اسلامیات

موجودہ حالات میں راہِ عمل

اس وقت ساری دنیا میں اسلام دشمنی اور مسلم کُشی زوروں پر ہے ،سفاکیت وبربریت کی مثالیں قائم کرنے کے لئے طاغوتی فوجیں مقابلہ آرائی کر رہی ہیں، اجتماعی وانفرادی قتل وغارت گری کے المناک واقعات صبح وشام آنکھوں کے سامنےگھوم رہے ہیں،بلکہ دانستہ دکھائے جارہے ہیں ،اقوام عالم میںمظلوم طبقوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ظلم وتشددکےدلخراش حالات رو نما ہورہے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ، کسی خاص خطہ یا ملک ہی نہیں بلکہ کرۂ ارض کے گوشہ گوشہ سے یہ صدائیں آرہی ہیں کہ روئے زمین پر اِلٰہِ واحد کے پرستاروں کو جینے کا کوئی حق نہیں ، جسے توحید کے گُن گانا ہو ، جسے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرنی ہو ، جسے خدا کے گھروں کو بنانا اور آباد کرناہو، جسے نبی آخر الزماں ﷺ کو اُسوہ اور ماڈل بنانا ہو، جسے قرانی تعلیمات عام کرنا ہو ، جسے امن کے پیام بر بننا ہو ، جسے محبت کی بولی بولناہو ،جسے انسانیت کا دکھ در بانٹنا ہو ، جسے مظلوموں اور فروتروں کا ساتھ دینا ہو ، وہ اِ س دھرتی پر رہنے کے قابل نہیں ، اگر وہ جینا چاہتے ہیں تو اُنہیں کفر پر ،شیطان کی پرستش پر ، طاغوتوں کی روش پر ،فرعونوں کی غلامی میں جینا ہوگا ورنہ اُنہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا ، قوموں کو ڈرا دھمکا کر ،ان کی املاک واموال کو ہلاک کرکے، جانوں کو نقصان پہنچا کر خوف وہراس کاماحول بنانے کوششیںنہ صرف جاری ہیں؛ بلکہ روزافزوں ہیں ۔
اقوام وملل کی تاریخ میں یہ ہوتارہا ہے کہ جب قومیں اقتدار کے نشہ میں بد مست ہوجاتی ہیں ، بالادستی کا گھمنڈ وغرور اُنھیں سرکش اور باغی بنا دیتا ہےتورعایا پر ظلم کرنا ،ان کے املاک کو تباہ کرنا ، ان کی معاشی خوشحالی پر للچائی نظریں ڈالنا ، باعزت لوگوں کو ذلیل ورسوا کرنا ،عورتوں اور بچوں کو اسیر بنانا، نوجوانوں کوہلاک کرنا، اور ذلت ونکبت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرنا اُن حکمرانوں کاوتیرہ بن جاتاہے ۔ملکۂ سبا کے اس حقیقت پر مبنی تجزیہ کو قرآن نے ان الفاظ میں محفوظ کیا ہے:اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً(بلا شک بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اُسے خراب کر دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت باشندوں کو ذلیل کرتے ہیں )فرعون مصر اور اس کی قوم کاحال قرآن نےبایں الفاظ واضح کیا: اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَافِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِيَعًا يَّسْتَضْعِفُ طَاۗىِٕفَۃً مِّنْہُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَاۗءَہُمْ وَيَسْتَحْيٖ نِسَاۗءَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۝۴ (بلا شبہ فرعون زمین میں(حکومت واقتدار کے اعتبار سے )بڑھ چڑھ گیا تھا،اور اس نے وہاں کے لوگوں کی کئی قسمیں بنا رکھی تھیں، ان میں ایک جماعت (بنی اسرائیل ) کو کمزور بنا رکھا تھا ،ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا ،بلا شبہ وہ فساد کرنے والو ںمیںسے تھا )
