شخصیات

ایک عزیز از جان دوست کی یاد میں

"اگر میرے مکاتب کے اساتذہ کے لئے لاک ڈاؤن کے ایام کی تنخواہوں کا کہیں سے نظم نہ ہوسکا تو میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ بائیک خریدنے کے لئے جو پیسے جمع کئے ہیں وہ تنخواہوں میں تقسیم کردونگا”
یہ الفاظ میرے صدیق حمیم اور جگری یار کے تھے جو انہوں نے بعض نظماءِ مدارس کی جانب سے اساتذہ کو لاک ڈاؤن کی تنخواہ دینے میں پس و پیش کے واقعات پر مشتمل خبروں کے سننے کے بعد کہے تھے…

آج صبح دس بج کر اکیس منٹ پر میرے اور مرحوم کے ایک مشترک دوست کے ذریعہ یہ اندوہناک اطلاع ملی کہ ابراہیم بھائی اب نہیں رہے، میں ان کی بیماری سے مطلع تھا لیکن یہ مرض مرض الوفات ثابت ہوگا اس کا وہم و گمان تک نہ تھا، کل شام بعد عصر ہی ہماری میسیجس کے ذریعہ گفتگو ہوئی تھی، وہ ہفتہ عشرہ سے بیمار تھے لیکن کل انہوں نے طبیعت کے سنبھلنے کی اطلاع دی اور میں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ وہ بغیر امتحان لکھے دسویں پاس کرچکے ہیں، ہمارے درمیان اسی قسم کی ہلکی پھلکی گفتگو جاری رہی اور ہم دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کے کفن کا کپڑا بازار میں آچکا ہے…

مرحوم اور میں شعبہ افتاء کے ساتھی رہے ہیں، درسگاہ بھی ایک اور تمرین بھی ایک، مفتاح العلوم، جلال آباد سے سن دو ہزار نو میں فراغت کے بعد انہوں دار العلوم حیدرآباد کے شعبہ ادب میں داخلہ لیا پھر وہیں اگلے سال (دو ہزار دس تا دو ہزار گیارہ) شعبہ افتاء میں شریک ہوئے، افتاء ہی میں ہماری ملاقات ہوئی اور مزاج اور طبیعت کی حد درجہ یکسانیت و مماثلت نے ہماری دوستی کو کافی مضبوط کیا، ہم نے صرف ایک سال ساتھ میں پڑھائی کی لیکن دوستی ایسی جیسے برسوں ساتھ رہے ہوں…

افتاء کے بعد وہ خدمتِ دین کے مختلف شعبوں میں لگ گئے، امامت خطابت تدریس کے ساتھ ساتھ اطراف و اکناف کے دیہاتوں میں مکاتب کے قیام کا سلسلہ شروع کیا، رنگاریڈی، سنگاریڈی اور میڈچل کے مختلف دیہاتوں میں آباد اہل اسلام کے لئے مکاتب قائم کئے، ان مکاتب کو منظم رکھنے کے لئے سن دو ہزار سولہ میں جمعیۃ الحفاظ و رابطہ مکاتب دینیہ کے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی، شہرت و نام و نمود کا شائبہ تک ان کے کاموں میں محسوس نہیں ہوتا تھا، میری ہی زبردستی پر تنظیم کا لیٹر ہیڈ تیار کروایا تھا، مجھے اپنی کارگذاریاں سناتے رہتے وہ بھی صرف گفتگو کو طول دینے اور مشورے کے لئے، حیدر آباد کے ممتاز علماء کرام کو اپنے مکاتب کی تربیتی نشستوں میں مدعو کرتے رہتے تھے، مضمون کے شروع کی سطروں سے آپ ان کے جذبہ کا اندازہ کرسکتے ہیں…

دو ہزار اٹھارہ میں حج بیت اللہ سے سرفراز ہوئے، اہلیہ بھی ساتھ تھیں، قرعہ اندازی میں پہلی مرتبہ میں ہی نام آگیا، فارم داخل کرتے وقت پیسے برائے نام تھے، جب نام نکل آیا تو قرض لیا اور اپنی دو کمسن لڑکیوں کو گھر چھوڑا اور نکل پڑے، اہلیہ غالبا حاملہ بھی تھیں، واپسی کے بعد بندہ گواہ ہے کہ غیب سے ایسے انتظامات ہوئے کہ قرضہ بلکل چٹکیوں میں ادا ہوگیا، خود ان کے الفاظ تھے کہ اُس سال تقریبا بارہ لاکھ روپے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ذاتی کاموں پر خرچ کئے ہیں حالانکہ آمدنی اُتنی ہرگز بھی نہیں تھی… ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب

