اسلامیات

ماہِ رمضان؛ ماہِ قرآن

از قلم :مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی

قرآن عظیم الشان رب العالمین کی طرف سے عطا کردہ وہ عظیم نعمت ہے جو انسانوں کی رشد و ہدایت اور گم گشتگان راہ خداوندی کی اصلاح و تربیت کے لیے نازل کیا گیا ہے، یہ وہی کتابِ ہدایت ہے صداقت و امانت سے لبریز اور حقائق و تعلیمات سے بھرپور ہے، جو مردہ دلوں کے لیے امید کا چراغ اور پیغام دعوت ہے،جو قرآن تمام آسمانی کتابوں میں اعلیٰ و افضل ہے‘جو تمام آسمانی کتابوں اور شریعتوں کے لئے ناسخ ہے،جسے قیامت تک باقی رہنے کا اعزاز حاصل ہے،سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ کلام اللہ کے شرف و اعزاز سے مشرف ہے،جس کی حفاظت و صیانت کا ذمہ خود خالق کائنات نے لے رکھا ہے،جو ہر قسم کی تحریف و تبدیلی سے محفوظ ہے، جس کی تلاوت ذاتِ باری تعالیٰ سے ہم کلامی ہے‘ جس کے ایک ایک حرف پر دس سے سات سو نیکیوں تک کا وعدہ فرمایا گیا‘ اور یہ اعزاز بخشا گیا کہ قرآن مجید جس کے بارہ میں شفاعت کرے گا‘ اس کی شفاعت رد نہیں کی جائے گی‘ اس کو یاد کرکے اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جاننے والے کو سب سے اونچا مقام عطا کیا جائے گا‘ حافظ قرآن کے والدین کی تاج پوشی کا وعدہ فرمایا گیا اور حافظِ قرآن کے لئے ایسے دس آدمیوں کے حق میں شفاعت قبول کرنے کا وعدہ فرمایا گیا‘ جن کے لئے جہنم واجب ہوچکی ہوگی۔یہی وہ قرآن جورمضان المبارک کے مقدس مہینے میں حجاز کے ریگستانوں میں نازل ہوا اور تیئس سالہ قلیل عرصہ میں کرہ ارض پر اپنے بے مثال اور لا زوال اصول و احکام، نصائح و موعظت،فصاحت و بلاغت اور اپنے اعجاز کی وجہ سے کرہ ارض پر چھا گیا،
یہی لازوال قرآن کا تقاضہ ہے کہ رمضان المبارک کے اس مبارک و مسعود موقع پر قرآن مجید سے تعلق بحال کیا جائے، غفلت کو پس پشت ڈال کر قرآن کے حقوق کو ادا کیا جائے، ذیل میں مختصر طور پر قرآن مجید کے چند حقوق لکھے جارہے ہیں ان حقوق کی رعایت کرتے ہوئے قرآن مجید کی تلاوت دلوں کو تازگی اور زندگیوں کو نورانی بناتی ہے

*قرآن مجید کے پانچ حقوق*
(1)قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے پر ایمان اور اسکی تعظیم و تکریم
ایمان بالقرآن کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا اقرار کرنا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو برگزیدہ فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا.
اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ (البقرۃ :۲۸۵)
*(2)قرآن مجید کی تلاوت اور تجوید کی رعایت*
تلاوتِ کلامِ پاک ایک بہت بڑی عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کو تروتازہ رکھنے کامؤثر ترین ذریعہ ہے لہذا کلام الہی کی تلاوت کا اصل تقاضہ اور اسکی قدر یہی ہونی چاہیے جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہےکہ :اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ؕ (البقرۃ : ۱۲۱)
ترجمہ :جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے.
اس لیے تجوید کی رعایت، رموز اوقاف کی پہچان کے ساتھ ساتھ خوش الحانی کو بھی مد نظر رکھ کر قرآن مجید پڑھنے کی مکمل کوشش کرنی چاہیے کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ  تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿٤﴾
ترجمہ: اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔
*(3)قرآن مجید میں تدبر اور غور و فکر*
نزولِ قرآن کے مقاصد میں ایک اہم مقصد قرآن مجید کی کو سمجھنا اور اس پر غور و فکر کرکے عمل کرنا ہے چنانچہ قرآن مجید میں جا بجا خالقِ کائنات نے تدبر و تفکر کا تذکرہ کیا ہے
کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ (یونس:۲۴)
ترجمہ:اسی طرح ہم کھولتے ہیں اپنی آیات ان لوگوں کے لیے جو تفکر کریں.‘‘
تو کہیں فرمایا :وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ (النحل:۴۴)
ترجمہ:اور اتارا ہم نے تم پر ذکر کہ تم جو کچھ لوگوں کے لیے اتارا گیا ہے اس کی وضاحت کرو ‘تاکہ وہ تفکر کریں.
تو کہیں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ (النساء : ۸۲)
ترجمہ:کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر نہیں کرتے؟‘‘
اور اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا (محمدﷺ :۲۴)
ترجمہ کیا یہ تدبر نہیں کرتے قرآن پر؟ یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں؟