عہدِ رسالت کے مکی دورمیں کفار ومشرکین کو اقتدار وبرتری حاصل تھی،اسلام کے اس دور ِاول کی تاریخ اُٹھا کر دیکھئے ، کیا کفار ومشرکین نےاسلام لانے والوں کو کبھی بخشا ہے؟ جس کا اسلام ظاہر ہوا وہ ضرور ظلم وستم کی چکی میں پیسا گیا ،اُنھیں مسلمانوں سے شدید نفرت وعداوت تھی،مسلمانوں کو دیکھتے تو تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی،لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا (مسلمانوں سے تمام آدمیوں سے زیادہ عداوت رکھنے والے آپ ان یہود اور کفار ومشرکین کو پائیں گے )اسی عداوت کا نتیجہ تھا کہ مکی دور میں کفار ومشرکین اور مدنی دور میں یہودی صحابہ کرامؓ پر ظلم وستم ڈھاتےاور ان کے خلاف سازشیں کرتے تھکتے نہیں تھے ،( اور آج بھی مسلمانوں کے لئے یہی دو قومیں زیادہ آزمائش کا سبب بنی ہوئی ہیں، ) چناں چہ صحابہ کرام ؓپر اجتماعی (ہجومی)حملہ بھی ہوا ،سخت دھوپ میں تپتی ریت پر لٹائے گئے ، چٹائی میں لپیٹ کر آگ کی دھونی دیے گئے، گرم پتھر وں پر لٹا کر سینے پرظالم کھڑے ہوگئے ،جانوروں سے باندھ کر مخالف سمتوں میں بھگا یا گیا ، ہجرت کرنے والوں کا راستہ روکا گیا ، مال ودولت چھین لی گئی ، اہل وعیال سے بچھڑا دیاگیا،اُنھیں مار پیٹ کر لہولہان کیا گیا ،اندھا کر دیا گیا ، حاملہ عورتوں کے حمل گرائے گئے ،صحابہ کرام ظلم کی تاب نہ لا کر مجبور وبے بس ہوگئے ،حضرت خبابؓ فرماتے ہیں ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اُن تکلیفوں کی شکایت کی جو مشرکین مکہ سے پہنچتی رہتی تھیں اس وقت آپ کعبہ کے سایہ میں چادر سےتکیہ لگائے تشریف فرما تھے ، ہم نے عرض کیا ، کیا آپ اللہ سے دعا نہیں فرماتے؟ یہ سُن کر آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلےبعض مسلمانوںکو زمین میںگڑھا کھود کر کھڑا کر دیا جاتاتھا ،پھر آرا لا کر سر کے اوپر سے لے کر (نیچے تک) چیر دیا جاتا تھا ، جس سے ان کے دو ٹکڑے ہوجاتےتھے ، یہ تکلیف بھی ان کو ان کے دین سے نہیں روکتی تھی ، اور ان کے سروں میں لوہے کی کنگھیاں کی جاتی تھیں جو گوشت سے گذر کر ہڈی اور پٹھے تک پہونچ جاتی تھیں اور یہ چیز بھی اُنھیں ان کے دین سے نہیں روکتی تھی ۔(مشکوٰۃ)یعنی صبر وہمت سےکام لو ، دین پر قائم رہو ۔ یہ حالات آنے ہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی یہی کہہ کر مسلمانوں کو حوصلہ دیا اور ان کی ہمت بڑھائی :کیا تم کو یہ خیال ہے کہ جنت میں یونہی چلے جائوگے حالاں کہ تم پر ایسے حالات نہیں آئے جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر آئے ، ان پر (مخالفین کی طرف سے) ایسی ایسی تنگیاں اور سختیاں آئیں اور (مصائب سے ) دوچار ہوئے کہ (اس زمانے کے ) پیغمبر اور ان کے ساتھ اہلِ ایمان بھی بے تاب ہو کر بول اُٹھے اللہ کی مدد (موعود ) کب آئے گی؟ (انھیں جواب میں تسلی دی گئی کہ ) یاد رکھو ! اللہ کی مدد( بہت) قریب ہے)۔ (سورۂ بقرہ :۲۱۴)
ایک اور جگہ فرمایا:اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ۝۲ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ۝۳ ’’کیا ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور اُن کوآزمایا نہ جائے گا ، بلا شبہ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا ، سو اللہ تعالیٰ ضرور بالضرور جان لے گا (ایمان لانے میں) سچوں کو اور جھوٹوں کو ۔ (سورۂ عنکبوت ) معلوم ہوا کہ آزمائشیں ، حالات ،مخالفین کی طرف سے ایذا رسانیاں زمانہ قدیم سے انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین پر آتی رہیں اور آئندہ بھی آتی رہیں گی ، اس سے مسلمانوں کو گھبرانے ، خوف وہراس میں مبتلا ہونے کے بجائے ایمان کو مضبوط رکھنے اور دین پر صبر واستقامت سے جمے رہنے کی ضرورت ہے کہ یہی انبیاء ِ سابقین ، اولیائے صادقین ، کی سنت اور اُسوہ ہے ۔
