سیاسی و سماجی

تعزیرات ہند اور مجموعہ ضابطہ فوجداری؛ ایک قانونی مطالعہ

کورونا وائرس‘ کو وڈ 19 یا سارس ۔سی، او یا وی ۔۲  کے سبب بیشتر دنیا لاک ڈاؤن میں پھنسی ہوئی ہے، ملک عزیز ہندوستان بھی اس سے محفوظ نہیں ، بائیس مارچ کے ایک روزہ کرفیو کے بعد اکیس روزہ تالہ بندی پھر ریاستی حکومتوں کے دباؤ کے بعد مزید انیس دن کارخانہ زندگی تعطل کا شکار رہے گی، اس تعطل کے زمانہ میں سب کی مصروفیات چل رہی ہیں، عوام و خواص کا معتد بہ حصہ (فضول) تبصروں میں لگا ہوا ہے ، ایسے میں راقم کا ارادہ ہوا ہے کہ کیوں نہ قانون بالخصوص قانونِ جرائم کی موٹی موٹی باتیں قارئین کی نذر ہوجائیں تاکہ اس تالہ بندی المعروف بہ لاک ڈاؤن کی فراغت راقم و قاری دونوں کے لئے مفید ہوجائے، درج ذیل مضمون اس سلسلہ کی پہلی کڑی ہے۔

مقدمات عموما دو طرح کے ہوتے ہیں ، سِوِل اور کریمنل ، اردو زبان میں جنہیں دیوانی مقدمہ یا فوجداری مقدمہ کہا جاتا ہے، عدالتیں بھی اسی طرح تقسیم کی جاتی ہیں، دیوانی اور فوجداری عدالتیں، پھر ان دیوانی اور فوجداری مقدمات کے عدالت میں پیش کئے جانے سے فیصلہ سنائے جانے تک وکیل اور جج ان ہی ضوابط کے تحت کاروائی آگے بڑھاتے ہیں جو ضوابط ان مقدمات سے متعلق ہوں، جیسے زمین جائیداد کی ملکیت کا مقدمہ ایک دیوانی مقدمہ ہے، یہ کیس دیوانی مقدمات کے مجموعہ ضوابط یعنی سِوِل پروسیجر کوڈ کے تحت چلتا ہے، سِوِل کیسس میں پولیس کا رول نہ کے برابر ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی خلاف قانون حرکت ہوجائے، سِوِل اور کریمنل مقدمات کے درمیان فرق کسی اور تحریر میں ان شاءاللہ رقم کئے جائیں گے، سِوِل مقدمات کے برخلاف کریمنل مقدمات زیادہ پریشانی کاسبب ہوتے ہیں اس لئے ان کو مقدم کیا جارہا ہے۔

