سیرت و تاریخ

آپ کا وجود ہے وجہِ وجودِ کائنات

حضرت عیسیٰ بن مریم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰة والسلام کی اس دنیا میں آمد کو تقریباً پانچ سو برس سے بیشتر عرصہ ہوچکا تھا، پوری انسانیت ضلالت وگمراہی کے عمیق گڑھے میں گرچکی تھی، روئے زمین پر تاریکی اورظلمت کا راج تھا،انسان اپنے مقصد تخلیق کو فراموش کر چکا تھا یہودیت وعیسائیت صرف چند ظاہری رسم و رواج کو دین کا نام دے کر دین موسوی و عیسوی کو پوری طرح ترمیم کر چکی تھی،انجیل وتورات کا صرف نام باقی رہ گیا تھا اس میں ہزاروں طرح کے تحریفات پیدا کئے جاچکے تھے،  مذہبی پیشوا،راہ نمایانِ قوم وملت، اور عمائدینِ سیاست نے خدائی احکام کو بجز چند ٹکڑوں کے خاطر دین فروشی کرچکے تھے،  نفس پرستی اوردین بیزاری نے چند روپے پیسوں کے خاطر دین سے دست بردار کردیا تھا تو دوسری طرف ان سے زیادہ دگرگوں اورقابل رحم حالت میں اہل عرب، اصنام پرست، لات و منات کے پجاریوں کی ایک لمبی قطار تھی،جو دنیا کے کسی نقشے پر نہیں شمار کیے جاتے تھے اخلاق و شرافت، عفت و پاک دامنی، صداقت وہ امانت بلکہ ہر نیک صفت ان میں ختم ہو چکی تھیں ظلم وعدوان اور فساد وطغیان کا دور دورہ تھا، مکر و فریب، دھوکاو  خیانت، شراب نوشی و قمار بازی، بے حیائی و زنا کاری، اور بت پرستی میں ہر حد کو پار کر چکے تھے، ننگے ہوکر طواف کرنا  عزت کا معیار سمجھا جاتا تھا، عورت باعث ذلت کا مفہوم ان کے اذہان میں پیوست تھا،الغرض دین ومذہب، تہذیب وتمدن، معاشرت ومعیشت، اور اخلاق وکردار غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں میں جہالت وضلالت کا دور دورہ تھا، پوری انسانیت ایک ایسی پستی میں گرنے جارہی تھی جس سے ابھرنا ناممکن  ہو۔ ”کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ“ الفاظ قرآنی سے اسی عالمگیر ابدی تباہی کی طرف اشارہ ہے

بدی کا زور تھا ہر سو جہالت کی گھٹائیں تھیں
فساد و ظلم کی چاروں طرف پھیلی ہوائیں تھیں

