سیاسی و سماجی

وباکے دنوں میں مطالعہ

لاک ڈاؤن کے دوران اب تک پڑھی گئی کتابوں پر تاثراتی نوٹس:
(1)لوحِ ایام:یہ مختارمسعودکی تصنیف ہے،494صفحات پر مشتمل ہے،ہندوستان میں اسے ایم آرپبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔کتاب ایران میں مختارمسعود کے چار سالہ قیام کی رودادہے،اسے ان کے قیامِ ایران کا روزنامچہ کہاجائے،توزیادہ بہترہوگا۔وہ ریجنل ڈیولپمنٹ کے سلسلے میں ایران،ترکی و پاکستان کے مشترکہ ادارے کی طرف سے ایران بھیجے گئے تھے۔یہ اَسی کی دہائی کی بات ہے،جب ایران میں ”اسلامی انقلاب“ انگڑائی لے رہاتھااورجس کے طوفان میں وہاں کی روایتی شاہی حکومت تہہ وبالا ہوگئی۔اس کتاب کی ایک خصوصیت تویہ ہے کہ اسے مختار مسعود نے لکھاہے،دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انقلابِ ایران کی تمہید،اسباب ووجوہات سے لے کر اس کے مختلف کرداروں پر چشم دید حالات کی روشنی میں گفتگو کی گئی ہے۔اس اعتبار سے اردو زبان میں غالبایہ منفردکتاب ہے۔ البتہ اسے پڑھنے میں وہ مزانہیں آتا،جومختار مسعودکی ”آوازِدوست“اور ”حرفِ شوق“کے مطالعے میں آتاہے،وہاں الفاظ اُن کے قلم سے آبشار کے مانند بہتے اور چشمے کی طرح پھوٹتے چلے جاتے ہیں،یہاں تکلف ہے، آورد ہے، بے دلی ہے اور ایسا لگتاہے کہ مصنف بادلِ ناخواستہ لکھنے کی زحمت اٹھارہاہے۔کہیں کہیں تووہ محض ”نامہ نگار“نظر آتے ہیں۔اس کتاب میں ذوق ووجدان کی سرشاری کا وہ سامان نہیں، جو”آوازِ دوست“ اور ”حرفِ شوق“ کا خاصہ ہے۔
(2)ہندوستان ابتدائی مسلم مؤرخین کی نظروں میں:اس کے مصنف سید عثمان شیر ہیں،بہاری الاصل ہیں،علی گڑھ کے پروردہ، پاکستانی شہریت کے حامل اور فی الحال کنیڈامیں مقیم ہیں۔ماہراقتصادیات ہیں اور پاکستان وبیرونِ پاکستان بڑے بڑے عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔قلم وقرطاس سے بھی مضبوط رشتہ ہے اور اخبارات ورسائل میں مضامین لکھنے کے علاوہ انگریزی و اردو میں کئی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ زیرتذکرہ کتاب ان کی انگریزی تصنیفIndia:As Seen By Early Muslim Chroniclesکااردوترجمہ ہے،انگریزی ایڈیشن2005میں منظر عام پر آیاتھا،اردو ترجمہ پہلی بار 2018 میں شائع ہواہے،انگریزی ایڈیشن ریجنسی پبلی کیشنز،نئی دہلی نے شائع کیاتھا،اردو ایڈیشن فاروس میڈیا،نئی دہلی نے چھاپاہے۔ترجمہ انھوں نے خود کیاہے اور اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اگر پڑھنے والے کوپہلے سے معلوم نہ ہوکہ یہ انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے،تواسے بالکل اس کااحساس نہیں ہوگا۔شاندار،رواں،سلیس و شستہ ترجمہ ہے۔روانی و شیرینی لاجواب ہے،پڑھتے ہوئے کسی بھی مرحلے میں اکتاہٹ و بیزاری کا احساس نہیں ہوتا۔