ملک عزیز ہندوستان میں جرائم کو ڈیل کرنے کے لئے دو قوانین کافی اہم ہیں، کسی ملزم یا مجرم کو سب سے پہلے انہی سے پالا پڑتا ہے بلکہ جرم کے وقوع سے لیکر سزا سنائے جانے یا باعزت بری کئے جانے تک تقریبا معاملہ انہی دو قوانین کے گرد گھومتا رہتا ہے، ایک تعزیرات ہند جسے انگریزی میں انڈین پینل کوڈ کہا جاتا ہے اور دوسرے مجموعہ ضابطہ فوجداری جسے کریمنل پروسیجر کوڈ کہا جاتا ہے، انڈین پینل کوڈ میں 511جبکہ یمنل پروسیجر کوڈ میں 484 دفعات ہیں، ان دفعات میں وقتا فوقتا کمی زیادتی یا تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔
جرم کی نوعیت ، تعریف، اقسام اور سزا یہ تعزیرات ہند میں بیان کی جاتی ہیں ،جرم کی تفتیش، ملزم کی پولیس اسٹیشن میں وجہ نمائی کی نوٹس، گرفتاری، عدالت میں پیشی، گرفتار شدہ فرد کے حقوق وغیرہ امور ضابطہ فواجداری کے تحت طئے ہوتے ہیں نیز عدالتوں کا حلقہ اختیار بھی ضابطہ فوجداری یعنی کریمنل پروسیجر کوڈ ہی بتاتا ہے، مثلا قتل کا جرم ممبئی میں وقوع پذیر ہوا اورقاتل و مقتول کا تعلق حیدرآباد سے ہے تو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 177 یہ بتاتی ہے کہ مقدمہ حیدرآباد میں نہیں بلکہ ممبئی ہی کی کریمنل کورٹ میں چلایا جائے گا ، اسی طرح مقدمہ کی نوعیت سے بھی یہ حکم بدل جاتا ہے، جیسے دفعہ 181 کی ذیلی دفعہ 3 کے تحت چوری کے معاملہ میں یا تو مقدمہ وہاں چلایا جائے گا جہاں چوری ہوئی ہے یا وہاں؛ جہاں چور چوری کے سامان کے ساتھ پکڑا گیا ہے، یاد رہے کہ استثناءیہاں پر ہر معاملہ میں لگا رہتا ہے۔
جرائم کی بھی دو قسمیں ضابطہ فوجداری میں کی گئی ہیں ، ایک قابل دست اندازی پولیس دوسری قسم ناقابل دست اندازی پولیس، پہلی قسم کے مقدمات سنگین نوعیت اور زیادہ سزا کے حامل ہوتے ہیں، قابل دست اندازی پولیس کا آسان مطلب یہ ہے کہ ایسے معاملات میں پولیس کو ملزم کی گرفتاری کے لئے وارنٹ کی ضرورت نہیں ہے اور تفتیش شروع کرنے کے لئے مجسٹریٹ کی اجازت کی بھی لازمی نہیں ہے، جیسے قتل ، اغوا، ڈاکہ زنی وغیرہ، ناقابل دست اندازی پولیس معاملات میں گرفتاری کے لئے پولیس کو پہلے وارنٹ تیار کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور بنا مجسٹریٹ کی اجازت کے تفتیش بھی شروع نہیں کی جاسکتی جیسے فراڈ، دھوکہ دہی، جعلی دستاویز ات تیار کرنا وغیرہ ، ان معاملات میں گرفتاری فورا نہیں ہوسکتی ۔
اب تک کے مطالعہ سے آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ جرم کی تعریف اور سزا تعزیرات ہند سے معلوم ہوگی اور اس جرم پر تفتیش اور کاروائی ضابطہ فوجداری کے تحت انجام پائے گی، سیکشن 144 کیسے لاگو کیا جاتا ہے اس کی تفصیل سی آر پی سی یعنی کرمنل پروسیجر کوڈ میں ملے گی اور اس قانون کی خلاف ورزی پر سزا آئی پی سی کے تحت سنائی جائے گی جو کہ زیادہ سے زیادہ دو سال یا فائن یا دونوں ہوسکتے ہیں۔
قتل؛ تعزیراتِ ہند کی دفعہ 302 کے تحت ایک سنگین جرم ہے اور سنگین جرائم پر فوری ایکشن لینے کے اختیارات ضابطہ فوجداری میں دیئے گئے ہیں ، چنانچہ پولیس قتل کے معاملہ میں حالات کی روشنی اور سیاق و سباق کے حوالہ سے بلا کسی تاخیر کے مشتبہ فرد یا ملزم کو گرفتار کرکے تفتیش کا آغاز کردے گی۔
یاد رکھئے جرم کی سنگینی قانون طئے کرتا ہے عوام نہیں، بعض جرائم عوام کی نظر میں کافی سنگین ہوتے ہیں لیکن ان جرائم کے کرنے والے آزاد گھومتے ہیں گرفتار نہیں ہوتے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جرائم قانون کی نظر میں سنگین نہیں ہوتے جس کی بنا پر ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاتی ہے، تعزیرات ہند کی دفعہ 498 گھریلو تشدد سے متعلق ہے، گھریلو تشدد کو سنگین جرم مانا جاتا تھا اور ایسے معاملات کی شکایت پر پولیس پورے گھرانے کو جیل کی سیر کرواتی تھی، بعد میں عدالت عظمی نے اس دفعہ کے غلط استعمال کو محسوس کرکے اس کی سنگینی کو کم کردیا ہے چنانچہ اب اس دفعہ کے تحت فورا کسی کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔
آئی پی اور سی آر پی سی کے تعلق سے یہ چند سطریں معلومات عامہ میں اضافہ کی غرض سے لکھی گئی ہیں، یہ دونوں قوانین حکومت ہند کی جانب سے بزبان اردو آن لائن مفت دستیاب ہیں لیکن زبان اصطلاحی ہونے کی وجہ سے فہم اتنا آسان نہیں ہے۔
قارئین سے گذارش ہے کہ خدانخواستہ کسی معاملہ میں آپ کو یا آپ کے کسی عزیز کو ملوث کیا جائے توڈرنے اور گھبرانے کے بجائے فورا ان الزامات کے بارے میں معلوم کریں کہ آیا وہ سنگین جرائم میں آتے ہیں یا غیر سنگین شمار ہوتے ہیں، یاد رکھئے ہر معاملہ میں جیسا کہ مذکور ہوا ہر کسی کو گرفتار کرنے کا حق پولیس کے پاس بالکل بھی نہیں ہے۔
معلومات حاصل کریں کہ نالج از پاور یعنی علم ہی طاقت ہے، ان شاءاللہ اگلا مضمون گرفتاری کے قوانین اور گرفتار شدہ شخص کے حقوق سے متعلق ہوگا۔

مضمون نگار سے رابطے یا اپنی رائے کے اظہار کے لئے:
91-9966870275+
muftinaveedknr@gmail.com

Related Articles

2 Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×