سیاسی و سماجی

دہلی فسادات اورسپریم کورٹ کاتجاہلِ عارفانہ

بتیسویں امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے ایک بارکہاتھاکہ ”ایسی جمہوریت زیادہ دن باقی نہیں رہ سکتی،جواپنی اقلیتوں کے حقوق کے اعتراف کواپنے وجودکی بنیادنہیں سمجھتی“۔دہلی کے حالیہ فسادات میں تیس سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، گھروں کونذرِ آتش کیاگیا اور ایک پوری مارکیٹ کوجلا دیا گیا ہے،مگر جو منظر لمبے عرصے تک لوگوں کے ذہن و دماغ کو دہشت زدہ رکھے گا،وہ اشوک نگرکی بڑی مسجد کی شہادت کا منظر ہے،اس نے6دسمبر1992میں بابری مسجد کی شہادت کی یادیں تازہ کردی ہیں۔
سپریم کورٹ نے پروفیشنلزم کے فقدان پر دہلی پولیس کوڈانٹ پلائی ہے،دہلی ہائی کورٹ نے بھی کہاہے کہ وہ دہلی میں دوسرا1984نہیں ہونے دے گا۔مسلمانوں نے بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کوتسلیم کیا، حالاں کہ اس فیصلے میں کئی خامیاں تھیں۔اب دیکھیے کہ اس فیصلے پر چار ماہ سے بھی کم کا عرصہ گزراہے کہ دہلی میں ایک اور مسجد شہید کردی گئی۔عہدِ وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں نے مندروں کو منہدم کیاہوگا،مگر اُس وقت اِس ملک میں وہ آئین نہیں تھا،جوکہ اب ہے۔
دستورسازی میں شامل ہمارے ملک کے دوراندیش رہنماؤں کواقلیتوں کے اندیشوں کا ادراک تھا؛اسی وجہ سے انھوں نے ان کواپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے اوراس کی تشہیر وتبلیغ کا حق دیا اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی۔مہاتما گاندھی نے تو اس سے آگے بڑھ کریہ کہاتھاکہ ایک ملک کے مہذب ہونے کے دعوے کی صداقت اس میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیسابرتاؤ کرتاہے۔دستور ساز اسمبلی میں بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق پر ایڈوائزری کمیٹی کی تشکیل کے سلسلے میں تجویز پیش کرتے ہوئے جی بی پنت نے کہاتھا”اقلیتوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کااطمینان بخش حل ہی آزاد ہندوستان کی صحت،ترقی اور مضبوطی کو یقینی بنائے گا،جب تک کہ ملک کی اقلیتیں پوری طرح مطمئن نہ ہوں،ہم ترقی نہیں کرسکتے؛بلکہ ہمارے لیے اچھی طرح ملک میں امن و امان قائم رکھنا بھی مشکل ہوگا“۔
دستورکے آرٹیکل25سے30تک کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی و لسانی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیاجائے۔اس کے باوجود گزشتہ کم ازکم پانچ سالوں کے دوران ایک کے بعد دوسرے الیکشن میں انتخابی مہم کے دوران ملک کے مسلمانوں کو”اینٹی نیشنل“ اورملک کے لیے خطرہ بناکر پیش کیاگیا۔2014کے جنرل الیکشن میں ”گلابی انقلاب“کا حوالہ دینا،2016میں آسام الیکشن کے دوران تمام بنگلہ دیشی مہاجرین کو ملک سے باہر کرنے کی بات کرنا،انھیں دیمک قراردینااور حالیہ دہلی الیکشن کے دوران”گولی مارو…“جیسے نعرے لگانا سب اسی منظم نفرت انگیز مہم کا حصہ ہیں۔مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر وارث پٹھان بھی اشتعال انگیز بیان دینے کے مجرم ہیں،گرچہ انھوں نے بعد میں اپنے بیان پر معافی مانگی اوراسے واپس لے لیا،جبکہ انوراگ ٹھاکر یا کپل مشرانے ایسانہیں کیا۔