مگر جب اللہ نے ان پر رحم فرمایا:
ظلمات اور اندھیروں کی اس تاریک رات میں آفتاب نبوت کا ظہور قدسی ہوا، ظہور قدسی کی منظر کشی اس سے بہتر اور کیا ہوسکتی ہے علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی زبانی پڑھیے
لیکن آج کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظار میں پیر کہن سال نے کروڑوں برس صرف کردیئے، سیارگان فلک اسی دن کے شوق میں ازل سے چشم براہ تھے ۔چرخ کہن مدتہائے دراز سے اسی صبح جاں نواز کے لیل ونہار کی کروٹیں بدل رہاتھا، کارکنان قضاوقدر کی بزم آرائیاں،عناصرکی جدت طرازیاں،ماہ وخورشید کی فروغ انگیزیاں،ابروباد کی تردستیاں عالم قدس کے انفاس پاک،توحید ابراہیم، جمال یوسف،معجز طرازی موسی،جان نوازیٔ مسیح سب اسی لئے تھے کہ یہ متاع ہائے گراں شاہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں کام آئیں گے،
آج کی صبح وہی صبح جاں نواز ،وہی ساعت ہمایوں،وہی دورفرخ فال ہے ،ارباب سیر اپنے محدود پیرایہ بیان میں لکھتے ہیں کہ آج کی رات ایوان کسریٰ کے چودہ کنگرے گرگئے،آتش کشدہ فارس بجھ گیا،دریائے ساوہ خشک ہوگیا،لیکن سچ یہ ہے کہ ایوان کسریٰ نہیں بلکہ شان عجم،شوکت روم،اوج چین کے قصرہائے فلک بوس گرپڑے،آتش فارس نہیں بلکہ جحیم شر،آتش کدۂ کفر،آذرکدۂ گمراہی سرد ہوکر رہ گئے،صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی،بتکدے خاک میں مل گئے،شیرازہ مجوسیت بکھرگیا،نصرانیت کے اوراق خزاں دیدہ ایک ایک کرکے جھڑگئے۔
توحید کا غلغلہ اٹھا چمنستان سعادت میں بہار آگئی آفتاب ہدایت کی شعاعیں ہرطرف پھیل گئیں،اخلاق انسانی کا آئینہ پرتوقدس سے چمک اٹھا یعنی یتیم عبداللہ،جگرگوشہ آمنہ،شاہ حرم،حکمراں عرب،فرمانروائے عالم ،شہنشاہ کونین عالم قدس سے عالم مکان میں تشریف فرمائے، عزت واجلال ہوئےصلی اللہ علیہ وسلم.
(بحوالہ سیرت النبی صٌی اللہ علیہ وسلم)

زباں پہ بارِخدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے

آج نور ہدایت نے ظلمات ضلالت کو شکست دے کر پورے عالم پر روشنی بکھیر دی، آفتاب نبوت کی درخشاں وتاباں کرنوں نے تئیس سالہ دور نبوت میں چہاردانگ عالم میں اسلام کو عام کردیا، رنگ و نسل اور لسانیت اور تعصب کا خاتمہ کرکے ہند کے عجمی کو حجاز کے عربی پر،مغرب کے گورے کو افریقہ کے کالے پر تقوی کی بنیاد پر اہم رتبہ عطا کیا، قعر مذلت میں غرق عرب کے بدؤں اور جہالت کے علمبرداروں کو رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ کا تمغہ عطا فرمایا، ذلت کی پستی سے مقام رفعت عطا کرکے اوج ثریا تک پہونچا دیا

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے

 مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ ولادت اقدس کے سلسلے میں رقمطراز ہیں:مشرکوں کو موحد بنایا اور کافروں کو مومن ، بت پرستوں کو خدا پرست کیا اور بت سازوں کو بت شکن،رہزنوں کو رہنمائی سکھائی اور غلاموں کو آقائی ،چور چوکیدار بن گئے اور ظالم غم خوار بن گئے اور جودُنیا بھر کے آوارہ تھے وہی سب سے زیادہ متمدن ہوگئے اور جن کا قومی شیرازہ بالکل منتشر ہوچکا تھا وہ کامل طور پر منظم کردیے گئے ،رُوحانیت کے فرشتے شیطنت پر غالب آگئے. الغرض روئے زمین پر عدل و انصاف کی حکومت قائم ہوگئی، کفر وشرک ،بدعت وضلالت اور ہر قسم کی گمراہیوں کو زبردست شکست ہوئی، شقاوت وبدبختی کا موسم بدل گیا ،ظلم وعدوان اور فساد وطغیان کا زور ختم ہوگیا، صداقت اور خیر وسعادت نے عالمگیر فتح پائی اور زمین پر اَمن وعدالت کی ایک بادشاہت قائم ہوگئی

