سیاسی و سماجی

میں یہ کس کے نام لکھوں، جواَلم گزر رہے ہیں!

دہلی میں گزشتہ دوتین دنوں کے دوران وہ سب کچھ ہوگیا، جو2002میں گجرات میں ہوا تھا،تب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ اور امیت شاہ وہاں کے وزیر داخلہ تھے،اب مودی پورے ملک کےوزیر اعظم اور امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں۔شمال مشرقی دہلی میں منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے مکانات، دکانوں اور املاک کو جلایاگیا، لوٹا گیا اور محتاط اندازے کے مطابق اب تک بیس سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں،جن میں سے دوتہائی سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔مودی ٹرمپ کے استقبال واعزاز میں مصروف تھے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی نیند منگل کے دن ٹوٹی جب سب کچھ خاکستر ہوچکا تھا، میڈیا رپورٹس ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں انھوں نے دہلی کے حالات کو قابو کرنے کے لیے تین بار ہائی لیول میٹنگیں کی ہیں،اپنا کیرالہ دورہ منسوخ کردیا ہے اور دہلی میں امن وامان کی بحالی کا ذمہ این ایس اے اجیت ڈوبھال کے حوالے کردیاگیاہے،وہ ڈائریکٹ مودی اور کیبینیٹ کو رپورٹ کریں گے،خبر ہے کہ انھوں نے کل رات اورآج بھی فسادمتاثرہ علاقوں کا جائزہ لیااور مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں بات چیت کی۔یہ سب ہورہاہے مگر حالات اب بھی تقریباًجوں کے توں ہیں،سیلم پور، جعفرآباد، شاہدرہ، کردم پوری، موج پور، کھجوری خاص، گوکل پوری وغیرہ میں تاحال وقفے وقفے سے سنگ باری اور شورش کی خبریں آرہی ہیں۔مودی نے ٹرمپ سے فارغ ہونے کے بعد آج ٹوئٹ کرکے دہلی والوں سے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کرکے بڑی مہربانی کی ہے۔دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے حالات کنٹرول کرنے کے لیے وزیر داخلہ سےدہلی میں فوج اتارنے کی اپیل کی تھی،مگر وزارت نے اسے مسترد کردیاہے،البتہ فساد زدہ علاقوں میں مزیدریزروپولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔
مختلف میڈیاویب سائٹس اورنیوزچینلوں کے رپورٹرز کے ذریعے فساد متاثرین کی جوروداد سامنے آرہی ہے اور سوشل میڈیاپر جو ویڈیوز،تصاویر اور آڈیوزسامنے آئے ہیں،وہ لرزہ خیز اوردل دہلانے والے ہیں۔باقاعدہ نشان زدکرکے مسلم گھروں اور دکانوں کو نذرِآتش کیاگیا اور بوڑھوں، بچوں، عورتوں سب کو زدوکوب کیاگیاہے۔ابھی خبر بیس لوگوں کے مرنے کی آرہی ہے،مگر فی الحقیقت کتنے لوگ اس قتل و غارت گری کے شکارہوئے اور ہورہے ہیں،اس کاپتانہیں۔دہلی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دوماہ سے سی اے اے،این آرسی کے خلاف احتجاجات ہورہے تھے اور یہ سارے احتجاجات پرامن تھے،شروع میں سیلم پور کے علاقے میں شورش ہوئی تھی اور جامعہ و شاہین باغ کے مظاہرین پر ہندوشدت پسندتنظیموں سے وابستہ دہشت گردوں نے فائرنگ کی،مگر خود مظاہرین نے ایسا کچھ نہیں کیا،جس سے ملک کے امن وامان یا قانون و آئین کو ٹھیس پہنچے اورقومی سالمیت کو نقصان ہو،مگر22فروری کی رات کوخبر آئی کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین نے جعفرآباد میٹرواسٹیشن کو گھیرلیاہے،اگلے ہی دن بی جے پی کے شکست خوردہ لیڈرکپل مشرانے پولیس کی پشتیبانی میں دھمکی آمیز انداز میں یہ بیان دیاکہ پولیس جعفرآبادسے مظاہرین کو ہٹائے،ورنہ ٹرمپ کے آنے تک توہم خاموش رہیں گے،مگراس کے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔اس کے بعد اسی رات(پیر کی رات) شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں فسادات پھوٹ پڑے،یہ سلسلہ پیر کے دن اور اس کے بعد بھی جاری رہا،شروع میں سی اے اے مخالف و حامی گروپ آمنے سامنے آئے اور ان کے درمیان پتھربازی ہوئی،مگر اس کے بعد یہ ہنگامہ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم حملے کی شکل اختیارکرگیا،بعض مخلوط آبادی والے محلوں میں ہندوشدت پسندوں نے مسلمانوں کے مکانات کوباقاعدہ نشان زد کیااور بعد میں انھیں لوٹااور آگ کے حوالے کردیا۔ اشوک نگر کی ایک ویڈیووائرل ہوئی ہے،جس میں پندرہ بیس سال کے لڑکے ایک مسجدکے مینارپر چڑھ کر بھگواجھنڈالہرارہے ہیں اورنیچے مسجد کے مختلف حصوں کو تہس نہس کردیاگیاہے،ایک مدرسے کے بارے میں خبریں آرہی ہیں کہ اسے جلادیاگیا؛بلکہ اس کے کئی طلبہ کوبھی شہید کردیاگیاہے۔ایک ویڈیومیں ایک دس بارہ سال کا لڑکابھجن پورہ کے ایک مزارکوآگ لگاتانظر آرہاہے۔الغرض ایسے دسیوں انسانیت سوز و شرمناک مناظر سامنے آچکے ہیں،مگر کتنے ہی ان سے زیادہ خوفناک مناظر ہیں،جوسامنے نہیں آسکے ہیں۔
اس پورے معاملے میں مودی حکومت کا رویہ نہایت ہی سردمہری والارہا،مودی کی ناک کے نیچے ملک کی راجدھانی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی،مگر وہ پوری بے حسی کے ساتھ سرکاری پیسے بہاکر امریکی صدرسے اپنی دوستی نبھاتے رہے،وزیر داخلہ نہ معلوم کس گپھامیں گم تھے کہ پورے دودن بعد ان کا ری ایکشن آیااور اگر بات کریں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی،توانھوں نے بھی نہایت شرمناک ردعمل کا اظہار کیا۔پہلے تو اس پورے معاملے سے پہلو تہی کرتے رہے کہ لااینڈآرڈرہمارے ہاتھ میں نہیں ہے،پھر ہلکا پھلاٹوئٹ کرکے کام چلایا،اس کے بعد ڈراماکرنے کے لیے راج گھاٹ پر پہنچ گئے اور دہلی جلتی رہی،منگل کو وزارت داخلہ کے ساتھ میٹنگ کی اور مطمئن ہوکر بیٹھ گئے،اس کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ دہلی میں فوج اتاری جائے،جاننے والے جانتے ہوں گے کہ یہ وہی کیجریوال ہیں جواپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے گورنر کے گھر کے باہر دھرنابھی دے چکے ہیں۔مسلمانوں کے تئیں توکیجریوال نے خالص منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیاہواہے۔