منگل کے دن الہ آباد ہائی کورٹ نے بنارس کی ایک نچلی عدالت کو ایک کیس پرآگےکارروائی سے روکاہے،جس میں یہ دعویٰ کیاگیاتھا کہ گیان واپی مسجد1664میں اورنگ زیب کے ذریعے کاشی وشوناتھ مندر کوتوڑکربنائی گئی تھی۔حتی کہ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ کہاگیاہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ(1993)میں ”عدمِ رجوع کا تحفظ“ملک کے سیکولر اقدار کا ایک لازمی جز ہے۔ کورٹ نے تبصرہ کیاتھاکہ”عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ بنیادی طورپرایک سیکولرسٹیٹ کے فرائض کاحصہ ہے۔یہ تمام مذاہب کی برابری کے تعلق سے ہندوستان کے عہد کی عکاسی کرتاہے۔اس سب سے اوپر عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ اس پختہ ذمے داری کا اعتراف ہے جوکہ ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ وہ لازمی دستوری قدر کے طورپرتمام مذاہب کی برابری کا تحفظ کرے،یہ ہمارے دستورکاایک بنیادی وصف ہے“۔
اس ایکٹ میں تمام عبادت گاہوں کی صورتِ حال کو15اگست1947کی حالت پر برقراررکھنے کی بات کی گئی ہے۔اسی وجہ سے کورٹ نے تبصرہ کیا کہ”قانون تاریخ اور قوم کے مستقبل سے خطاب کرتا ہے، تاریخی غلطیاں ان لوگوں کے ذریعے نہیں ٹھیک کی جاسکتیں،جو قانون کواپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔عوامی عبادت گاہوں کے تحفظ کے سلسلے میں پارلیمنٹ نے واضح طورپر کہاہے کہ تاریخ اور تاریخی غلطیوں کو حال اورمستقبل کوبربادکرنے کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا“۔
سپریم کورٹ نے22-23دسمبر1949کاحوالہ بھی دیاتھا،جب کچھ بیراگی زبردستی بابری مسجد میں جاگھسے اور مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے خفیہ طورپررام کی مورتیاں نصب کردی تھیں۔کہاجاتاہے کہ مورتیوں کی تنصیب ہی”مسجدکے انہدام اور کسی قانونی کارروائی کے بغیر مسلمانوں کو اس سے بے دخل کرنے کاسبب بنی“۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاتھا کہ اس وقت بی جے پی کے ریاستی وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کی مسجد کے تحفظ کے سلسلے میں یقین دہانی کے باوجود اسے منہدم کردیا گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ کورٹ اب تک عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے کلیان سنگھ کو کوئی سزانہیں دے سکاہے۔اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی والی پانچ رکنی بنچ نے صاف طورپر کہا تھا کہ”مسجد کا انہدام اوراسلامی ڈھانچے کو گراناقانون کی حکمرانی(rule of law)کی شرمناک خلاف ورزی تھی“۔