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا

عہد طفولیت اور حفاظت خداوندی
اپ علیہ السلام جہاں نسب میں سب سے عالی تھے تو وہیں حسب میں سب سے برتر،جہاں اپنے عہد ِطفولیت ہی سے ہمیشہ ممتاز سیرت، ممتاز صورت، عادات وشمائل میں اپنے اقوام سے علیحدہ تھے، وہیں عبادات ورسوم میں ان سے الگ،  شرک وکفر سے متنفر، لہو ولعب میں ان سے مجتنب تھے، جہاں عدل وانصاف صدق وصفاء احسان وسلوک کے خوگر تھے، تو وہیں ظلم وعدوان جنگ و جدال اور جملہ فواحش سے کوسوں دور تھے،الغرض جملہ اخلاقِ فاضلہ و کاملہ سے آراستہ و پیراستہ اورجملہ اخلاقِ رزِیلہ اور قبیحہ سے متنفر اور مجتنب تھے. چنانچہ ایسے خصوصیات وکمالات سے قدرت خداوندی نے آپ کو مشرف فرمایا تھا جو آپ کو عام زندگی کے ہر پہلو سے ممتاز اور جداگانہ بنادیتے ہیں، دو مرتبہ عہد طفولیت میں شق صدر کا واقعہ پیش آتا ہے اور اسکے ذریعے برائی کی جڑوں کو ہی ختم فرما دیا جاتا ہے، قدم قدم پر آپ کی حفاظت کا انتظام و انصرام ہوتا ہے لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم عہد طفولیت ہی سے  توحید کے خوگر ہوتے ہیں،کفر و شرک، اصنام پرستی سے متنفر رہتے ہیں، اور ان بتوں کے سامنے بیٹھنے اور کفار کی مجالس میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں، اور  عہد طفولیت ہو یا عہد شباب آپ علیہ السلام تمام برے اعمال جاہلیت اور بیہودہ لہو ولعب سے بھی محفوظ ہوتےہیں، اور جب کبھی بھی کسی رائج لہو ولعب اور عمل جاہلیت نے آپ ﷺ کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں تو عنایات ربانی اور حفاظت الہی نے آپ کو اس سے محفوظ رکھنے کا انتظام کیا ہوتا ہے، اور آپﷺ اس سے محفوظ رہتے ہیں. دور جاہلیت میں بتوں کے نام پر جانوروں کو ذبح کرنے کا رواج عام تھا لوگ شان و شوکت کے حصول اور معاشرے میں عزت نفس کے خاطر قیمتی قیمتی جانور لات ور منات کے نام پر ذبح کرتے تھے ایسے پر خطر ماحول میں بھی قدرت خداوندی آپ علیہ السلام کی ان حرام کردہ چیزوں سے حفاظت فرماتی ہے چنانچہ آپ نے پوری زندگی ایسا گوشت تناول نہیں فرمایا جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو. شراب نوشی اہل عرب کا شیوہ تھا، غیر اللہ کے نام پر قسم کھانا عام تھا، ننگے ہوکر طواف کرنا عزت کا معیار سمجھا جاتا تھا نہ جانے کیسے کیسے خرافات میں اہل عرب نے اپنے آپ کو جکڑ کر رکھا تھا نبی کی معظم کی ذات بابرکت ان تمام برائیوں سے دور رکھی جاتی ہے خدائے علیم وخبیر کو معلوم تھا یو تو رہبر انسانیت ہادی اعظم ہے جس پر وحی الہی کا نزول ہونا ہے جس کو کو امام الانبیاء کے مقام عالی شان سے نوازا جانا ہے آپ کی ذات گرامی کو عمدہ نمونہ اور کامل اسوہ بنانا ہے اس لئے منجانب اللہ قدم قدم پر آپﷺ کی حفاظت کا اہتمام کیا گیا۔نواب بہادر یار جنگ نے کیا ہی خوب کہا ہے

ائے کہ ترے وجود پر خالقِ دو جہاں کو ناز
ائے کہ تیرا وجود ہے وجہِ وجودِ کائنات
مدحتِ شاہِ دوسرا مجھ سے بیاں ہو کس طرح
تنگ میرے تصورات پست میرے تخیلات

832026y@gmail.com
+91 8121832026

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×