سیاسی و سماجی

وباکے دنوں میں منافرت کی تازہ لہر: مقابلہ کیسے کیاجائے؟

حکومت کی منصوبہ بندی، تبلیغی جماعت کے امیر کی کورنگاہی ونرگسیت اورسب سے زیادہ تبلیغی جماعت کی آڑمیں مسلمانوں کے خلاف اس ملک کے انسانیت کش میڈیا کے انتھک پروپیگنڈے کی بدولت "گئوماتا”کے بعد اب”کوروناوائرس” ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں ماب لنچنگ کی ایک نئی تمہید کے طور پر ابھر رہاہےـ گزشتہ چنددنوں میں دہلی، پنجاب، ہریانہ وکرناٹک میں دس سے زائدایسے واقعات رونماہوچکے ہیں، جن میں مسلمانوں کوجان سے مارنے یامحلہ وبستی سے نکالنے کی دھمکی دی گئی ہےـ راجستھان میں ایک مسلم خاتون کوہسپتال میں ایڈمٹ نہ کرنابھی اسی کاشاخسانہ تھاـ ہمارے ایک عزیزدوست شادان نفیس، جوکانپورسے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے فیس پرپوسٹ کیاہے کہ تین تین کلینک والوں نے مشین خراب ہونے کابہانہ بناکر ایک مریض کاایکسرے کرنے سے منع کردیا ـ کوروناوائرس کے اثرات کی مدت میں جس قدرتوسیع ہوگی، اسی قدراس ملک کے مسلمانوں کے خلاف ایک نئی قسم کازہریلاماحول پھیلےگاـ
حکومت جن لوگوں کی ہے، وہ موجودہ قیامت خیزحالات میں نہ توطبی ضروریات پوری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، نہ انھیں وائرس سے متاثرہونے یامرنے والوں سے کوئی لینادیناہےـ انھیں پتاہے کہ اس ملک میں توویسے بھی سالانہ لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں پر، نالوں اورگٹرزمیں، بھوک اورفاقہ کشی اوردیگر اسباب کی بناپرمرتے ہی رہتے ہیں، تو اگرکورونا وائرس سے پچیس پچاس ہزارلوگ مرجائیں توکیافرق پڑتاہےـ پس عوامی بے چینی میں ابال نہ آنے پائے، اس مقصدسے وہ اپنے روایتی وآزمودہ ایجنڈے پرگامزن ہےـ امیت شاہ دوسری تمام سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوکر پوری یکسوئی اورانہماک کے ساتھ اسی ایجنڈے پرعمل کروارہے ہیں، جبکہ دوسری طرف مودی نے ملک کے اسی فیصدعوام کومورکھ بنانے کاکام اپنے ذمے لےرکھاہےـ
ایسے گمبھیرحالات میں خودہماری ذمے داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے، ہماری سے میرامطلب ہم مسلمانوں کی اورساتھ ہی جوبچے کھچے انصاف پسند برادرانِ وطن ہیں ان کی ـ اولاً توہم(مسلمان) اپنے اندریہ حوصلہ پیداکریں کہ ہمارا کوئی طبقہ اگرکوئی ایسی غلطی کرتاہے،جس کے منفی اثرات من حیث المجموع تمام قوم پرپڑسکتے ہیں،توسنجیدگی اورتوازن کوملحوظ رکھتے ہوئے اس کی بروقت گرفت کیجیے اورغلطی پرتنبیہ کیجیے؛تاکہ اس کے نقصانات سے قوم محفوظ رہ سکےـ کورونا وائرس کے ملک میں بتدریج پھیلنے کی وجہ سے حکومتی ہدایات اورشرعی تعلیمات کی روشنی میں جن دنوں ملک کے تمام نمایندہ مسلم ادارے نمازباجماعت اوردیگرمذہبی اجتماعات سے مسلمانوں کوروک رہے تھے، انہی دنوں سعدصاحب کاایک بیان سوشل میڈیاکے سہارے مسلمانوں کے درمیان وائرل ہورہاتھا، جس میں وہ بڑی مضبوطی؛ بلکہ دیدہ دلیری کے ساتھ مسلمانوں کومسجدکی طرف رجوع کرنے کی دعوت دے رہے تھے، اسی پربس نہیں، انھیں ڈاکٹروں کی اس ہدایت پربھی شدیداعتراض تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملائیں، وہ باقاعدہ حدیث کاسہارالے کر مسلمانوں کوابھاررہے تھے کہ تم مصافحے کاعمل ہرگزنہ چھوڑناـ یہ چیزیں یقیناعام مسلمانوں کے ساتھ خاص مسلمان یعنی ہمارے دیگراہلِ علم قائدین تک بھی پہنچی ہوگی، تب انھیں سعدصاحب سے رابطہ کرکے صورتِ حال کی خطرناکی کے بارے میں بتاناچاہیے تھا، اگر ایساہوتاتوشایدنوبت یہاں تک نہ پہنچتی ـ
دوسراکرنے کا ضروری کام اِس وقت بھی اوربعدمیں بھی یہ ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا جس میں نیوزویب سائٹس اورسوشل نیٹ ورکنگ سائٹس شامل ہیں، وہاں ہمارے نوجوانوں کوبھرپور اورمؤثرموجودگی درج کروانی چاہیےـ کسی تنظیم کی جانب سے کسی اخبارکے اجرا یاکوئی میڈیاہاؤس قائم کرنے کے مطالبے یاخواہش سے ہم لوگ دست بردار ہوجائیں، توہی بہترہے؛ کیوں کہ ماضی میں ایسی کئی مہمیں چھیڑی گئیں، جو”چندہ بٹورنے "تک محدودرہ گئیں یاانفرادی طورپرقوم کے کچھ صحافیوں نے اخبارنکالا، تووہ بھی یاتوحالات کے چیلنجزکامقابلہ نہ کرسکے یاان کی نیتیں پہلے سے ہی ناصاف تھیں، سوان کے اخبارات بھی آئے اورگئےـ لہذاہم ان سب جھمیلوں میں پڑے بغیر سوشل میڈیاجہاں کروڑوں لوگ ہروقت موجودہوتے ہیں اوراس وقت کوئی بھی سماجی بیانیہ قائم کرنے میں اس کاغیرمعمولی رول ہے، اسے ہم مسلمانوں یاکسی بھی طبقے کے خلاف مین سٹریم میڈیا کے پروپیگنڈے کاجواب دینے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں ـ حالات بہت عجیب رخ اختیارکررہے ہیں، ایسے میں لمبی لمبی باتیں کرنے اورمنصوبے انڈیلنے کی بجاے موجودہ ہندوستانی میڈیاکوکاؤنٹرکرنے کایہی فوری اور مؤثرطریقہ ہوسکتاہےـ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×