کتاب کے کل صفحات361ہیں اور اس کی علمی وتاریخی اہمیت -جیساکہ نام سے بھی ظاہرہے-یہ ہے کہ اس میں ابتدائی دور کے مسلم مؤرخین کے چشم دیدحالات اوران کی کتابوں کے اقتباسات کے ذریعے ہندوستان کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ان اقتباسات کو نقل کرتے ہوئے ایک خاص ترتیب کو بھی ذہن میں رکھاگیاہے اور مصنف نے یہ کوشش بھی کی ہے کہ ایک ہی قسم کی باتیں مختلف مؤرخین کے حوالے سے نقل نہ ہوجائیں،حالاں کہ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتاہے،مگر مجموعی طورپر بہ تدریج مسلمانوں کی آمد سے پہلے،پھر محمد بن قاسم کے سندھ پرحملے سے لے کرغزنوی،غوری،مملوکی،سلجوقی،فیروزشاہی،خلجی و مغلیہ حکومتوں کے ہندوستان کا نقشہ پیش کیاگیاہے۔مصنف نے پچاس سے زائد مصنفین کی کتابوں سے اقتباسات و معلومات اخذکی ہیں،جن میں ابوریحان البیرونی،ابن بطوطہ،ابن خرداذبہ،ابوالحسن مسعودی، ابن حوقل،زکریاقزوینی،بلاذری،عبداللہ الوصاف،تیمور، بابر، جہانگیر، ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم،ہمایوں کے درباری جوہر،اکبرکے مقرب ابوالفضل،شاہجہاں کے درباری عنایت خاں،اورنگ زیب کیمنصب دارساقی مستعد خان،عبدالقادربدایونی،محمد قاسم ہندوشاہ فرشتہ، امیرخسرو، ضیاء الدین برنی اور دیگر مؤرخین بھی شامل ہیں۔ان تمام مصنفین کے زمانوں میں تفاوت ہے،سو ہندوستان کے تعلق سے ان کی معلومات میں بھی تفاوت ہے۔بابروجہانگیر کی خودنوشتوں کے اقتباسات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں اورانھیں پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ حکومت کرنے کاان کا انداز کیاتھااور وہ رعایاکوکس نظر سے دیکھتے تھے،ابوالفضل کی ”آئینِ اکبری“کے اقتباسات سے اکبر کے دورکے ہندوستان سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔اس ملک کی آب و ہوا،رہن سہن،تہذیبی و معاشرتی خصوصیات،پھل پھول،کھیتیاں،بارش،سردی،گرمی الغرض ایک ایک پہلو پر انھوں نے گفتگو کی ہے۔یہاں بسنے والے ہندووں کے عقائد،معاشرتی طورطریقوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔سترہویں،اٹھارویں وانیسویں صدی میں ہندوستان آنے والے بعض انگریز اور دوسرے مصنفین کی کتابوں سے بھی استفادہ کیاگیاہے۔الغرض اس ایک کتاب کا مطالعہ بہ یک وقت تاریخ ِ ہند پر لکھی گئی پچاسوں کتابوں کے مطالعے کے برابرہے۔خاص بات یہ بھی ہے کہ مؤلف نے اخیر میں مختصراًان تمام مؤرخین کااحوالِ زندگی بھی بیان کردیاہے،جن کی کتابوں سے اخذواستفادہ کیاہے۔
(۳)عروجِ فن:کلیاتِ خلیل الرحمن اعظمی:خلیل الرحمن اعظمی مابعد آزادی کے ان گنے چنے ہندوستانی شعرا میں سے ایک ہیں،جنھوں نے اپنے منفرد لب و لہجے سے اردو دنیا میں امتیازی شناخت قائم کی۔ان کی شاعری میں وہ خاص بات ہے جوناصر کاظمی و ابن انشاسے منسوب ہے اورفکر ونظر سے لے کر انھیں اشعار کے سانچے میں ڈھالنے کی تکنیک وغیرہ میں بھی ان کے یہاں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔خلیل الرحمن نے زندگی کی تلخ سچائیوں کو شعری پیکر عطاکیا اور معاشرتی اقدار و علائم کی شکست و ریخت کے نوحے لکھے۔انھوں نے بہت اچھی غزلوں کے علاوہ بہترین نظمیں بھی کہی ہیں۔”