الیکشن سے پہلے جامعہ و شاہین باغ میں ہونے والی فائرنگ یا سی اے اے واین آرسی کے خلاف مظاہروں میں جاں بحق ہونے والے لوگوں؛بلکہ اس پورے معاملے پر ہی گول مول موقف اختیار کیے رکھا،شروع میں ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے این آرسی پر ایسی باتیں کیں،جن سے مسلمان خوش ہوئے اور بعد میں عام آدمی پارٹی کے لوگ ان کادفاع کرتے رہے کہ اگر وہ شاہین باغ یا سی اے اے پر کھل کر بولیں گے،توانتخابی خسارہ ہوجائے گا،مگر اب جبکہ دوبارہ زبردست اکثریت کے ساتھ ان کی حکومت آچکی ہے،پھر بھی ان کی زبان میں آبلہ پڑاہواہے،اب تک ایک لفظ ایسا ان کے منھ سے نہیں نکلا،جس سے اقلیتی طبقے کو دلاسہ و تسلی حاصل ہو،امیت شاہ اور مودی سے تو خیر کوئی توقع بھی نہیں کہ یہ دونوں اسی پروفیشن کے لوگ ہیں،مگر کیجریوال کو توایک امید کے ساتھ مسلمانوں نے یک طرفہ ووٹ دیاہے،پچھلی بار بھی دیاتھا اوراس بار بھی دیاہے،عملاً نہ سہی،زبانی تو اظہارِ ہمدردی کرتے۔فسادمتاثرین سے ملنے کے لیے جی ٹی بی ہسپتال گئے،مگر بیان ایسا دیا، جس کی ایک وزیر اعلیٰ سے ہرگزتوقع نہیں کی جاسکتی، بالکل ڈھیلاڈھالا اور لچر،بزدلانہ،حالاں کہ خودکبھی شیلا دکشت کو بزدلی کے طعنے دیاکرتے تھے۔کیجریوال کی جیت بلکہ اس سے پہلے دہلی الیکشن کے دوران ہی متعدد سیاسی تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیاتھاکہ کیجریوال بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اسی جیسا طرزِ عمل اختیار کررہے ہیں،اگر یہ محض ایک سیاسی حربہ ہوتا،تب تو ٹھیک تھا،مگر ان کے چال چلن سے ایسا لگتاہے کہ یہ بی جے پی کے ہندوتوا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوتواکااپنا ایک نیا ایڈیشن لانچ کررہے ہیں،رام کے مقابلے میں ہنومان اور بجرنگ بلی کی باقاعدہ سیاست میں انٹری کرواچکے ہیں،دہلی اسمبلی میں ان کے ایم ایل اے سوربھ بھاردواج نے آئین و دستور کی بجاے بجرنگ بلی کے نام پرحلف اٹھائی،اس کے علاوہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں ہرماہ کے پہلے منگل کو”سندرکنڈ“کے پاٹھ کا پروگرام شروع کرچکے ہیں۔گرچہ ہر شخص کواپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہے،مگر ایک سیاسی نمایندہ جب باقاعدہ اس کوایک شوکی شکل دیتاہے،تواس عمل کی نوعیت یکسر بدل جاتی ہے۔کیجریوال یاان کی پارٹی کے لیڈران اس طرح کی حرکت بس اس وجہ سے کررہے ہیں کہ بی جے پی کے مذہبی چیلنج کااپنے مذہبی اپروچ سے مقابلہ کیا جائے۔ممکن ہے ان کی یہ حکمت عملی درست ہو،مگرانھیں یہ تو پتاہونا چاہیے کہ ان کے ووٹروں کی بہت بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی ہے اور انھوں نے انھیں ووٹ اس لیے دیاہے کہ ان کے مسائل و مشکلات کوبھی ایڈریس کیاجائے،کیجریوال عملاً پوری طرح طوطاچشم ثابت ہورہے ہیں۔
حالیہ فسادکاسرامختلف راہوں سے گزرکربھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد تک بھی پہنچتاہے۔اسے سمجھنے سے پہلے 15دسمبر سے لے کر اب تک کے احوال اوران میں اس بندے کی موجودگی کوذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ 15دسمبر کوجامعہ سانحے کے بعد یہ شخص اچانک آئی ٹی اوپر احتجاج کررہے طلبہ و طالبات کے بیچ جاپہنچااور دوچار بھڑک دار جملے بولے کہ جہاں کسی مسلم بھائی کا پسینہ بہے گا،وہاں ہم اپنا خون بہائیں گے اور سب سے پہلے ہم گولی کھائیں گے۔