جامعہ عربیہ مظہر العلوم، سری لنگم پلی کے صرف استاد نہیں بلکہ بلا مبالغہ ریڑھ کی ہڈی تھے، تنخواہ صرف تدریس اور نگرانی کی لیتے تھے لیکن کام اس سے دس بیس گنا زیادہ ہی کرتے تھے…

میری آخری بالمشافہ ملاقات دسمبر کے مہینہ میں ہوئی، میں مع اہل حیدرآباد کے سفر پر تھا، ان کے بھی گھر گیا، بچیاں بھی ماشاء اللہ چندے آفتاب چندے ماہتاب، اللہ پاک ان کا مقدر بھی چمکادے، انتقال کی خبر سننے کے بعد سے ان ہی کے چہرے نگاہوں میں گھوم رہے ہیں، لڑکیاں بچیاں اپنے باپ کی لاڈلی ہوتی ہیں، اب کیا کیفیت ان معصوموں کے دلوں کی ہوگی اس کا تصور ہی سوہانِ روح ہے…

مرحوم نے اپنی تقاریر کا مجموعہ بھی بندہ کے ذریعہ مرتب اور ٹائپ کروالیا تھا جو انہوں نے مختلف موقعوں پر تیار کی تھیں، ٹائپنگ ہوچکی تھی لیکن وہ کسی خاص موقعہ پر اس کو چھپوانے کا ارادہ رکھتے تھے، مجموعہ کے نام میں ان کی خواہش تھی کہ والد اور والدہ دونوں کا نام آجائے چناچہ نسیمِ صبحِ صادق تجویز کیا، مسودہ پر نظر ثانی بھی کرچکے تھے، ایک دو علماء کرام سے تقاریظ کے لئے بات بھی ہوچکی تھی لیکن بسا آرزوئے کہ خاک شدہ…

دارالعلوم حیدرآباد میں سبھی اساتذہ بالخصوص حضرت مولانا سید احمد ومیض ندوی، استاد ادب حضرت مولانا نعمان الدین ندوی (سنبھلی)، صدر شعبہ افتاء حضرت مفتی محمد جمال الدین مدظلہم العالی کے منظور نظر تھے…

بے لوث خدمت خلق کا جذبہ بہت تھا، ابھی ماہ رمضان میں ہمارے ایک مشترک دوست کی مخدوش مالی حالت کی میں نے انہیں خبر دی، فورا سے بیشتر تقریبا پندرہ سے بیس ہزار روپے کی رقم ان کو روانہ کردی اور فون کرکے انہیں ڈانٹ بھی دیا کہ حالات غیروں سے چھپائے جاتے ہیں اپنوں سے نہیں، دوسروں کے لئے قرض بھی لے لیا کرتے تھے، انہی مذکورہ دوست کے لئے ایک جگہ سے دس ہزار روپے قرض بھی لیکر انہیں پہونچائے …

لاک ڈاؤن کے دوران اپنے متعلق اساتذہ کے علاوہ تلنگانہ کے مختلف اضلاع میں ان کی جان پہچان والے علماء حفاظ میں مالی ہدایا بھی تقسیم کئے، یقینا ان سب کی دعاؤں سے محظوظ بھی ہورہے ہوں گے…

حالات کی ناموافقت کہ اتنی قربت و الفت کے باوجود جنازہ میں شریک نہ ہوسکا، ان شاء اللہ اُن سے جنت میں ملاقات ہوگی…

لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن کیا کیا لکھا جائے، جذبات و احساسات کو الفاظ کا جامہ ہرگز بھی نہیں پہنایا جاسکتا، جانے والا ایک کامیاب و مکمل زندگی گذار کر چلا گیا ہے، حافظ عالم حاجی و خادمِ دین ہونے کے علاوہ وبا کے دنوں میں انتقال کے باعث شہید کا ثواب بھی حاصل کرچکا ہے، مسئلہ اب صرف میرا اور آپ کا ہے…

اللہ پاک مرحوم کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے، سبھی اہل علم کی زندگیوں میں برکت نصیب فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ بالخیر فرمائے…

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×