خود رسول کریم ﷺ کو کفار مکہ اور یہود ِ مدینہ نے طرح طرح کی اذیتیں دیں ،آپ کی دعوت وتبلیغ کو روکنے کے لئےکفار ومشرکین ابوطالب سے بار بار نمائندگی کرتے رہے اوراسلام کو روکنے کی بہت کوششیں کیں شعب ابی طالب میں رسول اللہ ﷺ کوآپ کے صحابہ اور خاندان کے ساتھ محصور کرکے تین سال تک کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا ۔آپ کو گالیاں دی گئیں ،مجنون و ساحر کہا گیا ،آپ کے روئے مبارک پر تھوکا گیا، آپ کے راستے میں کانٹےبچھائے گئے، آپ پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی گئی ،اہل طائف نے آپ کوخون آلود کرکے چھوڑا ، منافقین اور یہود بے بہودنے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوب سازشیں کیں اور دین حنیف کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ، آپ ﷺ کے اہل پر تہمیں لگائی گئیں ، غزوہ ٔ اُحد میں آپ کے چچا کا مثلہ کیا گیا، حدیبیہ میںغیر منصفانہ شرائط منظور کرائی گئیں،بیڑیوں میں جکڑے ہوئے فریادی کی مدد سے روک دیا گیا ، اس موقعہ پر صحابہؓ کا تحمل اور قوت برداشت جواب دے گئی ، وہ بول اُٹھے،کیا یہی فتح ِ مبین ہے ؟ کیا ہم حق پر نہیںہیں ؟ کیا آپ نبیِٔ برحق نہیں ہیں؟ پھر جب مکہ فتح ہوا اور اسلامی افواج فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئیں ،سینوں میں دبے ہوئے جذبات نے پھر انگرائی لی اور زبانوں پر یہ نعرہ تھا ’’ الیوم یوم الملحمہ ‘‘ آج انتقام کا دن ہے ، لیکن نبی ﷺنے نعرہ بدلا اور فرمایا ’’ الیوم یوم المرحمہ ‘‘ آج رحم وکرم کا دن ہے، بس آپ کے اک اشارہ ٔچشم پر سب سہار گئے، مچلتے جذبات کو لگام لگائی ،صبر کے کڑوے گھوٹ پی گئے، یہ سب کچھ ہوا ؛لیکن آپ ﷺ اور آپ کے اصحاب کرامؓ دین کی دعوت دیتےرہے ،صبر واستقامت کےساتھ حق تعالیٰ کے دین کی اشاعت کرتے رہے ، اور اولو العزمی کا مظاہرہ کیا۔
حاصل اس اجمال کا یہ ہے کہ اہل ایمان کو ہر دور میں مخالفین سے سابقہ پڑا ہے اور پڑتا رہے گا ،اوراس آزمائش میں کامیابی اس راہ پر چلنے سے ملے گی جس پر انبیاء علیہم السلام اور ان کےمتبعین چلتے رہے ،موجودہ حالات میں لائحہ عمل کے لئے نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرامؓ سےبہترین اُسوہ کس کا ہوسکتا ہے جسے اپنایا جاسکے ۔اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ مشتعل ہوتے جذبات کو قابو میں کرنے کی کوشش کریں ، حکمت نبوی کو اپنا ئیں ، صحابہ کرامؓ کے احوال سےصبر واستقامت کا سبق لیں ، احکام ِ الٰہی کو اپنے ہاتھوں پامال نہ ہونے دیں اتباع شریعت کا اہتمام رکھیں ، حق تعالیٰ کےد ین کی حمایت ونصرت میں لگے رہیں، توبہ واستغفار کا زود اثر تریاق استعمال کریں ، حق تعالیٰ کی مدد ونصرت ضرور آئے گی جیسا کہ پہلے آچکی ہے ۔
ان حالات سے نمٹنے کے لئے حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو کاموں کی ہدایت دی ،فرمایا:
لَتُبْلَوُنَّ فِيْٓ اَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ۝۰ۣ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَذًى كَثِيْرًا۝۰ۭ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۝۱۸۶ ’’ تم لوگ اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں ضرور با لضرور آزمائے جائو گے ، اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے تم ضرور بالضرور دل آزار باتیں سنوگے ،اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بلا شبہ یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے ‘‘ (سورۂ اٰلِ عمران :۱۸۶)