بابری مسجد شہادت کے دوملزمین اب نئے رام مندر ٹرسٹ کے ممبرہیں،اگریہ مسجد کومنہدم کرنے کاانعام نہیں توکیاہے؟حقیقت یہ ہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے متعلق مجرمانہ کیسز میں عدالتِ عظمیٰ کی ہدایت کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ایک حقیقت جس پر زیادہ بات نہیں ہوتی،وہ یہ ہے کہ خود سپریم کورٹ نے بارہااُس کارسیواسے منع کیاتھا،جوبابری مسجد کے انہدام پر منتج ہوا۔یہ اطلاعات تھیں کہ مسجد کو منہدم کرنے کے آلات بڑی تعداد میں ایودھیا پہنچائے جارہے ہیں،مگرایسالگتاہے کہ فیصلہ سازی میں غلطی ہوئی۔2017میں سپریم کورٹ نے ریاستِ گجرات بنام آئی آرسی جی کیس میں 2002کے گجرات فسادات کے دوران 567 مذہبی مقامات،مساجد،درگاہوں اور خانقاہوں کوہونے والے نقصانات کی بھرپائی کی ذمے داری حکومتِ گجرات پر ڈالنے سے منع کردیا،جبکہ گجرات ہائی کورٹ نے نہ صرف ریاستی حکومت کوان مقامات کی مرمت اور تعمیرِ نوکا حکم دیاتھا؛بلکہ یہ بھی کہاتھاکہ اگر ان جگہوں کے متولی اور دیکھ ریکھ کرنے والوں نے ان کی تعمیر یا مرمت کروالی ہے،تواس پر ہونے والا خرچہ حکومت اٹھائے۔اس کیس میں جسٹس دیپک مشرااورجسٹس پی سی پنت کی دورکنی بنچ نے پرائیویسی فیصلے میں نو ججوں کی بنچ کے اس نظریے کو نظرانداز کردیاکہ بنیادی حقوق کوایک ساتھ پڑھنا چاہیے، گودام میں بند ہوکر نہیں۔دوججوں کی بنچ نے یہ بھی کہاتھاکہ معاوضہ صرف اس صورت میں دیاجائے گا،جب زندگی اور شخصی آزادی کا حق تلف کیاجائے،دیگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر معاوضہ نہیں دیاجاسکتا،حالاں کہ اصل بات یہ تھی کہ معاوضہ اس لیے دیاجاناتھاکہ ریاستی حکومت مذہبی مقامات کے تحفظ میں ناکام رہ گئی تھی۔
کورٹ نے یہ بھی کہاتھاکہ اگرمذہبی مقامات کی مرمت کے لیے سرکار کی طرف سے پیسہ دیاجائے،تواس سے سیکولر سٹیٹ کے دستور کے آرٹیکل27کی خلاف ورزی ہوگی،مگر ایسا لگتاہے کہ یہ موقف تجاہلِ عارفانہ کے ساتھ اختیارکیاگیا گیا؛کیوں کہ کیرالا حکومت آرٹیکل290Aکے تحت تراونکور دیوسوم فنڈ کو سالانہ46.5لاکھ روپے دیتی ہے اور تمل ناڈوحکومت دیوسوم فنڈکومندروں کی دیکھ بھال کے لیے سالانہ13.5لاکھ روپے دیتی ہے،اس کے علاوہ متعدد حکومتیں مندرسمیت مساجد، مدارس اور چرچوں پر بہت ساراپیسہ خرچ کرتی ہیں۔
سی اے اے کی دستوری حیثیت کے سلسلے میں دائر پٹیشن کو نہ سن کراورطلبہ کے ساتھ دہلی پولیس کی زیادتی پر توجہ نہ دے کرعدالتِ عظمیٰ نے صورتِ حال کی حساسیت کے تئیں غفلت کا اظہار کیاہے۔سپریم کورٹ نے اوبی سیز کے ریزرویشن کے تعلق سے منڈل کمیشن کی سفارشات ماننے سے اس لیے انکار کردیا تھاکہ اونچی ذات کے ہندواحتجاج کریں گے،اسی طرح اگرسی اے اے پر روک لگادیاجاتا،توملک بھر میں جاری احتجاجات بھی ختم ہوجاتے۔آج اقلیتیں خوف کے سایے میں ہیں،دستور کے آرٹیکل25سے 30میں ان سے جو وعدے کیے گئے ہیں،ان کی بے رحمی کے ساتھ خلاف ورزی ہورہی ہے۔سینٹ زویرس کالج،احمد آباد فیصلے (1974)میں جسٹس ایچ آرکھنا کے الفاظ میں ”یہ قوانین اقلیتوں کے حق میں ایک پختہ عہد کی طرح ہیں…جب تک دستور اپنی موجودہ حالت میں باقی رہے گا،ان حقوق کونظرانداز نہیں کیا جاسکے گا۔اگر ایسی کوئی بھی کوشش کی جائے،تویہ نہ صرف اس عہد کی خلاف ورزی ہوگی؛بلکہ یہ قانونی طورپر ایک ناقابلِ معافی عمل ہوگا“۔لہذاعدالتِ عظمی اور حکومت کوچاہیے کہ وہ اقلیتوں کا اعتماد بحال کریں؛ تاکہ یہ حقوق محض دستورِ ہند کے صفحات کی زینت بن کرنہ رہ جائیں۔

(بہ شکریہ روزنامہ انڈین ایکسپریس)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×