ اس نے جواب دیا جی نہیں میں اسے ہرگزپسند نہیں کرتا۔ اس طرح آپ ؐ نے اس کے دیگر رشتے دا رخواتین کا ایک ایک کرکے ذکر کیا اور پوچھا کیاتم پسند کروگے کہ ان سے یہ معاملہ روا رکھاجائے ، تو اس نے ہرسوال کے جواب میں یہی رویہ اختیار کیااور کہاہرگز نہیں ۔ اس کے بعد آپؐ نے اس کی مغفرت کی دعا فرمادی ۔ روایت میں آتا ہے کہ تفہیم و تعلیم کے اس انداز سے یہ اس درجہ متأثر ہواکہ اس کے بعد یہ ہمیشہ کے لئے تائب ہوگیا اور پھرکبھی گناہ کی طرف ملتفت (متوجہ ) نہ ہوا ۔
۳۔ ہرشخص کی ذہنی سطح اور مدارج عقلی میں اختلاف پایا جاتاہے ، آں حضرت ؐ کاقاعدہ تھا کہ آپ ؐ دعوت وتبلیغ اور وعظ وارشاد کے سلسلہ میں ہرشخص کی ذھنی سطح اور اس کے مدارج عقلی کاپورا خیال رکھتے تھے ،شہری لوگوں سے ان کے انداز و معیار کے مطابق گفتگو فرماتے تھے ، اور بدوی سے اس کی ذھنیت کے مطابق بات کرتے ، اس کی بہترین مثال حضرت ابو ھریرہؓ کی روایت میں ملے گی جس میں بنی فزارہ کے شخص کاذکر کیا گیاہے جو بدوی تھا، ان کا کہنا ہے کہ یہ شخص آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہامیرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے جو سیاہ رنگ کاہے ، میں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ کیونکہ ہم میاں بیوی میں کوئی سیاہ رنگ کانہیں ہے ، آں حضرت ؐ نے اس کی سمجھ اور پیشے کے مطابق جواب مرحمت فرمایا۔
اس سے پوچھا : ھل لک من ا بلٍ کیاتمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے کہا ’’جی ہاں ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’وہ کس رنگ کے ہیں؟‘‘ اس نے کہا’’سرخ رنگ کے ‘‘ آپ نے اس پر سوال کیاان میں کوئی اور ق یعنی خاکستر ی رنگ کا یاکم سیاہ رنگ کاکوئی اونٹ بھی ہے ؟ اسن نے کہا ،ہاں ،ہے آں حضرت ﷺ نے فرمایا اب تم ہی بتاؤ کہ سرخ رنگ کے اونٹوں میں یہ سیاہی کیسے آگئی ۔ اس شخص نے اس کے جواب میں کہا ممکن ہے اس کے نسب میں کوئی اونٹ خاکستری یاسیاہ رنگ کا ہو اور اس کی جھلک ہو جب بات یہاں تک پہونچی تو آپﷺ نے یہ کہہ کراس کے شبہے کودور کردیا ۔ و ھٰذا عسیٰ ان یکون نزعۃ عرقٍ کہ یہاں بھی معاملہ ایسا ہوسکتا ہے کہ یہاں بھی نسب کاکرشمہ کار فرما ہواور اس میں تمہاری بیوی کاکوئی قصور نہ ہو ۔
۴۔ آسانی اور تیسیر بھی ایک اصول تھا جس کو آں حضرت ﷺ احکام و عبادات میں خصوصیت سے ملحوظ رکھتے تھے ، اور لوگوں کواس بات سے باز رکھتے تھے کہ احکام ومسائل میں تضییق یاتنگی سے کام لیں، عبادات میں تصنع اور سختی کواپنائیں ،حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’علموا و یسرو ا ولا تعسروا ‘‘ لوگوں کوتعلیم دو اور آسانی پیدا کرو اور مشکلات سے پر ہیز کرو حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’خیر دینکم ایسرو خیر العبادۃ الفقہ ‘‘ تمہارے دین کا وہ حصہ زیادہ بہتر ہے جو زیادہ آسان اور سہل ہو ، اور بہترین عبادت احکام کی سمجھ بوجھ ہے ۔
۵۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو میں سامع کے لب و لہجہ ۔ محاوات اور طرز ادا کا بھی خیال رکھتے تھے ، اور یہ بھی دیکھتے تھے کہ اس کاتعلق کس خاندان اور قبیلے سے ہے ، اور خاندان اور قبیلے میں کس نوعیت کی زبان رائج ہے ، خطیب بغدادی ؒ نے عاصم ا شعری ؒ سے روایت کیاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مخاطب فرمایا ۔’’لیس من امبرا مصیام فی امسفر‘‘ کہ سفر کے دوران روزہ رکھنا نیکی نہیں اس طرز تخاطب سے یہ اشارہ ملتاہے کہ آپ ﷺ اگر چہ افصح العرب تھے اور فصیح ترین زبان میں گفتگو فرماتے تھے تاہم تیسیر آسانی اور تفہیم کوہرشئی پر مقدم جانتے تھے ۔