مولانا عاشق الہٰی بلند شہری ؒ فرماتے ہیں : اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو بتلایا گیا ہے کہ صبر اور آزمائش کے جو واقعات تمہارے سامنے آئے یہ نہ سمجھو کہ یہ آخری ہیں ان کے بعد بھی ایسے واقعات پیش آتے رہیں گی جن سے تمہاری آزمائش ہوتی رہے گی ، آزمائش جانوں میں بھی ہوگی اور مالوں میں بھی ہوگی ،ہمت وحوصلہ کے ساتھ برداشت کرتے رہو ، نیز اہل کتاب یہود ونصاریٰ اورمشرکین تمہیں ایذائیں پہونچا تے رہیں گے ،اور ان سے ایسی باتیں سنوگے جس سے تمہیں دُکھ پہونچے گا ، دشمن اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے گا ، تمہیں ان کی ایذائوں سے اور بد زبانیوں سےگھبرانا نہیں چاہیئے ، صبر اختیار کرو اور تقویٰ کو ہاتھ سے جانے نہ دو ، تمہارے لئے اسی میں خیر ہے اور صبر وتقویٰ اختیار کرنا ہمت کے کاموں میں سے ہے ، صبر کرنے سے تسلی ہوتی ہے اور تقویٰ سے اعمالِ صالحہ کی تکمیل ہوتی ہے ،جب یہ دونوں چیزیں اختیار کریں تو دشمن کی دل آزاریوں سے صرف نظر کرناآسان ہوگا۔
یہ سوال ذہن میں آئے گا کہ ان کافروں ، ظالموں کا کیا انجام ہوگا؟تو ظلم نہ کبھی باقی رہا نہ باقی رہے گا ، چند روزہ زندگی میں ظالم یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کو کوئی پکڑنے والا نہیں ، حالاں کہ وہ بہت جلد اس دنیا میں یاآخرت میں ضرور اپنے کئے کو بھگتیںگے ، پڑھئے! حق تعالیٰ نے پچھلی قوموں کو کیا جواب دیا جب انہوںنے اپنے پیغمبروں سے حجت کی ۔
ارشاد ہے:وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا۝۰ۭ فَاَوْحٰٓى اِلَيْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِكَنَّ الظّٰلِـمِيْنَ۝۱۳ۙ وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ۝۰ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِيْ وَخَافَ وَعِيْدِ۝۱۴ (اور اُن کفار نےاپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تم کو اپنی سر زمین سےنکال دیں گے ، یا یہ کہ تم ہمارے مذہب میں پھر آجائو ، پس ان رسولوں پر ان کےرب نے وحی نازل فرمائی کہ ہم ان ظالموں کو ضرور ہلاک کریں گے اور ان کے بعد تم کو اس سرزمین میں آباد رکھیں گے ،یہ ہر اس شخص کے لئے ہے جو میرے روبرو کھڑے ہونے سےڈرے اور میری وعید سےڈرے ) (سورۂ ابراھیم: ۱۴)
بس مسلمان حالات کا رونا رونے ، پست ہمت ہونے ، خوف وہراس میں مبتلا ہونے سے باز آئیں ،عزم وحوصلہ کےساتھ حالات کا مقابلہ کریں ، طیش میں آکر غلط اقدام کرنے اور مزید اپنا نقصان کرنے کے بجائے رجوع الی اللہ کریں ، اُس کے احکام کو اپنی عملی زندگی میں لانے کی فکر وسعی کریں ، اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا، ہماری زبانوں پر دلوں میں وہی بات ہونی چاہیئے جو پچھلے ایمان والوں نے کہی:وَمَا لَنَآ اَلَّانَتَوَكَّلَ عَلَي اللہِ وَقَدْ ہَدٰىنَا سُبُلَنَا۝۰ۭ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلٰي مَآ اٰذَيْتُمُوْنَا۝۰ۭ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۝۱۲ۧ ’’ ہمیں اللہ پر بھروسہ کرنے میں کونسا امر مانع ہے جب کہ اس نے ہم کو(دنیا وآخرت کی بھلائی کے) ہمارےراستے بتلائےاور تم نے جو کچھ ہم کو ایذا پہنچائی ہے ہم اس پر صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے ۔ ‘‘
اللہ پاک ہم کو صبر وہمت سے کام لینےاور اپنے احکام کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×