خلوت کا چراغ“، ”شام“، ”نیاعہدنامہ“،”سلسلے سوالوں کے“وغیرہ اپنی ساخت،تخیل،لفظیات،تراکیب کے زیر وبم اور آہنگ کے اعتبار سے بہت ہی پرلطف نظمیں ہیں اور انھیں باربار پڑھنے کوجی چاہتاہے۔ اس کتاب کو ان کی بیٹی ہمامرزانے مرتب کیاہے،260صفحات پرمشتمل ہے،2018میں قومی کونسل برائے اردوزبان،نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔شروع میں ہمامرزاکا اپنے والد کی شاعری پر ایک بھرپور تعارفی و تاثراتی مضمون شامل ہے،ان کی شاعرانہ خصوصیات پرشمس الرحمن فاروقی کا بھی وقیع مضمون اس کتاب کا حصہ ہے،اسلوب احمد انصاری کا مضمون بھی خلیل الرحمن کی شعری کائنات کی مختلف جہتوں سے روبرو کراتا ہے۔اس کتاب میں ان کے تینوں شعری مجموعے”کاغذی پیرہن“،”نیاعہدنامہ“ اور”زندگی اے زندگی“ جمع کردیے گئے ہیں۔اس طرح ان کا تمام شعری سرمایہ یکجابھی ہوگیاہے اور محفوظ بھی۔چند منتخب اشعار:
دنیاعجب جگہ ہے کہیں دل بہل نہ جائے
تجھ سے بھی دور آج تری آرزوگئی
بھلاہواکہ کوئی اورمل گیا تجھ سا
وگرنہ ہم بھی کسی دن تجھے بھلادیتے
نشہئ مے کے سواکتنے نشے اوربھی ہیں
کچھ بہانے مرے جینے کے لیے اوربھی ہیں
ہم کہ میخانے کا میخانہ اٹھاکر پی جائیں
تجھ سے چھٹ کر نہ کٹی ہم سے مگر ایک بھی رات
اتناباہر نہ قدم سرحدِ ادراک سے رکھ
تجھ کو ڈس لیں نہ کہیں تیرے جنوں کے لمحات
تمام یادیں مہک رہی ہیں،ہر ایک غنچہ کھلاہواہے
زمانہ بیتامگر گماں ہے کہ آج ہی وہ جداہواہے
ہاے وہ لوگ جن کے آنے کا
حشرتک انتظارہوتاہے
میں نے دیکھی ہے وہ اک ساعتِ نایاب بھی جب
جسم اورروح میں کچھ فرق نہیں رہتاہے
پھرچلے جاناابھی وقت بہت باقی ہے
ابھی رک جاؤ کہ جی بھرکے کہاں دیکھاہے
ترے جمال کی تصویر پھر بھی کھنچ نہ سکی
بھری بہارکی تشبیہ یوں تواچھی ہے
یادآتی ہیں وہ شامیں، جب رسم و راہ کسی سے تھی
ہم بے چین سے ہوتے، جوں جوں یہ دن ڈھلتاتھا
وہ مانوس سلونے چہرے،جانے اب کس حال میں ہیں
جن کو دیکھ کے خاک کا ذرہ ذرہ آنکھیں ملتاتھا
ابھی تک یادآتے ہیں کچھ ایسے اجنبی چہرے
جنھیں دیکھے کوئی تودیکھ کر تکتاہی رہ جائے
تیرے نہ ہوسکے تو کسی کے نہ ہوسکے
یہ کاروبارِشوق مکررنہ ہوسکا
اے ناصحونہ اورکوئی گفتگو کرو
گرہوسکے تو چاکِ گریباں رفوکرو
پھرجس طرح بھی چاہو کروہم پہ تبصرہ
پہلے ہماری طرح سے جینے کی خو کرو
دیکھ دنیا اب ہمیں کچھ دیر تنہا چھوڑدے
ایسے عالم میں کہ جب ہم پر اترتی ہوکتاب
لوگ ہم جیسے تھے اور ہم سے خدابن کے ملے
ہم وہ کافرہیں کہ ہم سے کہیں سجدہ نہ ہوا
کیاقیامت ہے کہ ہم خودہی کہیں،خودہی سنیں
ایک سے ایک ابوجہل ہے کس کس سے لڑیں
ہمیں توراس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا،کوئی ہمسایہئ خدانکلا
اب اپنے آپ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں جاکر
عدم سے تابہ عدم اپنا نقشِ پانکلا
خداکرے کہ انھیں اورکچھ ثبات ملے
یہ چند صورتیں جن پرہے آدمی کاگماں
جانے کیوں اک خیال ساآیا
میں نہ ہوں گاتوکیاکمی ہوگی