اس بیان کے بعد مسلمانوں نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا، محمود پراچہ جیسے لوگوں نے اسے مسلمانوں کی مسیحائی سونپ دی،19دسمبر کووہ جامع مسجد دہلی پہنچا اور مسجد کی سیڑھیوں سے ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کیا، تب بہت سے جذباتی مسلمانوں نے اندوہناک ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت دیتے ہوئے چندر شیکھر آزاد اور ابوالکلام آزاد کوہم پلہ قراردینے کی کوششیں کیں۔جب دہلی پولیس نے اسے گرفتار کیا اور کچھ دن جیل میں رہنے کے بعد اس کی رہائی ہوئی،توبعض ضرورت سے زیادہ قابل مسلمانوں نے ٹوئٹرپر ”امام اِزبیک“کے عنوان سے ٹرینڈ چلانے کی کوشش کی۔اب حالیہ حادثے میں ان کے رول کی طرف آتے ہیں،23فروری کوبھیم آرمی نے بھارت بند بلارکھاتھا اوراس کی شروعات اسی رات سے تب ہوتی ہے،جب سی اے اے مخالف عورتیں (جن میں تقریباً سبھی مسلمان تھیں)جعفرآباد میٹرو اسٹیشن پر جمع ہوجاتی ہیں،سوشل میڈیاپر خبریں آنے لگتی ہیں کہ جعفر آباد سے بھارت بند کی شروعات ہوچکی ہے، یعنی خواتین نے جوکچھ کیا،اس میں بھیم آرمی کی کال کا راست دخل تھا،اگلے دن کپل مشراکی زہریلی تقریر ہوئی اور پھر اس کے بعدکی وارداتِ کشت وخون سب کے سامنے ہے۔اس پورے عرصے میں چندرشیکھرآزاد منظرنامے سے غائب رہے،بس ٹوئٹ کے ذریعے اپنے لوگوں کو ہدایت دیتے اور حکومت پر تنقید کرتے رہے۔حالاں کہ جو لڑکے مزارکو آگ لگاتے، مسجد کو مسمار کرتے اور نہتے لوگوں پر لاٹھیاں برساتے نظر آرہے ہیں،یہ یقینی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر دلت ہی ہوں گے۔
مسلمانوں کو اپنی خود سپردگی والی ذہنیت پر غوروفکر کرنی چاہیے۔ہمارے حق میں ہمارے ہی بیچ آکرہمدردی و تسلی کے دولفظ بولنے والے لوگ ہمارے ہیروبن جاتے ہیں اور ہم گویاان کے بے دام غلام بن جاتے ہیں،ہمیں ہوش تب آتا ہے جب سب کچھ لٹ چکاہوتاہے۔آزادی کو اتنا لمبا عرصہ گزرگیا،مگر ہم تاحال اپنی کوئی سیاسی اسٹریٹیجی نہیں بناسکے،نہ ہم نے اپنی کوئی سیاسی قوت کھڑی کی اور نہ پریشر گروپ کی شکل میں ہندوستانی سیاست میں خود کو سٹیبلش کرسکے، ہمارے افتراق و انتشار نے قومی و ریاستی سطح پر کتنے ہی افراد اورجماعتوں کوآفتاب وماہتاب بنادیا،مگر ہم خود تاحال تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ہر پانچ دس سال بعد ہمارا سیاسی قبلہ بدلتاہے،امیدوں کا مرکز تبدیل ہوتاہے اورناکام ہوکر ہم پھرکسی نئے قبلۂ امید کی تلاش میں جٹ جاتے ہیں۔ چندرشیکھر آزادمایاوتی کا متبادل بننا چاہتے ہیں اوراس کے لیے انھیں اسٹیج ہم فراہم کررہے ہیں، کنہیا کمارسیاسی کریئر بنانے کے لیے ہمارے بیچ آکر آزادی کے نعرے لگارہا ہے اور خود اس کی برادری کے لوگ اسے نجسِ عین سمجھتے اورجہاں کھڑا ہوکر وہ تقریر کرتا ہے،اس جگہ کی دھلائی، صفائی کرتے ہیں، بائیں بازوکے سیاست دان اور لبرل دانشوران اور دیگر مبینہ سیکولر سیاسی طالع آزما ہماری تحریک کے سہارے اپنی ساکھ مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں اور ہم ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک اپنی جان بچانے کی فکرمیں ہیں…تعلیم، ترقی و خوشحالی کی طرف ہمیں دیکھنے کاموقع ہی نہیں ملایاہم نے خود ایسا موقع پیداکرنے کی فکرنہیں کی!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×