*(4)احکام قرآن اور فرامین الہی پر عمل*
قرآن مقدس کے نزول کا اہم مقصد پیغام خداوندی کو عام کرنا اوراس پر غور و فکر کر کے قرآن کے احکام پر عمل کریں اور منشاء الہی کے مطابق اپنی زندگی گذاریں چنانچہ اسی کو باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :وَ کَذٰلِکَ اَنۡزَلۡنٰہُ حُکۡمًا عَرَبِیًّا ؕ (الرعد : ۳۷)
ترجمہ:اور اسی طرح اتارا ہم نے اسے حکم بنا کر عربی زبان میں.
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِتَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ ؕ (النساء : ۱۰۵)
’’بے شک ہم نے تجھ پر کتاب حق کے ساتھ اتارا تاکہ تو فیصلہ کرے لوگوں کے مابین اس سوجھ کے ساتھ جو اللہ نے تجھ کو عطا فرمائی ہے.
(5)قرآن مجید کی تعلیم و ترویج
اور جو لوگ علوم قرآنی سے وابستہ ہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید کی صحیح تعلیم و ترویج کا انتظام کریں اس لیے کہ قرآن حکیم خود اپنے مقصد نزول کی تعبیر اِن الفاظ میں کرتا ہے :

ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنۡذَرُوۡا بِہٖ (ابراہیم : ۵۲)
ترجمہ:یہ (قرآن) پہنچا دینا ہے لوگوں کے لیے اور تاکہ وہ اس کے ذریعے خبردار کردیے جائیں.
او ر نبی اکرم ﷺ پر اپنے نزول کا اوّلین مقصد یہ قرار دیتا ہے کہ :وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذالۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ ؕ (الانعام : ۱۹)
ترجمہ:اور وحی کیا گیا میری طرف یہ قرآن تاکہ میں تمہیں اور جنہیں بھی یہ پہنچ جائے انہیں اس کے ذریعے خبردار کر دوں.‘‘ (۱)
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾
ترجمہ اور کہا رسولؐ نے اے میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو نظرانداز کردیا.‘‘

اگرچہ اصلاً تذکرہ ان کفار کا ہے جن کے نزدیک قرآن سرے سے کوئی قابلِ التفات چیزہے ہی نہیں ‘لیکن قرآن کے وہ ماننے والے یقینا اس کے ذیل میں آتے ہیں جوعملاً قرآن کے ساتھ عدم توجہ و التفات کی روش اختیار کریں. چنانچہ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
’’ آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا‘اس میں تدبر نہ کرنا‘ اس پر عمل نہ کرنا‘ اس کی تلاوت نہ کرنا‘ اس کی تصحیح قرا ء ت کی طرف توجہ نہ کرنا‘ اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا ‘یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت میں داخل ہو سکتی ہیں.‘‘
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن مجید کو اسکے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے پڑھیں اور رمضان المبارک میں کم سے کم تین قرآن پڑھنے کی کوشش کریں
اللہ پاک ہم سے کو قرآن سے قلبی لگاؤ نصیب فرمائے اور اسکے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے قران مجید کی تلاوت کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×
Testing