(4)خطوں کاسفرنامہ:یہ امرتاپریتم اور امروزکے خطوط کا مجموعہ ہے،215صفحات پر مشتمل ہے،تمام خطوط پنجابی سے ہندی میں ترجمہ کیے گئے ہیں،مترجمہ و مرتبہ اُوماترلوک ہیں،ادارہپینگوئن سے شائع ہوئی ہے۔ امرتاپریتم برصغیر کی ادبی تاریخ کانمایاں چہرہ ہیں اورخود ایک تاریخ۔ان کی تخلیقات اور ان کی داستانِ زندگی دونوں اہلِ ادب وذوق کی توجہات اور دلچسپیوں کامرکزرہی ہیں اورجس طرح ان کی تخلیقات میں افکار وتخیلات کے اچھوتے وانوکھے زاویے ملتے ہیں،اسی طرح ان کی ذات،ان کی حیات،ان کی رودادِ حیات میں بھی موعظت و عبرت کے ہزارپہلو ہیں۔زیر تذکرہ کتاب میں جمع کردہ خطوط بالکل ذاتی نوعیت کے ہیں،ان میں امرتاوامروز کے ایک دوسرے کے تئیں جذباتِ عشق ومحبت سطرسطرمیں بکھرے ہوئے ہیں۔
(5)پورے،آدھے،ادھورے:معروف فکشن نگار،ناقدوصحافی عابدسہیل کے خاکوں کامجموعہ ہے۔شاندار،جاندار،خوب صورت،دلچسپ و دل آویز۔اس کتاب میں عابد سہیل نے اپنے چوبیس شناساؤں کے خاکے لکھے ہیں اور بڑی فن کاری کے ساتھ ان کی زندگی کے مختلف پہلووں سے پردہ اٹھایاہے۔ان کی یہ کتاب خاکہ نگاری کے باب میں ایک وقیع اور قیمتی اضافہ کہی جاسکتی ہے۔ان کے اسلوب میں ایسی روانی اور بے ساختگی ہے کہ بس پڑھیے اور پڑھتے چلے جائیے۔متعلقہ شخصیات کی علمی و عملی جہتوں،اخلاقی رویوں،نظریاتی وابستگیوں اور زندگی کو برتنے کے ان کے طورطریقوں پربڑی خوبی سے روشنی ڈالی ہے۔مشہور شخصیات مثلامجاز،سیداحتشام حسین،عرفان صدیقی،کیفی اعظمی،قیصرتمکین، محمد حسن،مسعودحسن رضوی،نیرمسعود،شمس الرحمن فاروقی وغیرہ کے بارے میں لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھااور لکھتے رہتے ہیں،مگر عابد سہیل کی اپنی انفرادیت ہے اوراس کا احساس ان شخصیات پر لکھے گئے ان کے خاکوں کوپڑھ کربخوبی ہوتاہے،ان کے بارے میں بہت سی ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں،جواورکہیں نہیں مل سکتیں،ان کی شخصیتوں کے بہت سے ایسے پہلووں سے واقفیت ہوتی ہے،جن کے بارے میں اورکسی نے نہیں لکھا۔کتاب کے اخیر میں انھوں نے اپنے رسالے ”کتاب“کامکمل زندگی نامہ بھی پیش کردیاہے،جواپنے زمانے میں اردودنیا کاایک وقیع ادبی رسالہ سمجھاجاتاتھا اورجسے اس وقت کے بڑے بڑے اہلِ علم و ادب کی سرپرستی وتعاون حاصل تھا۔اس رسالے نے بہت سے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی اور ان کی صلاحیتوں کو اُجالا، بعد میں وہی لوگ ہندوستان گیر سطح کے عمدہ لکھنے والوں میں شمار ہوئے۔ پوری کتاب232صفحات پر مشتمل ہے اورپہلی بار عرشیہ پبلی کیشنزدہلی سے2015میں شائع ہوئی ہے۔یہ غالباً ان کی زندگی کی آخری تصنیف ہے،جنوری 2016میں ان کا انتقال ہواہے۔ان کے خاکوں کاایک اورمجموعہ2004میں ”کھلی کتاب“کے نام سے شائع ہواتھا،جس میں ڈاکٹرعبدالعلیم،حیات اللہ انصاری،آل احمد سرور، آنندنرائن ملا،عشرت علی صدیقی،احمد جمال پاشا،نسیم انہونوی سمیت کل چودہ شخصیات کے خاکے ہیں،آخری خاکہ اولڈانڈیاکافی ہاؤس،لکھنؤکاہے اور اس ایک خاکے میں لکھنؤکی دسیوں علمی،ادبی،سماجی و سیاسی شخصیات کے مختصرخاکے جمع ہوگئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×