۶۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ کایہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ آپ ﷺ جب صحا بہ کرامؓ کوکوئی دینی حکم سمجھانا چاہتے تواس کو تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ بات نہ صرف دل کی گہرائی میں اتر ے بلکہ لوح قلب پر مرتسم ہوجائے ۔
لیکن اس سے یہ نہ سمجھاجائے کہ یہ آپﷺ کادائمی معمول تھا، آپ ﷺ موقع اور مناسبت کاخیال رکھتے اور اسی انداز میں گفتگو فرماتے جومقام و محل کے موافق ہو۔
الغرض :پیارے نبی ؐ کاانداز تفہیم ، اسلوب دعوت اور انداز تربیت بڑا پیارا اور دلربا ہواکرتاتھا ، کبھی آپ ﷺ زمین پر لکیر یں ڈال کرمخاطب کوسمجھا تے ، تو کبھی واقعات کوزبانی سمجھاتے اور کبھی اشاروں کنایوں کے ذریعہ تفہیم کاحق ادا فرماتے بسااوقات ایسا بھی ہوتاکہ غلطی کرنے والے کی سنگین غلطی کے باوجود اس کے نفسیات کے پیش نظر اسے ڈانٹنا تو دور کی بات ہے دانٹنے والوں پر آپ ﷺ کا عتاب نازل ہوتا۔ اس کی اصلاح اس محبت و اپنائیت سے کرتے کہ غلطی کرنے والے کی اصلاح بھی ہوجاتی اور اس کے جذبات بھی مجروح نہ ہوتے ۔ کبھی ایسا ہوتاکہ خاطی کی غلطی پر فوراً تنبیہ کرنے کے بجائے اصلاح حال کے لیے مناسب موقع اور محل کاانتظار فرماتے ، اور کبھی تو آپﷺ غلطی کی اصلاح کے لیے لوگوں کو جمع فرماتے ۔ اور ارشاد فرماتے :’’مابال اقوام یفعلون کذا وکذا ‘‘ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ فلاں فلاں حرکتیں کیے جارہے ہیں ۔
اس طرز اصلاح سے جہاں غلطی کرنے والے کی تربیت و اصلاح ہوجاتی،و ہیں دوسرے حضرات متنبہہ ہوجاتے اور ویسی غلطی دہرانے کی ہمت نہ کرتے ۔ بسا اوقات دانستہ غلطی کرنے والے پر سخت ناگوار ی اور ناراضگی کااظہار بھی فرماتے ایک مرتبہ مسجدکی دیوار پر تھوکا ہوا دیکھ کر آپ ﷺ کے چہر ے پر غیض وغضب کے آثار نمودار ہوئے ۔ معاملہ یہ تھا کہ جرم کی سنگینی جاننے کے باوجود اس غلطی کاارتکاب کیاگیاتھا ، اس لئے اس غلطی کی قباحت اس جیسے طریقۂ تربیت سے دور ہوسکتی تھی ، اور ساتھ ہی آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس گندگی کوصاف کرکے اس فعل کی قباحت کومزید واضح فرمادیا ۔
یہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانداز دعوت اور طریقۂ تربیت، لیکن افسوس ہے کہ کتابوں میں آپ ﷺ کا یہ پہلو اور پیار ا اسوہ پڑھنے کو تو ملتا ہے اور تقریروں میں سننے میں آتا ہے مگر اس کا عملی نمونہ دیکھنے کوآج آنکھیں ترستی ہیں ، حد تو یہ ہے کہ مدارس عربیہ میں جہاں دن رات قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں گو بختی ہیں اور جن مدارس کاشجرہ صفۂ نبوی سے ملتا ہے وہاں بھی اس طریقۂ نبوی ؐ کا خیال نہیں کیا جاتا ، بسا اوقات طالب علم مربی اور اسا تذہ حضرات کے نارو اسلوک اور سختیوں کی وجہ سے تعلیم چھوڑ نے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، نیکی اور شر افت کے راستے کوہمیشہ کے لیے سلام کہہ دیتا ہے مگر اس کا نوٹس لینا تو کجا ،اس کا احساس تک نہیں کیاجاتا ہے :

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×